Al-Qurtubi - Al-Hashr : 23
هُوَ اللّٰهُ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ اَلْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ١ؕ سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
هُوَ اللّٰهُ : وہ اللہ الَّذِيْ : وہ جس لَآ اِلٰهَ : نہیں کوئی معبود اِلَّا هُوَ ۚ : اس کے سوا اَلْمَلِكُ : بادشاہ الْقُدُّوْسُ : نہایت پاک السَّلٰمُ : سلامتی الْمُؤْمِنُ : امن دینے والا الْمُهَيْمِنُ : نگہبان الْعَزِيْزُ : غالب الْجَبَّارُ : زبردست الْمُتَكَبِّرُ ۭ : بڑائی والا سُبْحٰنَ : پاک اللّٰهِ : اللہ عَمَّا : اس سے جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک کرتے ہیں
وہی خدا ہے جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں۔ بادشاہ حقیقی پاک ذات (ہر عیب سے) سالم امن دینے والا نگہبان غالب زبردست بڑائی والا۔ خدا ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے۔
تفسیر ھو اللہ …… ہر نقص سے منزہ اور ہر عیب سے پاک۔ قدس اہل حجاز کی لغت میں سطل (ایک برتن) کو کہتے ہیں کیونکہ اس کے ساتھ پاکیزگی حاصل کی جاتی ہے۔ اس سے قادرس ہے یہ لفط اس برتن کے لئے بولا جاتا ہے جس کے ساتھ کنویں سے پانی نکالا جاتا ہے اور اونٹنی سے مدد لی جاتی ہے۔ سیبو یہ کہا کرتے تھے : قدوس اور سبوح دونوں میں پہلالفظ مفتوح ہے۔ اور ابو حاتم نے یعقوب سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے کسائی کے نزدیک ایک فصیح بدو کو سن اجس کو ابو دینار کہتے وہ پڑھ رہا تھا۔ القدوس یعنی قاف پر فتحہ پڑھ رہا تھا۔ ثعلب نے کہا : ہر اسم جو فعول کے وزن پر ہو اس کا پہلا حرف مفتوح ہوتا ہے جس طرح سفرد، کلوب، تنور، سمود، سبو مگر السبو 3 اور القدوس کیونکہ ان دونوں میں اکثر ضمہ آتا ہے۔ بعض اوقات ان دونوں پر فتحہ آتا ہے : اسی طرح ذروح بعض اوقات اس کو فتحہ دیا جاتا ہے۔ السلم وہ نقائص سے سلامت ہے۔ ابن عربی نے کہا : علماء کا اتفاق ہے کہ لفظ السلام جب اللہ تعالیٰ کے بارے میں بولا جائے تو یہ نسبت کے معنی میں ہوگا تقدیر ہوگا ذو السلام ۃ پھر اس اسم منسوب کے ترجمہ میں اختلاف ہے۔ وہ ہر عیب سے سلامت اور ہر نقص سے بری ہے۔ ذوالسلام جنت میں اپنے بندوں کو سلام کرنے والا جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا : سلم قولا من رب رحیم۔ (یس) مخلوق اس کے ظلم سے محفوظ ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ خطابی کا قول ہے اسے اور اسے سے قبل جو اسم ہے اس پر صفات افعال کا اطلاق ہوگا۔ یہ تعبیر کی جائے وہ عیوب و نقائص سے بری ہے تو یہ صفت ذات میں سے ہوگا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ السلام کا معنی ہے وہ اپنے بندوں کو سلام کرنے والا ہے۔ المومن وہ اپنے رسولوں کی تصدیق کرنے والا ہے کہ ان کے ہاتھوں سے معجزات کا ظہور فرماتا ہے۔ مومنوں سے ثواب کا جو وعدہ کیا اس کی تصدیق کرنے والا ہے اور کافرین کو جو عقاب کی دھمکی دی اس کو سچ کر دکھانے والا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ مومن اسے کہتے ہیں جو اپنے اولیاء کو عذاب سے محفوظ رکھتا ہے اور اپنے بندوں کو ظلم سے محفوظ رکھتا ہے یہ جملہ بولا جاتا ہے : آمنہ یہ امان سے مشتق ہے جو خوف کی ضد ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ……۔ (القریش) اس سے اسم فاعل مومن ہے۔ مجاہد نے کہا : مومن اسے کہتے ہیں جس نے اپنی وحدانیت کا اظہار اپنے اس ارشاد سے کیا : ……(آل عمران : 18) حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : جب قیامت کا روز ہوگا اللہ تعالیٰ اہل توحید کو آگ سے نکالے گا، سب سے پہلے جہنم سے جو نکلے گا وہ وہ ہوگا جس کا نام نبی کریم ﷺ کے نام کے موافق ہوگا جب جہنم میں کوئی ایسا نہیں رہے گا جس کا نام نبی کریم ﷺ کے موافق ہو تو اللہ تعالیٰ باقی سے فرمائے گا : تم مسلمان ہو اور امین السلام ہوں تم مومنین ہو اور میں مومن ہوں تو اللہ تعالیٰ ان دو ناموں کی برکت سے انہیں جہنم سے باہر نکالے گا۔ المھیمن العزیز سورة مائدہ لیں المھیمن اور مواقع پر العزیز کے بارے میں گفتگو گزر چکی ہے۔ الجبار حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اس سے مراد عظیم ہے (1) ۔ جبروت اللہ سے مراد اس کی عظمت ہے۔ اس تعبیر کی بنا پر یہ صفت ذات ہے۔ اس معنی میں ان کا قول ہے : نخلۃ جبارۃ کھجور کا بڑا درخت۔ یہ اسم اللہ تعالیٰ کی عظمت اور تقدیس پر دلالت کرتا ہے کہ نقائص اور صفات حادث اس کا لاحق ہوں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ جبر سے ماخوذ ہے جس کا معنی اصلطاح ہے۔ یہ جملہ بولا جاتا ہے : جبرت العظم فجبر میں نے ہڈی کو درست کیا تو وہ ہڈی درست ہوگئی۔ یہ جبر سے فعال کے وزن پر ہے۔ جب وہ ٹوٹی ہوئی چیز کو درست کردے اور فقیر کو غنی کردے۔ فراء نے کہا : یہاجبرہ علی الامر سے مشتق ہے جس کا معنی ہے اس پر غلبہ پا لیا۔ کہا : لغت میں باب افعال سے فعال کا وزن نہیں آتا مگر جباریہ اجبر سے اور دراک یہ ادرک سے استعمال ہوتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : جبار اسے کہتے ہیں جس کی سطوت کی طاقت نہ رکھی جائے۔ المتکبر وہ اپنی ربوبیت کی وجہ سے متکبر ہے، اس کی مثل کوئی نہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ ہر برائی سے بالا ہے اور ہر نامناسب چیز جیسے حادث اور مذمت کی صفات سے عظی ہے (2) ۔ کبر اور کبریاء کا اصل معنی رکنا اور اطاعت نہ کرنا ہے۔ کبریاء اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے صفات مدح میں شمار ہوتی ہے اور مخلوق کی صفات میں صفات مذمت میں سے ہے۔ صحیح میں حضرت ابوہریرہ ؓ روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے رب کا فرمان حدیث قدسی کی صورت میں بیان کیا ہے : الکبریاء ردای العظمۃ ازاری فمن ………(3) کبریائی میری چادر اور عظمت میرا اعزاز ہے ان دونوں میں جس نے بھی مجھ سے منازعہ کیا میں اسے توڑ کر رکھ دوں گا پھر اسے آگ میں پھینک دوں گا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : متکبر کا معنی بلند ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس کا کا معنی کبیر ہے کیونکہ وہ اس سے عظیم ہے کہ وہ کبر کا تکلف کرے۔ بعض اوقات تظلم، طلم کے معنی میں، تشتم، شتم کے معنی میں اور استقر، قر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس طرح متکبر، کبیر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ اس طرح نہیں جس طرح مخلوق کے لئے اس صیغہ کے ساتھ صفت بیان کی جاتی ہے کیونکہ جب کسی مخلوق کی اس صیغہ کے ساتھ صفت بیان کی جائے تو وہ اس میں نہیں پائی جاتی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی پاکی بیان فرمائی فرمایا : …… کرن اپنی عظمت اور جلالت کی پاکی بیان کی۔
Top