Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 193
وَ اِنْ تَدْعُوْهُمْ اِلَى الْهُدٰى لَا یَتَّبِعُوْكُمْ١ؕ سَوَآءٌ عَلَیْكُمْ اَدَعَوْتُمُوْهُمْ اَمْ اَنْتُمْ صَامِتُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر تَدْعُوْهُمْ : تم انہیں بلاؤ اِلَى : طرف الْهُدٰى : ہدایت لَا يَتَّبِعُوْكُمْ : نہ پیروی کریں تمہاری سَوَآءٌ : برابر عَلَيْكُمْ : تم پر (تمہارے لیے) اَدَعَوْتُمُوْهُمْ : خواہ تم انہیں بلاؤ اَمْ : یا اَنْتُمْ : تم صَامِتُوْنَ : خاموش رہو
اگر تم ان کو سیدھے رستے کی طرف بلاؤ تو تمہارا کہا نہ مانیں۔ تمہارے لیے برابر ہے کہ تم ان کو بلاؤ یا چپکے ہو رہو
وان تدعو ہم الی الہدی لا یتعبوکم سوآء علیکم ادعوتموہم ام انتم صامتون : اور اگر تم ان کو راہ راست کی طرف بلاؤ تو تمہارے کہنے پر نہیں چلتے تمہارے اعتبار سے دونوں امر برابر ہیں خواہ تم ان کو پکارو یا خاموش رہو۔ سواء علیکم ادعوتموہم ام انتم صامتون بجائے (صمتم) فعل کے (صامتون) اسم فاعل ذکر کیا یا تو صرف آیات کے مقاطع کے لحاظ سے یا غیر مفید ہونے کو پُر زور طور پر ظاہر کرنے کے لئے کہ تمہارا ان کو پکارا بھی خاموش رہنے کے برابر بےسود ہے (نہ پکارنے سے تم کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے نہ خاموش رہنے سے) یا اسلوب ادا کو بدلنے کی یہ وجہ ہے کہ (فعل حدوث و تجدد پر دلالت کرتا ہے اور اسم دوام و استمرار پر اور) مشرک اپنی اغراض کے لئے تو بتوں کو پکارتے نہ تھے (عرض مقاصد کے وقت خاموش رہنا ان کی عادت جاریہ تھی جس پر وہ قائم تھے) اغراض کے لئے پکارنا ایک نئی بات ہوگی اس لئے فرمایا کہ (خلاف معمول اور برخلاف عادت) ان کو پکارنا یا (حسب معمول) خاموشی پر قائم رہنا دونوں غیر مفید اور بےسود ہونے میں برابر ہیں۔
Top