Tafseer-e-Madani - Al-A'raaf : 193
وَ اِنْ تَدْعُوْهُمْ اِلَى الْهُدٰى لَا یَتَّبِعُوْكُمْ١ؕ سَوَآءٌ عَلَیْكُمْ اَدَعَوْتُمُوْهُمْ اَمْ اَنْتُمْ صَامِتُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر تَدْعُوْهُمْ : تم انہیں بلاؤ اِلَى : طرف الْهُدٰى : ہدایت لَا يَتَّبِعُوْكُمْ : نہ پیروی کریں تمہاری سَوَآءٌ : برابر عَلَيْكُمْ : تم پر (تمہارے لیے) اَدَعَوْتُمُوْهُمْ : خواہ تم انہیں بلاؤ اَمْ : یا اَنْتُمْ : تم صَامِتُوْنَ : خاموش رہو
اور اگر تم انہیں سیدھی راہ کی طرف بلاؤ تو وہ تمہارے کہنے پر نہ چلیں،1 برابر ہے تمہارے حق میں کہ خواہ تم انہیں پکارو یا تم خاموش ہو (وہ بہرحال سننے ماننے کے نہیں)
270 حاجت روا و مشکل کشا سب کا اللہ ہی ہے : سو اللہ کے سوا کسی کو بھی مافوق الاسباب اور خرق عادت کے طور پر حاجت روائی اور مشکل کشائی کیلئے پکارنا پرلے درجے کی حماقت ہے کہ وہ سننے والے ہی نہیں ہیں کہ ان کے اندر اس کی اہلیت اور صلاحیت ہی نہیں۔ تو پھر ان کو حاجت روا و مشکل کشا ماننا کس قدر حماقت اور کیسی بلادت ہے ؟ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو ان میں سے جو لکڑی پتھر وغیرہ کے خود ساختہ اور من گھڑت بت ہیں ان میں تو ایسی کوئی صلاحیت سرے سے تھی ہی نہیں۔ اور ہوسکتی ہی نہیں کہ وہ کسی کی بات کو سن سکیں۔ رہیں وہ زندہ اور بزرگ ہستیاں جو اپنی زندگی میں دوسروں کی بات سنتے تھیں، اپنی موت کے بعد وہ بھی اس قابل نہیں رہیں کہ کسی کی کوئی دعاء و فریاد سن سکیں۔ اسی لیے ان کو منوں مٹی تلے دفن کردیا جاتا ہے۔ سو اللہ کے سوا کسی کو بھی اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کیلئے پکارنا سراسر حماقت اور پرلے درجے کی جہالت ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو جو نہ سن سکے نہ مان سکے اس کی پوجا کرنا اور اس کو حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے پکارنا بڑی حماقت اور جہالت ہے۔ سو یہ ارشاد ایسے ہی ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد سے کہا تھا کہ " ابا جان آپ ایسی چیزوں کی پوجا کیوں کرتے ہیں جو نہ سن سکیں نہ دیکھ سکیں اور نہ آپ کے کچھ کام آسکیں ؟ " { یَا اَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یَسْمَعُ وَلَا یُبْصِرُ وَ لَا یُغْنِیْ عَنْکَ شَیْئًا }۔
Top