Madarik-ut-Tanzil - An-Naml : 67
وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبًا وَّ اٰبَآؤُنَاۤ اَئِنَّا لَمُخْرَجُوْنَ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) ءَاِذَا : کیا جب كُنَّا : ہم ہوجائیں گے تُرٰبًا : مٹی وَّاٰبَآؤُنَآ : اور ہمارے باپ دادا اَئِنَّا : کیا ہم لَمُخْرَجُوْنَ : نکالے جائیں گے البتہ
اور جو لوگ کافر ہیں کہتے ہیں کہ جب ہم اور ہمارے باپ دادا مٹی ہوجائیں گے تو کیا ہم پھر قبروں سے نکالے جائیں گے ؟
67: وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ئَ اِذَا کُنَّا تُرٰبًا وَّ اٰبَآؤُنَا اَپنَّا لَمُخْرَجُوْنَ (اور کافروں نے کہا۔ جب ہم خاک ہوگئے اور ہمارے باپ دادا بھی تو کیا ہم برآمد کیے جائیں گے) ۔ اپنی قبور سے زندہ کر کے ؟ قراءت : عاصم ٗ حمزہ و خلف کی قراءت میں اذا اور ان میں حرف دوبارہ تکریر سے آیا ہے۔ یہ در حقیقت انکار کے بعد انکار ہے۔ شدید انکار کے بعد شدید انکار۔ اور یہ ان کے کفر کے مؤکد اور شدید ہونے کی دلیل ہے۔ نحو : اذا کا عامل وہ ہے جس پر لمخرجون دلالت کرتا ہے اے نخرج۔ کیونکہ اسم فاعل اور مفعول ہمزئہ استفہام کے بعد ہیں۔ نمبر 2۔ اسم فاعل و مفعول اِنّ کے بعد ہیں۔ نمبر 3۔ لام ابتداء کے بعد ہے۔ ان تینوں صورتوں میں جب الگ ہونے کی حالت میں اسم فاعل و مفعول ماقبل میں عمل نہیں کرتے۔ تو پھر کیسے جب جمع ہوگئے تو عمل کریں گے۔ اس لئے نخرج نکالنا پڑا۔ اِنّا کی ضمیر کفار اور ان کے آباء کی طرف راجع ہے۔ کیونکہ مٹی ہونے میں وہ اور ان کے آباء سب شامل ہیں لیکن حکایت کو غائب پر غلبہ دیا اور آباؤنا کا عطف کُنّا کی ضمیر پر ہے۔ کیونکہ مفعول تاکید کے قائم مقام آیا ہے۔
Top