Madarik-ut-Tanzil - Al-Hashr : 23
لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَیْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَةِ اللّٰهِ١ؕ وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ
لَوْ اَنْزَلْنَا : اگر ہم نازل کرتے هٰذَا الْقُرْاٰنَ : یہ قرآن عَلٰي جَبَلٍ : پہاڑ پر لَّرَاَيْتَهٗ : تو تم دیکھتے اس کو خَاشِعًا : دبا ہوا مُّتَصَدِّعًا : ٹکڑے ٹکڑے ہوا مِّنْ خَشْيَةِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کے خوف سے وَتِلْكَ : اور یہ الْاَمْثَالُ : مثالیں نَضْرِبُهَا : ہم وہ بیان کرتے ہیں لِلنَّاسِ : لوگوں کیلئے لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَفَكَّرُوْنَ : غور وفکر کریں
اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو تم دیکھتے کہ خدا کے خوف سے دبا اور پھٹا جاتا ہے اور یہ باتیں ہم لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور و فکر کریں
عظمت قرآن : 21 : لَوْ اَنْزَلْنَا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلَی جَبَلٍ لَّرَاَیْتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ (اور اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو تو اس کو دیکھتا کہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے دب جاتا اور پھٹ جاتا) مطلب یہ ہے کہ قرآن کی عظمت و شان کا تقاضا یہ ہے کہ اگر کسی پہاڑ میں تمیز ڈال دی جائے۔ اور اس پر قرآن مجیدا تارا جائے تو وہ ضرور دب جائے جھک جائے۔ اور خوف الٰہی سے پھٹ جاتا۔ نمبر 2۔ اور یہ بھی درست ہے کہ یہ تمثیل ہو جیسا کہ اس قول باری تعالیٰ میں۔ انا عرضنا الامانۃ ] الاحزاب : 72[ اور اس پر آیت کا اگلا حصہ دلالت کر رہا ہے۔ وتلک الا مثال نضربھا للناس لعلھم یتفکرون۔ اس میں اس مثال اور اس جیسی دیگرامثلہ کی طرف اشارہ ہے۔ جو قرآن مجید میں بیان ہوئیں۔ وَتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُھَا لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ (اور ان مضامین عجیبہ کو ہم لوگوں کے فائدہ کیلئے بیان کرتے ہیں تاکہ غور کریں) اصل مقصود : انسان کی سخت دلی پر اس کو خبردار کیا گیا کہ تلاوت قرآن کے وقت تجھ میں جتنا خشوع ہونا چاہیے وہ پایا نہیں جاتا اور اس کے زواجر و تنبیہات پر جیسا غور و فکر چاہیے ایسا نہیں کیا جاتا ہے۔
Top