Dure-Mansoor - An-Naba : 52
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّ لَا نَبِیٍّ اِلَّاۤ اِذَا تَمَنّٰۤى اَلْقَى الشَّیْطٰنُ فِیْۤ اُمْنِیَّتِهٖ١ۚ فَیَنْسَخُ اللّٰهُ مَا یُلْقِی الشَّیْطٰنُ ثُمَّ یُحْكِمُ اللّٰهُ اٰیٰتِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌۙ
وَمَآ اَرْسَلْنَا : اور نہیں بھیجا ہم نے مِنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے مِنْ : سے۔ کوئی رَّسُوْلٍ : رسول وَّلَا : اور نہ نَبِيٍّ : نبی اِلَّآ : مگر اِذَا : جب تَمَنّىٰٓ : اس نے آرزو کی اَلْقَى : ڈالا الشَّيْطٰنُ : شیطان فِيْٓ : میں اُمْنِيَّتِهٖ : اس کی آرزو فَيَنْسَخُ : پس ہٹا دیتا ہے اللّٰهُ : اللہ مَا يُلْقِي : جو ڈالتا ہے الشَّيْطٰنُ : شیطان ثُمَّ : پھر يُحْكِمُ اللّٰهُ : اللہ مضبوط کردیتا ہے اٰيٰتِهٖ : اپنی آیات وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور آپ سے پہلے ہم نے کوئی رسول اور کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا جس کو یہ قصہ پیش نہ آیا ہو جب اس نے پڑھا تو شیطان نے اس کے پڑھنے میں شبہ ڈال دیا پھر اللہ تعالیٰ شیطان کے ڈالے ہوئے شبہات کو ختم کردیتا ہے پھر اپنی آیات کو محکم کردیتا ہے، اور اللہ علیم ہے حکیم ہے۔
1۔ عبد بن حمدی وابن الانباری نے مصاحف میں عمرو بن دینار (رح) سے روایت کیا کہ ابن عباس ؓ اس کو یوں پڑھتے تھے آیت وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی ولا محدث، 2۔ ابن ابی حاتم نے سعد بن ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف ؓ سے روایت کیا کہ اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا آیت وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی سے پہلے ولا محدث اتارا گیا تھا پھر اس کو منسوخ کردیا گیا۔ اور محدثون یہ تھے۔ صاحب یسین، لقمان یہ آل فرعون میں سے تھے اور صاحب موسیٰ ۔ 3۔ ابن المنذور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ نبی وہ ہوتا ہے جس سے کلام کیا جاتا ہے اور اس پر آیات نازل کی جاتی ہیں۔ لیکن اس کی طرف نئی شریعت نہیں بھیجی جاتی۔ 4۔ عبد بن حمید نے سدی کے طریق سے ابو صالح (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے تو مشرکین نے کہا تم ہمارے معبودوں کا ذکر خیر کے ساتھ کرو تو ہم بھی معبود حقیقی کا ذکر خیر کے ساتھ کریں گے۔ پھر فرمایا۔ آیت القی الشیطان فی امنیتہ۔ یعنی شیطان نے اس کے پڑھنے میں شبہ ڈال دیا۔ جب آپ نے یہ پڑھا آی افرء یتم اللات والعزی ومنوۃ الثالثۃ الاخری۔ (تو شیطان نے اپنی طرف سے یہ کلمات آپ کی زبان پر ڈال دئیے۔ ) ۔ انہن لفی الغرانیق العلی وان شفاعتہن لترتجی۔ تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ آیت وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی الا اذا تمنی القی الشیطان فی امنیتہ۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا آپ ﷺ کی یہ امید تھی کہ آپ کی قوم مسلمان ہوجائے۔ 5۔ البزار والطبرانی وابن مردویہ اور ضیاء نے مختار میں سعید بن جبیر کے طریق سے مضبوط سند کے ساتھ ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے یوں پڑھا آیت افرء یتم اللات والعزی۔ ومنوۃ الثالثۃ الاخری۔ تو بلاقصد آپ کی زبان پر یہ الفاظ بھی جاری ہوگئے تلک الغرانیق العلی وان شفاعتہن لترتجی۔ مشرکین اس کو سن کر خوش ہوگئے اور کہا کہ انہوں نے ہماریے معبودوں کو ذکر کیا ہے تو جبریل (علیہ السلام) تشریف لائے اور فرمایا مجھ پر وہ پڑھئے جو میں آپ کے پاس لے کر آیا ہوں تو آپ نے پڑھ ا۔ افرء یتم اللات والعزای۔ ومنوۃ الثالثۃ الاخری۔ (اور یہ بھی پڑھ دیا) تلک الغرانیق العلی وان شفاعتہن لترتجی۔ جبریل (علیہ السلام) نے یہ سن کر فرمایا میں ان الفاظ کو آپ کے پاس نہیں لایا یہ شیطان کی طرف سے ہیں تو الللہ تعالیٰ نے اس پر یہ آیت اتاری۔ آیت وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی الا اذا تمنی۔ آیت کے آخرتک۔ 6۔ ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم وابن مردویہ نے صحیح سند کے ساتھ سعید بن جبی ررحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ میں سورة تجم پڑھی۔ جب اس جگہ پہنچے۔ آیت افرء یتم اللات والعزی۔ ومنوۃ الثالثۃ الاخری۔ تو شیطان نے آپ کی زبان پر یہ الفاظ ڈال دئیے۔ تلک الغرانیق العلی وان شفاعتہن لترجی۔ یعنی یہ اونچے اونچے بت کہ ان کی البتہ امید کی جاتی ہے۔ مشرکین نے کہ آج سے پہلے ہمارے معبودوں کو خیر سے یاد نہیں کیا گیا۔ آپ نے سجدہ فرمایا تو مشرکین نے بھی سجدہ کیا۔ اس کے بعد جبرئیل (علیہ السلام) آپ کے پاس آئے اور فرمایا مجھ پر پڑھئے جو میں آپ کے پاس لے کر آیا تھا آپ نے پڑھا جب آپ پہنچے تلک الغرانیق العلی وان شفاعتھن لترتجی۔ جبرئیل (علیہ السلام) نے فرمایا یہ میں آپ کے پاس نہیں لایا تھا یہ شیطان کی طرف سے ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ آیت وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی۔ ضعیف ہے۔ 7۔ ابن جریر وابن مردویہ نے عوفی کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ ہمارے درمیان نماز پڑھ رہے تھے اچانک آپ پر عرب کے معبودوں کا واقعہ نازل ہوا۔ آپ نے اس کو پڑھنا شروع کیا مشرکین نے بھی اس کو سنا اور کہنے لگ گئے ہم نے اس کو سن لیا کہ ہمارے معبودوں کا خیر کے ساتھ ذکر کررہے ہیں وہ لوگ آپ سے قریب ہوئے آپ تلاوت کرتے ہوئے آیت افرء یتم اللات والعزی۔ ومنوۃ الثالثہ الاخری تک پہنچے تو شیطان نے یہ الفاظ آپ کی زبان پر ڈال دئیے۔ ان تلک الغرانیق اعلی وان شفاعتہن لرتجی۔ آپ اس کو پڑھنے لگے تو حضرت جبرئیل علیہ السلان نازل ہوئے اور ان الفاظ کو مٹا دیا۔ پھر فرمایا آیت وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی سے لے کر حکیم تک۔ ضعیف ہے۔ 8۔ ابن مردویہ نے کلبی کے طریق سے ابو سالح عن ابن عباس اور ابوبکر الہذلی اور ایوب عن عکرمہ کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ میں سورة نجم پڑھی۔ جب اس آیت پر آئے۔ آیت افرء تم اللات والعزی ومنۃ الثالثۃ الاخری، تو شیطان نے آپ کی زبان پر یہ الفاظ ڈال دئیے۔ انہن الغرانیق العلی۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آتی اتاری آیت وما ارسلنا من قبلک۔ 9۔ عبد بن حمید اور ابن جریر نے یونس کے طریق سے ابن شہاب (رح) سے روایت کیا کہ مجھے وب بکر بن عبدالرحمن بن حارث ؓ نے بیان کیا کہ رسول الہ ﷺ نے مکہ میں سورة النجم پڑھی۔ جب اس آیت پر پہنچے آیت افرء یتم اللات والعزی۔ ومنوۃ الثالثۃ الاخر۔ تو فرمایا ان شفاعتہن ترتجی۔ اور رسول اللہ ﷺ بھول گئے۔ مشرکین اس سے بہت خوش ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خبردار بلاشبہ یہ شیطان کی طرف سے ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی الا اذا تمنی القی الشیطان فی امنیتہ۔ حتی کہ عذاب یوم عقیم تک پہنچے۔ یہ حدیث مرسل صحیح السند ہے۔ شیطان کا فتنہ ارتداد 10۔ ابن ابی حاتم نے موسیٰ بن عقبہ کے طریق سے ابن شہاب (رح) سے روایت کیا کہ جب سورة نجم نازل ہوئی اور مشرکین کہتے تھے اگر یہ آدمی ہمارے معبودوں کا ذکر خیر کے ساتھ کرے تو ہم اس کو اور اس کے اصحاب کو تسلیم کرلیں گے۔ لیکن وہ ان لوگوں کا ذکر اس لیے نہیں کرتے جو یہود و نصاری کے دین کے مخالف ہیں جیسے وہ ہمارے معبودوں کا ذکر برائی سے کرتے ہیں۔ اور رسول اللہ ﷺ پر کفار کی اذیتیں اور ان کی تکذیب بہ تشاق گزری اور ان کی گمراہی نے بہت پریشان کیا ہوا تھا۔ آپ کفار کی تکلیفوں کو روکنا چاہتے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ نے سورة نجم اتاری اور فرمایا آیت افرء یتم اللات والعزی ومنوۃ الثالثۃ الاکری۔ تو شیطان نے ان کے ساتھ یہ کلمات ڈال دئیے جب طواغیت کا ذکر کیا تو یہ الفاظ کہے۔ وانہن لہن الغرانیق العلی وان شفاعتہن لہی التی ترتجی اور یہ شیطان کی سجع اور اس کے فتنہ میں سے تھا تو یہ دونوں کلمات مکہ میں ایک مشرک کے دل میں واقع ہوئے اور اس کے ساتھ ان کی زبانیں تیز ہوگئیں اور اس کے ساتھ ایک دوسرے کو خوشخبری دینے لگے کہ محمد ﷺ اپنے پہلے اور اپنی قوم کے دین کی طرف لوٹ آئے۔ رسول اللہ ﷺ جب نجم کے آخر میں پہنچے تو سجدہ کیا اور ہر ایک نے سجدہ کیا جو وہاں حاضر تھا مسلمانوں اور مشرکین میں سے۔ یہ بات لوگوں میں پھیل گئی۔ اور اس کو شیطان نے خوب پھیلایا یہاں تک کہ حبشہ کی زمین تک پہنچ گیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ آیت وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنا فیصلہ واضح کردیا اور شیطان کی سجع سے برات فرمائی تو مشرکین لوٹ گئے اپنی گمراہی میں اور مسلمانوں سے اپنی دشمنی کرنے لگے اور ان پر اور زیادہ سخت ہوگئے۔ 11۔ بیہقی (رح) نے دلائل میں موسیٰ بن عقبہ سے روایت کیا اور ابن شہاب کا ذکر نہیں کیا۔ 12۔ طبرانی (رح) نے عروہ رجی اللہ نعہ سے اسی کی مثل روایت کیا۔ 13۔ سعید بن منصور وابن جریر نے محمد بن کعب قرظی اور محمد بن قیس (رح) دونوں سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ قریش کی مجلسوں میں سے ایک مجلس میں تشریف فرما ہوئے جس میں اکثر قریشی تھے۔ اس دن آپ نے تمنا کی کہ اللہ تعایلٰ کی طرف سے کوئی ایسی چیز نہ آئے کہ جس کو سن کر وہ لوگ بھاگ جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ پر اتارا آیت والنجم اذا ہوی۔ (یعنی پوری سورت) رسول اللہ ﷺ نے اس کو پڑھا یہاں تک کہ آی افر ئیتم اللات والعزی، ومنوۃ الثالثۃ الاخری۔ تو شیطان نے دو کلمات آپ کی زبان پر ڈال دئیے۔ تلک الغرا نیق العلی، وان شفایتہن لترتجی۔ (یعنی یہ اونچے اونچے بت اور بلاشبہ ان کی شفاعت کی البتہ امید کی جاتی ہے ) ۔ آپ نے یہ کلمات پڑھ دئیے پھر آپ پڑھتے رہے یہاں تک کہ پوری سورت پڑھ دی۔ پھر آپ نے سورت کے آخر میں سجدہ کیا تو ساری قوم نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ کیا۔ اور آپ کے ان الفاظ کی وجہ سے قریش خوش ہوئے۔ جب شام ہوئی جبریل (علیہ السلام) تشریف لائے آپ نے ان کے سامنے سورة پڑھی جب ان کلمات پر پہنچے جو شیطان نے آپ کی زبان پر ڈالے تھے تو جبریل (علیہ السلام) نے فرمایا میں ان دو کلمات کو نہیں لایا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا میں نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا اور میں نے وہ بات کہی جو اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمائی۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی۔ آیت وان کادوا لیفتنونک سے لے کر نصیرت، تک۔ تو آپ برابر رنج اور غم میں رہے ان کلمات کی وجہ سے یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی۔ آیت وما ارسلنا من قبلک (پوری آیت) ۔ تو اس سے آپ خوش ہوگئے اور پریشانی جاتی رہی۔ 14۔ ابن جریر ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ مکہ میں تھے۔ آپ پر عرب کے معبودوں کے بارے میں قرآن نازل ہوا۔ آپ سورة النجم کی آیت میں اللات والعزی کا ذکر بار بار پڑھ رہے تھے۔ مکہ والوں نے اس کو سنا کہ وہ ان کے معبودوں کا ذکر کر رہے ہیں۔ اس سے وہ خوش ہوئے اور سننے کے لیے قریب ہوگئے۔ تو شیطان نے آپ کی تلاوت میں (یہ کلمات) ڈال دئیے۔ تلک الغرانیق العلی منہا الشفاعۃ ترتجی۔ نبی ﷺ نے اس کو اسی طرح پڑھ دیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ آیت وما ارسلنا من قبلک سے لے کر حکیم تک۔ 15۔ ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے سند صحیح کے ساتھ ابوالعالیہ (رح) سے روایت کیا کہ مشرکین نے رسول اللہ ﷺ سے کہا اگر آپ اپنے کلام میں ہمارے معبودوں کا ذکر کریں تو ہم آپ کے ساتھ بیٹھ جائیں گے۔ کیونکہ آپ کے ساتھ وہ لوگ ہیں جو لوگوں میں سب سے نادار اور کمزور ہیں۔ جب وہ ہم کو آپ کے پاس دیکھیں گے تو لوگوں کو بیان کریں گے اس بارے میں تو وہ لوگ بھی آپ کے پاس آئیں گے۔ اور آپ نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو ” والنجم “ (والی سورت) پڑھی حتی کہ یہاں تک پہنچے آیت افرء یتم اللات والعزی۔ ومنوۃ الثالثۃ الاخری۔ شیطان نے آپ کی زبان پر یہ الفاظ بھی ڈال دئیے۔ تلک الغرانیق العلی وشفاعتہن لترتجی ومثلھن لاینسی۔ جب آپ سورة کے ختم سے فارغ ہوئے سجدہ کیا اور مسلمانوں نے اور مشرکین نے بھی سجدہ کیا۔ یہ بات حبشہ پہنچی کہ مکہ کے لوگ مسلمان ہوگئے ہیں مگر یہ بات نبی ﷺ پر بھاری گزری تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی، آیت وما رسلنا من قبلک سے لے کر عذاب یوم عقیم تک۔ 16۔ ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابوالعالیہ (رح) سے روایت کیا کہ سورة نجم مکہ میں نازل ہوئی تو قریش نے کہا اے محمد ﷺ کہ آپ کے پاس فقیر اور مسکین لوگ بیٹھتے ہیں اور آپ کے پاس دور دور سے لوگ آتے ہیں اگر آپ ہمارے معبودوں کا خیر سے ذکر کریں تو ہم بھی آپ کے ساتھ بیٹھ جائیں رسول اللہ ﷺ نے سورة النجم پڑھی۔ جب اس آیت پر پہنچے افرء یتم اللات والعزی ومنوۃ الثالثۃ الاخری۔ تو شیطان نے آپ کی زبان پر یہ الفاظ ڈال دئیے۔ وھی الغرانیق العلی شفاعتہن ترتجی۔ جب سورة سے فارغ ہوئے سجدہ کیا اور مسلمانوں اور مشرکوں نے بھی سجدہ کیا۔ ابو حیحہ سعید بن وقاص نے سجدہ نہ کیا اس نے ہتھیلی میں مٹی اٹھا کر اس پر سجدہ کیا۔ اور کہا کہ اب ابن ابی اکبشہ (یعنی رسول اللہ ﷺ نے ہمارے معبودوں کا ذکر خیر کے ساتھ کیا۔ یہ بات مسلمانوں کو پہنچی جو حبشہ میں تھے کہ قریش مسلمان ہوگئے تو انہوں نے واپس آنے کا ارادہ کیا تو یہ بات رسول اللہ ﷺ پر بہت بھاری گذری اور آپ کے اصحاب کرام ؓ پر، جو شیطان نے آپ کی زبان پر ڈالا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ آیت وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی۔ 17۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ہمارے درمیان رسول اللہ ﷺ مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑھ رہے تھے۔ اچانک آپ کو اونگھ آگئی۔ شیطان نے آپ کی زبان پر کچھ کلمات ڈال دئیے آپ نے وہ کلمات پڑھ دئیے تو مشرکین اس وجہ سے آپ کو چمٹ گئے۔ آپ نے جب پڑھا آیت افرء یتم اللات والعزی۔ ومنوۃ الثالثۃ الاخری۔ تو شیطان نے آپ کی زبان پر یہ الفاظ ڈال دئیے۔ وان شفاعتہا لترتجی وانہا لمع الغرانیق العلی۔ مشرکین نے یہ الفاظ یاد کرلیے اور ان کو شیطان نے بھی خبر دے دی کہ اللہ کے نبی نے ان کو پڑھا ہے تو ان کی زبانیں ان کلمات کے ساتھ تیز ہوگئیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ آیت وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو دھتکار دیا اور اپنے نبی کو اپنی حجت تلقین کی۔ 18۔ عبد بن حمید نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے سورة نجم پڑھی تو شیطان نے آپ کے منہ مبارک میں اپنی طرف سے آیات کے درمیان کچھ کلمات ڈال دئیے۔ 19۔ عبد بن حمید نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن یہ آیت آیت افرء یتم اللات والعزی ومنوۃ الثالثۃ الاخری۔ الکم الذکر ولہ النثی۔ تلک اذا قسمۃ ضیزی۔ پڑھی تو شیطان نے رسول اللہ ﷺ کی زبان پر یہ الفاظ ڈال دئیے۔ تلک اذا فی الغرانیق العلی۔ تلک اذن شفاعۃ ترتجی۔ تو رسول اللہ ﷺ خوفزدہ ہوئے اور گھبرائے اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی بھیجی۔ آیت وکم من ملک فی السموت لا تغنی شفاعتہم شیئا۔ پھر آپ کی طرف یہ آیت نازل کی گئی۔ آپ کی پریشانی ختم ہوگئی۔ آیت وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی الا اذا تمنی القی الشیطان فی امنیتہ۔ سے لے کر حکیم تک۔ 20۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ نبی ﷺ مسجد حرام میں نماز کے لیے تشریف لے گئے اس درمیان میں آپ پڑھ رہے تھے۔ جب آپ نے پڑھا۔ آیت افرء یتم اللات والعزی۔ ومنوۃ الثالثۃ الاخری۔ تو شیطان نے آپ کی زبان پر ڈال دیا۔ اور آپ نے یہ الفاظ پڑھے۔ تلک اخرالقۃ العلی۔ وان شفاعتہن ترتجی۔ یہاں تک کہ جو سورة کے آخر پر پہنچے تو آپ نے سجدہ فرمایا اور آپ کے صحابہ کرام نے اور مشرکین نے بھی سجدہ کیا ان کے معبودوں کا ذکر کرنے کی وجہ سے جب آپ نے سراٹھایا تو تمام لوگوں نے سر اٹھایا مکہ کے دو کناروں کے درمیان بات سخت پھیل گئی وہ کہتے تھے کہ یہ نبی بنو عبد مناف کے ہیں۔ یہاں تک کہ آپ کے پاس جبریل (علیہ السلام) تشریف لائے آپ نے ان کو سورة نجم سنائی اور آپ نے ان حروف کو بھی پڑھا تو جبریل (علیہ السلام) نے فرمایا میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں نے آپ کو یہ الفاظ نہیں پڑھائے۔ تو آپ پر یہ بات بھاری گزری اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل کو خوش کرنے کے لیے یہ آیت اتاری۔ آیت وما ارسلنا من قبلک الایۃ۔ 21۔ ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے آیت اذا تمنی القی الشیطان فی امنیتہ کے بارے میں روایت کیا کہ جب آپ بات کرتے تو شیطان اپنی بات آپ کے دل میں ڈالنے کی کوشش کرتا۔ 22۔ ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ اذا تمنی یعنی یہ تلاوت اور قرآن کے معنی میں ہے یعنی جب آپ نے تلاوت اور قراۃ کا ارادہ کیا آیت القی الشیطان فی امنیتہ تو شیطان نے نبی ﷺ کی تلاوت میں ضرور مداخلت کی۔ آیت فینسخ اللہ یعنی جبریل (علیہ السلام) اللہ کے حکم سے شیطان کی بات کو منسوخ کردیتا ہ۔ ما القی الشیطان (جو شیطان نے ڈالے تھے، نبی ﷺ کی زبان پر ) 23۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ آیت لیجعل ما یلقی الشیطان فتنۃ اللذین فی قلوبہم مرض۔ یعنی منافقین کے لیے یہ بات آزمائش بن گئی۔ آیت والقاسیۃ قلوبہم، یعنی مشرکین کے دل سخت ہوگئے۔ آیت ولیعلم الذین اوتوا العلم انہ الحق، یعنی قرآن حق ہے۔ آیت ولا یزال الذین کفرو۔ یعنی قرآن کے بارے میں برابر شک میں رہیں۔ عذاب یوم عقیم سے مراد ایسا دن ہے جس کے ساتھ رات نہ ہو۔ 25۔ ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ آیت مریۃ منہ۔ یعنی منافق لوگ شک میں پڑے ہوئے ہیں ان باتوں میں جس کو ابلیس خبیث لے کر آتا ہے اور وہ ان کے دلوں سے نہیں نکلتی ہیں اور ان کی گمراہی میں اضافہ ہوتا ہے۔ 26۔ ابن مردویہ اور ضیاء نے مختارہ میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت عذاب یوم عقیم سے مراد ہے بد کا دن۔ 27۔ ابن مردویہ نے ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا کہ چارآیات میں یوم بد کا ذکر ہے۔ آیت او یأتیہم عذاب یوم عقیم۔ اس سے مراد بدر کا دن ہے۔ آیت فسوف یکون لزاما۔ یہ بھی بدر کا دن ہے۔ آیت یوم نبطش البطشۃ الکبر۔ (الدکان : 16) یہ بھی بدر کا دن مراد ہے۔ آیت ولنذیقنہم من العذاب الادنی دون العذاب الاکبر (السجدۃ : 21) ۔ اس سے بھی بدر کا دن مراد ہے۔ 28۔ عبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر (رح) سے بھی اسی طرح روایت کیا۔ 30۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ عذاب یوم عقیم سے بدر کا دن مراد ہے۔ 29۔ ابن ابی حاتم نے عکرمہ (رح) سے بھی اسی طرح روایت کیا۔ 30۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ عذاب یوم عقیم سے مراد ہے قیامت کا دن کہ اس کے لیے رات نہیں ہے۔ 31۔ عبد بن حمید وابن المنذر نے سعید بن جبیر (رح) سے اسی طرح روایت کیا۔ 32۔ عبد بن حمید وابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے اسی طرح روایت کیا۔
Top