Tafheem-ul-Quran - Al-Hashr : 22
هُوَ اللّٰهُ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِ١ۚ هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ
هُوَ اللّٰهُ : وہ اللہ الَّذِيْ : وہ جس لَآ اِلٰهَ : نہیں کوئی معبود اِلَّا هُوَ ۚ : اس کے سوا عٰلِمُ الْغَيْبِ : جاننے والا پوشیدہ کا وَالشَّهَادَةِ ۚ : اور آشکارا هُوَ الرَّحْمٰنُ : وہ بڑا مہربان الرَّحِيْمُ : رحم کرنے والا
32 وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، 33 غائب اور ظاہر ہر چیز کا جاننے والا، 34 وہی رحمٰن اور رحیم ہے۔ 35
سورة الْحَشْر 32 ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ خدا جس کی طرف سے یہ قرآن تمہاری طرف بھیجا گیا ہے، جس نے یہ ذمہ داریاں تم پر ڈالی ہیں، اور جس کے حضور بالآخر تمہیں جواب دہ ہونا ہے، وہ کیسا خدا ہے اور کیا اس کی صفات ہیں۔ اوپر کے مضمون کے بعد متصلاً صفات الہیٰ کا یہ بیان خود بخود انسان کے اندر یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ اس کا سابقہ کسی معمولی ہستی سے نہیں ہے بلکہ اس عظیم و جلیل ہستی سے ہے جس کی یہ اور یہ صفات ہیں۔ اس مقام پر یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ قرآن مجید میں اگرچہ جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کی صفات بےنظیر طریقے سے بیان کی گئی ہیں جن سے ذات الٰہی کا نہایت واضح تصور حاصل ہوتا ہے، لیکن دو مقامات ایسے ہیں جن میں صفات باری تعالیٰ کا جامع ترین بیان پایا جاتا ہے۔ ایک سورة بقرہ میں آیت الکرسی (آیت 255)۔ دوسرے، سورة حشر کی یہ آیات۔ سورة الْحَشْر 33 یعنی جس کے سوا کسی کی یہ حیثیت اور مقام اور مرتبہ نہیں ہے کہ اس کی بندگی و پرستش کی جائے۔ جس کے سوا کوئی خدائی کی صفات و اختیارات رکھتا ہی نہیں کہ اسے معبود ہونے کا حق پہنچتا ہو۔ سورة الْحَشْر 34 یعنی جو کچھ مخلوقات سے پوشیدہ ہے اس کو بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان پر ظاہر ہے اس سے بھی وہ واقف ہے اس کے علم سے اس کائنات میں کوئی شے بھی پوشیدہ نہیں۔ ماضی میں جو کچھ گزر چکا ہے، حال میں جو کچھ موجود ہے، اور مستقبل میں جو کچھ ہوگا، ہر چیز اس کو براہ راست معلوم ہے۔ کسی ذریعہ علم کا وہ محتاج نہیں ہے۔ سورة الْحَشْر 35 یعنی وہی ایک ہستی ایسی ہے جس کی رحمت بےپایاں ہے، تمام کائنات پر وسیع ہے، اور کائنات کی ہر چیز کو اس کا فیض پہنچتا ہے۔ سارے جہان میں کوئی دوسرا اس ہمہ گیر اور غیر محدود رحمت کا حامل نہیں ہے۔ دوسری جس ہستی میں بھی صفت رحم پائی جاتی ہے اس کی رحمت جزوی اور محدود ہے، اور وہ بھی اس کی ذاتی صفت نہیں ہے بلکہ خالق نے کسی مصلحت اور ضرورت کی خاطر اسے عطا کی ہے۔ جس مخلوق کے اندر بھی اس نے کسی دوسری مخلوق کے لیے جذبہ رحم پیدا کیا ہے، اس لیے پیدا کیا ہے کہ ایک مخلوق کو وہ دوسری مخلوق کی پرورش اور خوشحالی کا ذریعہ بنانا چاہتا ہے۔ یہ بجائے خود اسی کی رحمت بےپایاں کی دلیل ہے۔
Top