Tafseer-e-Majidi - An-Nahl : 90
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِ١ۚ یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يَاْمُرُ : حکم دیتا ہے بِالْعَدْلِ : عدل کا وَالْاِحْسَانِ : اور احسان وَاِيْتَآئِ : اور دینا ذِي الْقُرْبٰى : رشتہ دار وَيَنْهٰى : اور منع کرتا ہے عَنِ : سے الْفَحْشَآءِ : بےحیائی وَالْمُنْكَرِ : اور ناشائستہ وَالْبَغْيِ : اور سرکشی يَعِظُكُمْ : تمہیں نصیحت کرتا ہے لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَذَكَّرُوْنَ : دھیان کرو
بیشک اللہ عدل کا اور حسن سلوک کا اور اہل قرابت کو دیتے رہنے کا حکم دیتا ہے، اور کھلی برائی سے اور مطلق برائی سے اور ظلم (وسرکشی) سے ممانعت کرتا ہے وہ تمہیں (یہ) پند دیتا ہے اس لئے کہ تم نصیحت قبول کرو،141۔
141۔ یہ آیت شریف جہاں تک کہ تعلیمات اسلام کا تعلق ہے، قرآن مجید کی اہم ترین اور کلیدی آیات میں ہے۔ ایک معجزانہ ایجاز و جامعیت کے ساتھ اس کے اندر دین و شریعت کے اہم ترین احکام ونواہی دونوں آگئے۔ احکام ایجابی بھی اور احکام سلبی بھی۔ کتاب اللہ کا وصف (آیت) ” تبیانا لکل شیء “۔ ابھی ابھی بیان ہوا تھا۔ یہ آیت خود اسی تبیانت “ کی بہترین مثال ونمونہ ہے۔ امام فخرالدین رازی (رح) نے عبداللہ بن مسعود صحابی (رح) اور قتادۃ تابعی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ حق تعالیٰ نے ہر خیر اور شر کے بیان کو اس آیت کے اندر اکٹھا کردیا ہے۔ اور کوئی عقیدہ خلق، نیت، عمل، معاملہ، اچھا یا برا ایسا نہیں، جو امرا یانہیا ایجابا یاسلبا اس کے اندر نہ آگیا ہو، اور خود بھی آیت کو ہر طرح جامع احکام قرار دیا ہے۔ جمع فی ھذہ الایۃ مایتصل بالتکلیف فرضا ونفلا وما یتصل بالاخلاق والاداب عموما وخصوصا (کبیر) وعن ابن مسعود ؓ اجمع ایۃ فی القران لخیر وشر ھذہ الایۃ وعن قتادۃ لیس من خلق حسن کان فی الجاھلیۃ یعمل ویستحب الاامر اللہ تعالیٰ بہ فی ھذہ الایۃ ولیس من خلق سیء الانھی اللہ تعالیٰ فی ھذہ الایۃ (کبیر) حضرات تابعین کے بھی خیال میں سارے دستور حیات کا ایک جماع ومکمل خاکہ اس آیت کے اندر آگیا ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر بن عبد العزیز (رح) کے وقت یہ آیت اہل سنت کے خطبات جمعہ میں داخل ہوگئی، تاکہ ہر ہفتہ متواتر امت کے کان اس صدائے حق سے آشنا ہوتے رہیں۔ اور اس وقت سے آج تک یہ آیت امت کے خطبات جمعہ کا جزو بنی ہوئی چلی آرہی ہے۔ (آیت) ” بالعدل “۔ عدل سے مراد ہے قوائے علمی وعملی میں اعتدال وتوسط، عقائد و اعمال، اخلاق ومعاملات کے سارے مامورات اس کے اندر آگئے۔ اے بالتوسط فی الامور اعتقادا وعملا وخلقا (بیضاوی) (آیت) ” والاحسان “۔ احسان سے مراد وہ نیکیاں ہیں جن کا نفع دوسروں تک معتدی ہے۔ اس خصوصیت کے لحاظ سے ان کا ذکر الگ کرکے کیا گیا، اور اسی میں اپنے اعمال و طاعات کو بہترین انداز سے ادا کرنا بھی آگیا۔ اے احسان الطاعات وھو ما بحسب الکمیۃ اوبحسب الکیفیۃ (بیضاوی) اے احسان الاعمال والعبادۃ اے الاتیان بھا علی الوجہ اللائق وھو اما بحسب الکیفیۃ اوبحسب الکمیۃ (روح) (آیت) ” وایتآی ذی القربی “۔ یہ اسی احسان کی اہم ترین و افضل ترین شکل ہے اے اعطاء الاقارب مایحتاجون الیہ (بیضاوی) ان تین مامورات کے مقابل منہیات بھی تین ہی ہیں :۔ (آیت) ” عن الفحشآء “۔ فحشاء ایسی برائی ہے جو کھلی ہوئی اور صریح ہے، یعنی علانیہ، پلک میں کی جاتی ہے۔ اس کے تحت میں وہ سب برائیاں آگئیں، جو قوت شہویہ کی افراط سے پیدا ہوتی ہیں۔ عن الفحشاء اے ون الافراط فی متابعۃ القوۃ الشھوانیۃ (بیضاوی) اے الافراط فی متابعۃ القوۃ الشھویۃ (روح) (آیت) ” والمنکر “۔ منکر عام ہے ہر ایسے امر کو جو شعائر اسلامی سے باہرہو۔ اس کے تحت میں وہ سب معاصی آگئے جو قوت غضبیہ کے افراط سے پیدا ہوتے ہیں۔ ماینکر علی متعاطیۃ فی اشارۃ القوۃ الغضبیۃ (بیضاوی) ما ینکر علی متعاطیۃ من الافراط فی اظھار القوۃ الغضبیۃ (روح) (آیت) ” والبغی “۔ بغی وہ ظلم وسرکشی ہے جس کا ضرر دوسروں تک پہنچے، اس کے ماتحت وہ سب حرکتیں آگئیں، جو قوت وہمیہ کے غلبہ وافراط سے ظاہر ہوتی ہیں۔ الاستعلاء والاستیلاء علی الناس والتجیر علیھم (بیضاوی) اے الاستعلاء والا ستیلاء علی الناس والتجبر علیھم (بیضاوی) اے الاستعلاء والا ستیلاء علی الناس والتجبر علیھم وھو من اثار القوۃ الوھمیۃ (روح) (آیت) ” لعلکم تذکرون “۔ اس وعظ سے مقصود یہ ہے کہ تم اپنے میں تذکر وتنبہ پیدا کرو، معناہ ان المقصود من ھذا الوعظ ان یقدموا علی تحصیل ذلک التذکیر (کبیر) طلبا لان تتعظوا بذلک وتنبھوا (روح)
Top