Tafseer-e-Majidi - Hud : 119
اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ١ؕ وَ لِذٰلِكَ خَلَقَهُمْ١ؕ وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَاَمْلَئَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ
اِلَّا : مگر مَنْ : جو۔ جس رَّحِمَ : رحم کیا رَبُّكَ : تیرا رب وَلِذٰلِكَ : اور اسی لیے خَلَقَهُمْ : پیدا کیا انہیں وَتَمَّتْ : اور پوری ہوئی كَلِمَةُ : بات رَبِّكَ : تیرا رب لَاَمْلَئَنَّ : البتہ بھردوں گا جَهَنَّمَ : جہنم مِنَ : سے الْجِنَّةِ : جن (جمع) وَالنَّاسِ : اور انسان اَجْمَعِيْنَ : اکٹھے
بجز اس کے جس پر آپ کے پروردگار کی رحمت ہو، اور اسی لئے اس نے انہیں پیدا کیا ہے اور آپ کے پروردگار کی یہ بات پوری ہوگئی کہ میں جہنم کو جنات اور انسانوں سب سے بھر دوں گا،168۔
168۔ (سواے پیغمبر ﷺ آپ طبقہ اہل ضلال کے وجود پر زیادہ غم وحیرت نہ کریں) (آیت) ” لذلک خلقھم “۔ یہاں یہ بتادیا کہ انسان کی خلقت ہی ایسی رکھدی گئی ہے کہ اہل حق کے مقابلہ میں اہل ضلال برابر پیدا ہوتے رہیں اور رسول اللہ ﷺ کو سمجھا دیا گیا کہ آپ اس پر زیادہ غم وحیرت نہ کریں، یہ بیان انسان کی غایت تکوینی کا ہوا اس لئے اس میں اور اس غایت تشریعی کے درمیان کوئی تناقض نہیں۔ جہاں یہ بیان ہوا ہے کہ انسان وجنات کی غایت آفرینش عبادت الہی ہے۔ بعض ائمہ تفسیر نے خلق کا تعلق رحم سے سمجھا ہے اور فقرہ کے معنی یہ لئے ہیں کہ ” رحمت ہی کے غرض سے انہیں پیدا کیا ہے۔ “ روی عن ابن عباس و مجاھد وقتادۃ والضحاک خلقھم للرحمۃ (جصاص) (آیت) ” اجمعین “۔ سے ظاہر ہے کہ مراد یہ نہیں کہ کل جنات اور انسان دوزخ میں ڈال دیئے جائیں گے بلکہ مراد یہ ہے کہ جتنوں کو دوزخ میں جانا ہے ان میں جن وانس سب ہی ہوں گے۔ (آیت) ” الامن رحم ربک “۔ یعنی بجز ان لوگوں کے جنہیں اللہ اختلاف باطل سے محفوظ رکھ لے، انما ھو استثناء من المختلفین بالباطل بالاطلاق فی الایمان المؤدی الی الثواب (جصاص)
Top