Tadabbur-e-Quran - Al-Hashr : 23
هُوَ اللّٰهُ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ اَلْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ١ؕ سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
هُوَ اللّٰهُ : وہ اللہ الَّذِيْ : وہ جس لَآ اِلٰهَ : نہیں کوئی معبود اِلَّا هُوَ ۚ : اس کے سوا اَلْمَلِكُ : بادشاہ الْقُدُّوْسُ : نہایت پاک السَّلٰمُ : سلامتی الْمُؤْمِنُ : امن دینے والا الْمُهَيْمِنُ : نگہبان الْعَزِيْزُ : غالب الْجَبَّارُ : زبردست الْمُتَكَبِّرُ ۭ : بڑائی والا سُبْحٰنَ : پاک اللّٰهِ : اللہ عَمَّا : اس سے جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک کرتے ہیں
وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ بادشاہ، یکسر پاک، سراپا سکھ، امن بخش، معتمد، غالب، زور آور، صاحب کبریا، اللہ پاک ہے ان چیزوں سے جن کو لوگ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں
(ھو اللہ الذی لا الہ الا ھو الملک القدوس السلم المومن المھیمن العزیز الجبار والمتکبر سبحن اللہ عما یشرکون) (23)۔ اس آیت میں پہلے تو اسی ٹکڑے کا اعادہ ہے جو اوپر والی آیت میں گزرا جس سے معلوم ہوا کہ شرک کی نفی اور توحید کا اثبات یہاں سب سے زیادہ اہمیت کے ساتھ مد نظر ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ خدا کی صفات کے باب میں ساری گمراہی شرک ہی سے پیدا ہوتی ہے اور جب ان صفات ہی پر، جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا، تمام دین و شریعت کی بنیاد ہے، تو ضروری ہوا کہ اس بنیاد پر کجی کے ہر امکان کا سدباب کردیا جائے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے اسمائے حتی میں سے آٹھ اسماء اتصال کے ساتھ بیانے ہوئے ہیں یعنی ان کے درمیان کوئی حرف عطف نہیں ہے۔ ہم عربیت کے اس قاعدے کی وضاحت اس کے محل میں کرچکے ہیں کہ جب صفات اس طرح بغیر حرف عطف کے آئیں تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ یہ تمام صفات موصوف میں بیک وقت پائی جاتی ہیں۔ (الملک) یعنی وہ بادشاہ ہے اسی نے یہ دنیا پیدا کی ہے اور وہی بلاشرکت غیرے اس کا مالک اور حکمران ہے۔ چناچہ اس نے اپنے اسی حق کی بناء پر اپنے رسول بھیجے تاکہ وہ اس کے بندوں کو اس کے احکام سے آگاہ کریں اور بندے ان کی تعمیل کر کے اپنے بادشاہ حقیقی کی خوشنودی حاصل کریں۔ (القدوس) وہ ہر عیب ہر نقش اور برائی و خرابی سے بالکل پاک و منزہ ہے اس وجہ سے اس نے اپنے بندوں کو پاکیزہ بنانے کے لیے کتاب اتاری اور رسول بھیجے تاکہ بندے پاکیزہ بن کر اس کا قرب حاصل کرنے کے اہل بن سکیں۔ سورة جمعہ میں (ملک) اور (قدوس) دونوں صفتوں کا حوالہ دے کر ان کا مقتضی واضح فرمادیا ہے۔ پہلے اپنی صفات کا حوالہ ان الفاظ میں دیا (الملک القدوس العزیز الحکیم) (1) اس کے بعد اپنی ان صفات کا مقتضی اس طرح واضح فرمایا (ھو الذی بعث فی الامین رسولا منھم یتلوا علیھم ایتہ و یزکیھم) (2) (وہی ہے جس نے اٹھایا امیوں میں ایک رسول انہی میں سے جو اس کی آیتوں کی تلاوت اور ان کا تزکیہ کرتا ہے) غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ رسول اور کتاب تو اس نے اسے لیے بھیجے کہ وہ بادشاہ ہے، اس کے بادشاہ ہونے کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ وہ اپنی رعیت کے پاس اپنے سفیر بھی بھیجے اور اپنے احکام بھی اور اپنے بندوں کا تزکیہ اس وجہ سے اس نے چاہا کہ وہ قدوس اور پاک ہے۔ وہ یہ نہیں پسند کرسکتا کہ اس کے بندے گناہوں میں آلودہ رہیں۔ آگے عزیز اور حکیم کی صفتوں کے تقاضے بھی بیان ہوئے ہیں جن کی وضاحت ان کے محل میں انشاء اللہ آئے گی۔ (السلم) کے معنی سلامتی، سکھ اور چین کے ہیں۔ کسی کو سلامتی کو دعا دینی ہو تو ہم یہی لفظ استعمال کرتے ہیں۔ قرآن میں لیلۃ القدر کے متعلق فرمایا ہے (سلم ھی حتی مطلع الفجر) (القدر : 970، 5) (اس میں سلامتی ہی سلامتی ہے، وہ طلوع فجر تک ہے) یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لیے ہر آفت اور ہر خطرے سے امان اور سپر ہے۔ بندہ جب اپنے کو اس کو پناہ میں دے دیتا ہے تو وہ سکھ اور چین پاتا ہے۔ اس کی اسی صفت کا فین ہے کہ اس کی یاد دلوں کو سکینت و طمانیت بخشتی ہے۔ (الا بذکر اللہ تطمن تقلوب) (الرعد : 13، 28) (سن لو کہ اللہ ہی کی یاد سے دلوں کی طمانیت حاصل ہوتی ہے۔) (المومن) کے معنی ہیں امان دینے والا یعنی شیطان اور اس کے ایجنٹوں کے حملے سے بچنے کے لیے جب بندہ اس کی پناہ ڈھونڈتا ہے تو وہ اس کو اپنی پناہ میں لے لیتا ہے۔ یہ پناہ اس کے سوا اور کہیں بھی بندے کو حاصل نہیں ہو سکتی۔ شیطان کی رسائی خدا کے دامن کے سوا ہر جگہ ہے۔ (المھیمن) کے معنی خلیل اور ابو عبیدہ کے نزدیک نگران کے ہیں۔ ابن الابناری کے نزدیک (القائم علی الناس) یعنی لوگوں کے محافظ کے ہیں۔ امام فراہی ؒ کے نزدیک اس کے معنی معتمد اور وکیل کے ہیں۔ میرے نزدیک ان معانی میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ جو محافظ و نگران ہوتا ہے وہی در حقیقت معتمد اور وکیل ہوتا ہے۔ قرآن بھی (مھیمن) ہے اس لیے کہ تمام آسمانی صحیفوں کے لیے قابل اعتماد کسوٹی وہی ہے۔ (العزیز) کی وضاحت جگہ جگہ ہوچکی ہے۔ اس کے اندر رسائی سے بالا تر اور دست رسی سے مافوق ہونے کا مفہوم بھی ہے اور غالب و قوی ہونے کا بھی یعنی اس پر کوئی حاوی نہیں ہوسکتا، وہ سب کو شکست دے سکتا ہے۔ (الجبار) کے معنی زور آور اور تگڑے کے ہیں۔ عربی میں یہ لفظ کھجور کے ان درختوں کے لیے بھی آتا ہے جو غیر معمولی طور پر اونچے ہوں۔ قرآن میں یہ ان زور آوروں کے لیے بھی آیا ہے جن سے ڈر کر بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ ؑ سے فریاد کی تھی کہ (وَاِنَّا لَنْ نَّدْخُلَہَا حَتّٰی یَخْرُجُوْا مِنْہَاج فَاِنْ یَّخْرُجُوْا مِنْہَا فَاِنَّا دٰخِلُوْنَ۔) (المائدۃ : 5، 22) (اس بستی میں بڑے ہی زور آور اور تگڑے لوگ ہیں، جب تک وہ اس میں ہیں، ہم اس میں داخل ہونے کا حوصلہ نہیں کرسکتے)۔ یہ صفت ان تمام تصورات الوہیت کی نفی کرتی ہے جن میں ساری اہمیت دیویوں کو دی گئی ہے۔ (المتکبر) کے معنی ہیں اپنی بڑائی اور برتری کا احساس رکھنے والا، یہ احساس اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے اندر ہو تو باطل ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو بھی ایسی بڑائی حاصل نہیں ہے جو اس کی ذاتی ہو بلکہ جس کو بھی کوئی بڑائی حاصل ہے وہ اللہ ہی کی بخشی ہوئی ہے۔ البتہ اللہ تعالیٰ کے لیے تکبر زیبا اور بر حق ہے اس لیے کہ اس کی بڑائی ذاتی اور ازلی و ابدی ہے۔ اسکے اس احساس ہی کا یہ اثر ہے کہ وہ اپنی خدائی اور بادشاہی ہی کسی کی شرکت گوارا نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ کے اس شعور کی تعبیر دوسرے آسمانی صحیفوں میں یوں کی گئی ہے کہ تمہارا خداوند خدا غیور ہے۔ جس طرح تم یہ گوارا نہیں کرتے کہ تمہاری بیوی کسی غیر کی بغل میں سوئے اسی طرح وہ بھی گوارا نہیں کرتا کہ اس کا بندہ کسی غیر کی بندگی کرے۔ میرے نزدیک قرآن نے جو مضمون لفظ متکبر سے ادا کیا ہے دوسرے آسمانی صحیفوں میں وہی مضمون ’ غیور ‘ سے ادا کیا گیا ہے۔ (سبحن اللہ عما یشرکون) یعنی کہاں اللہ تعالیٰ کی یہ صفات جمال و کمال اور کہاں ان مشرکوں کے یہ مرضی دیوی دیوتا ! دونوں میں کیا نسبت ! ! جو خدا ان صفات سے متصف ہے، وہ اس سے ارفع ہے کہ اس کے ساتھ اس طرح کی چیزوں کا جوڑ ملایا جائے۔ اگر اس طرح کا کوئی جوڑ اس کے ساتھ ملایا جائے گا تو اس کی دوسری بنیادی صفات اس کو قبول کرنے سے ابلد کریں گی اور اگر زبردستی اسی کو چپکانے کی کوشش کی گئی تو اس کی صفات میں بےربطی پیدا ہوجائے گی۔
Top