Madarik-ut-Tanzil - Al-Baqara : 30
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ الّٰتِیْۤ اٰتَیْتَ اُجُوْرَهُنَّ وَ مَا مَلَكَتْ یَمِیْنُكَ مِمَّاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلَیْكَ وَ بَنٰتِ عَمِّكَ وَ بَنٰتِ عَمّٰتِكَ وَ بَنٰتِ خَالِكَ وَ بَنٰتِ خٰلٰتِكَ الّٰتِیْ هَاجَرْنَ مَعَكَ١٘ وَ امْرَاَةً مُّؤْمِنَةً اِنْ وَّهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِیِّ اِنْ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنْ یَّسْتَنْكِحَهَا١ۗ خَالِصَةً لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ١ؕ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَیْهِمْ فِیْۤ اَزْوَاجِهِمْ وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ لِكَیْلَا یَكُوْنَ عَلَیْكَ حَرَجٌ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی اِنَّآ اَحْلَلْنَا : ہم نے حلال کیں لَكَ : تمہارے لیے اَزْوَاجَكَ : تمہاری بیبیاں الّٰتِيْٓ : وہ جو کہ اٰتَيْتَ : تم نے دے دیا اُجُوْرَهُنَّ : ان کا مہر وَمَا : اور جو مَلَكَتْ : مالک ہوا يَمِيْنُكَ : تمہارا دایاں ہاتھ مِمَّآ : ان سے جو اَفَآءَ اللّٰهُ : اللہ نے ہاتھ لگا دیں عَلَيْكَ : تمہارے وَبَنٰتِ عَمِّكَ : اور تمہارے چچا کی بیٹیاں وَبَنٰتِ عَمّٰتِكَ : اور تمہاری پھوپیوں کی بیٹیاں وَبَنٰتِ خَالِكَ : اور تمہاری ماموں کی بیٹیاں وَبَنٰتِ خٰلٰتِكَ : اور تمہاری خالاؤں کی بیٹیاں الّٰتِيْ : وہ جنہوں نے هَاجَرْنَ : انہوں نے ہجرت کی مَعَكَ ۡ : تمہارے ساتھ وَامْرَاَةً : اور مومن مُّؤْمِنَةً : عورت اِنْ : اگر وَّهَبَتْ : وہ بخش دے (نذر کردے نَفْسَهَا : اپنے آپ کو لِلنَّبِيِّ : نبی کے لیے اِنْ : اگر اَرَادَ النَّبِيُّ : چاہے نبی اَنْ : کہ يَّسْتَنْكِحَهَا ۤ : اسے نکاح میں لے لے خَالِصَةً : خاص لَّكَ : تمہارے لیے مِنْ دُوْنِ : علاوہ الْمُؤْمِنِيْنَ ۭ : مومنوں قَدْ عَلِمْنَا : البتہ ہمیں معلوم ہے مَا فَرَضْنَا : جو ہم نے فرض کیا عَلَيْهِمْ : ان پر فِيْٓ : میں اَزْوَاجِهِمْ : ان کی عورتیں وَمَا : اور جو مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ : مالک ہوئے ان کے داہنے ہاتھ (کنیزیں) لِكَيْلَا يَكُوْنَ : تاکہ نہ رہے عَلَيْكَ : تم پر حَرَجٌ ۭ : کوئی تنگی وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
اے پیغمبر ﷺ ہم نے تمہارے لئے تمہاری بیویاں جن کو تم نے انکے مہر دے دیئے ہیں حلال کردی ہیں اور تمہاری لونڈیاں جو خدا نے تم کو (کفار سے) بطور مال غنیمت دلوائی ہیں اور تمہارے چچا کی بیٹیاں اور تمہاری پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تمہارے ماموؤں کی بیٹیاں اور تمہارے خالاؤں کی بیٹیاں جو تمہارے ساتھ وطن چھوڑ کر آئی ہیں (سب حلال ہیں) اور کوئی مومن عورت اپنے تئیں پیغمبر کو بخش دے (یعنی مہر لینے کے بغیر نکاح میں آنا چاہے) بشرطیکہ پیغمبر بھی ان سے نکاح کرنا چاہیں (وہ بھی حلال ہیں لیکن) یہ اجازت (اے محمد ﷺ خاص تم کو ہی ہے سب مسلمانوں کو نہیں ہم نے ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں جو (مہر واجب الادا) مقرر کردیا ہے ہم کو معلوم ہے (یہ) اس لئے (کیا گیا ہے) کہ تم پر کسی طرح کی تنگی نہ رہے اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
نہم شرط ‘ تابید نکاح ہے : 50: یٰٓـاَیـُّھَا النَّبِیُّ اِنَّـآ اَحْلَلْنَا لَکَ اَزْوَاجَکَ الّٰتِیْ (اے نبی مکرم (ﷺ) ہم نے آپ کیلئے آپ کی یہ بیویاں جن کے مہر) اٰتَیْتَ اُجُوْرَھُنَّ (آپ دے چکے ہیں حلال کی ہیں) اجور کا معنی مہر ہے۔ کیونکہ مہر بضع کا بدلہ ہے۔ ( اتیت اجورھن کی قید احترازی نہیں۔ واقعی ہے کیونکہ آپ جلد ادا فرماتے تھے) کرخی (رح) کا قول : لفظ اجارہ سے نکاح اسی لئے جائز ہے کیونکہ مہرکو اجور فرمایا۔ جواب کرخی m : نکاح کی شرط تابید ہے اور اجارہ کی شرط تاقیت ہے اور دونوں میں منافات ہے اور ایتائو ھاؔ کا معنی اعطاء ھا عا جلاً ان کو جلد ادا کرنا یا اس کو مقرر کرنا اور عقد میں اس کا نام لینا ہے۔ وَمَا مَلَکَتْ یَمِیْنُکَ مِمَّااَفَآئَ اللّٰہُ عَلَیْکَ ( اور وہ عورتیں بھی جو تمہاری مملوکہ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو غنیمت میں دلوادی ہیں) وہ صفیہ، جو یریہ ہیں ان دونوں کو آزاد کر کے ان سے نکاح فرمالیا۔ وَبَنٰتِ عَمِّکَ وَبَنٰتِ عَمّٰتِکَ وَبَنٰتِ خَالِکَ وَبَنٰتِ (اور آپ کے چچا کی بیٹیاں اور پھوپھیوں کی بیٹیاں اور ماموئوں کی بیٹیاں اور خالہ) ۔ خٰلٰتِکَ الّٰتِیْ ھَاجَرْنَ مَعَکَ (کی بیٹیاں وہ جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی) معؔ کا لفظ یہاں مقارنت کیلئے نہیں بلکہ فقط وجود ہجرت کو ثابت کرنے کیلئے ہے جیسا کہ اس ارشاد میں ص واسلمت مع سلیمان ] النمل : 44 [ امّ ہانی بنت ابی طالب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے پیغام نکاح بھیجا میں نے معذرت پیش کی۔ آپ نے میرے عذر کو قبول فرمایا۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری پس آپ کے لئے یہ (نکاح کرنا) حلال نہ قرار دیا گیا کیونکہ میں نے ہجرت نہ کی تھی۔ ] ترمذی : 3214[ وَامْرَاَۃً مُّؤْمِنَۃً اِنْ وَّ ھَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِیِّ (اور اس مومنہ عورت کو جو بلا عوض اپنے کو پیغمبرکو دیدے) اور آپ کے لئے حلال کردیا ہم نے اس عورت کو جو اپنے نفس کو آپ کے ہبہ کر دے اور یہ عورت مہر طلب نہ کرے اگر ایسا اتفاق ہو۔ اسی لئے امراۃ مؤمنۃ نکرہ لایا گیا۔ قول ابن عباس ؓ : یہ مستقبل کے حکم کو بیان کیا ہے۔ حالانکہ کوئی عورت ہبہ والی آپ کے ہاں نہ تھی۔ ایک قول یہ ہے کہ نفس کو ہبہ کرنے والی عورت آپ کے ہاں میمونہ بنت الحارث یا زینب بنت خزیمہ یا اُمّ شریک بنت جابر یا خولہ بنت حکیم تھیں۔ قراءت : حسن (رح) نے اَنْ وھبت پڑھا اور ان کو تعلیلیہ قرار دیا۔ اور لام کو محذوف مانا لان وھبت۔ اور ابن مسعود ؓ نے بغیر ان کے پڑھا۔ اِنْ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنْ یَّسْتَنْکِحَھَا (اگر پیغمبر اس کو نکاح میں لانا چاہیں) اور اس کی طرف نکاح کی رغبت رکھتے ہوں۔ ایک قول یہ ہے نکح اور استنکح کا ایک معنی ہے دوسری شرط پہلی شرط کے لئے قید ہے حلال ہونے کی شرط یہ ٹھہرائی گئی ہے وہ عورت اپنا آپ آپ کو ہبہ کردے اور ہبہ میں نکاح کی طلب کا ارادہ خودموجود ہے گویا اس طرح فرمایا احللناھا لک ان وھبت لک نفسھا وانت ترید ان تستنکحھا اوارادتہھی : قبول الھبۃ وما بہٖ تتم۔ ہم نے آپ کے لیے حلال کردیا اگر وہ اپنا آپ آپ کو ہبہ کردے اور آپ اس سے نکاح کرنا چاہتے ہوں۔ اور آپ کا ارادہ ہی قبول ہے جس سے وہ نکاح ہبہ تکمیل پذیر ہوگا۔ فائدہ : اس میں دلیل ہے کہ لفظ ہبہ سے نکاح جائز ہے کیونکہ رسول ﷺ اور آپ کی امت احکام میں برابر ہیں سوائے ان احکام کے جن کو دلیل آپ کے لئے خاص ثابت کر دے۔ خَالِصَۃً (یہ مخصوص ہے آپ کے لئے) بلا مہر نکاح۔ نحو : یہ وھبت کی ضمیر سے حال ہے نمبر 2۔ مصدر مؤکد ہے تقدیرکلام یہ ہوگی خلص لک احلال ما احللنالک خالصۃ تمہارے لئے مخصوص کردیا گیا اس چیز کا حلال کرنا جو کہ ہم نے آپ کیلئے حلال کیا خصوصاً اور مصادر فاعِلۃ کے وزن پر کثرت سے آتے ہیں۔ مثلاً العاقبۃ، الکاذبۃ۔ لَّکَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ (نہ کہ دوسرے مؤمنین کیلئے) دوسروں کیلئے مہر واجب ہے خواہ اس وقت مذکور ہو یا اس کی نفی کردی گئی ہو۔ حکمتیں : اولاً خطابی انداز تھا پھر اس کلام کو غیبت کی طرف موڑ دیا ان اراد النبی میں پھر خطاب کی طرف کلام کو لوٹایا تاکہ اعلان کردیا جائے کہ یہ اختصاص نبوت کی وجہ سے بطور تکریم فرمایا گیا ہے۔ اور اس کو باربارعظمت شان کیلئے ذکر کیا۔ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَیْھِمْ فِیْ اَزْوَاجِھِمْ (ہم کو وہ احکام معلوم ہیں جو ہم نے ان پر ان کی بیبیوں) یعنی جو مہر ہم نے آپ کی امت پر ان کی زوجات کے سلسلہ میں واجب کیے ہیں۔ نمبر 2۔ جو ہم نے ان کی ازواج کے سلسلہ میں حقوق لازم کیے ہیں۔ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ (اور لونڈیوں کے بارے میں مقرر کیے ہیں) ملکیت کے طور پر ان کو خرید لینے کی بناء پر لِکَیْلَا یَکُوْنَ عَلَیْکَ حَرَجٌ (تاکہ آپ پر کسی قسم کی تنگی نہ ہو) حرج کا معنی تنگی ہے یہ آیت کا حصہ خالصۃً لک من دون المؤمنین سے متصل ہے۔ اور قد علمنا ما فرضنا علیہم فی ازواجہم وما ملکت ایمانہم یہ جملہ معترضہ ہے۔ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا (اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہیں) ۔ وہ اپنے بندوں پر وسعت فرمانے والے ہیں۔
Top