Tafseer-e-Mazhari - Ibrahim : 17
یَّتَجَرَّعُهٗ وَ لَا یَكَادُ یُسِیْغُهٗ وَ یَاْتِیْهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَّ مَا هُوَ بِمَیِّتٍ١ؕ وَ مِنْ وَّرَآئِهٖ عَذَابٌ غَلِیْظٌ
يَّتَجَرَّعُهٗ : اسے گھونٹ گھونٹ پیے گا وَلَا : اور نہ يَكَادُ يُسِيْغُهٗ : گلے سے اتار سکے گا اسے وَيَاْتِيْهِ : اور آئے گی اسے الْمَوْتُ : موت مِنْ : سے كُلِّ مَكَانٍ : ہر طرف وَّمَا هُوَ : اور نہ وہ بِمَيِّتٍ : مرنے والا وَ : اور مِنْ وَّرَآئِهٖ : اس کے پیچھے عَذَابٌ : عذاب غَلِيْظٌ : سخت
وہ اس کو گھونٹ گھونٹ پیئے گا اور گلے سے نہیں اتار سکے گا اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا۔ اور اس کے پیچھے سخت عذاب ہوگا
یتجرعہ وہ گھونٹ گھونٹ کر کے اس کو پئے گا۔ یعنی تکلف کے ساتھ تھوڑا تھوڑا پئے گا (بدبو ‘ بدمزگی اور ناگواری کی وجہ سے پینے کے طریقے سے نہ پی سکے گا) ۔ ولا یکاد ویسیغہ اور آسانی کے ساتھ اس کو نگل نہ سکے گا۔ بلکہ وہ صدید اس کے حق کا پھندا بن جائے گا ‘ آسانی سے اندر نہ اترے گا اور یونہی کافر طول عذاب میں مبتلا رہے گا۔ سَوغ (مصدر) کا معنی ہے : آسانی کے ساتھ کسی پینے کی چیز کا حلق سے اتر جانا اور طبیعت کا اس کو (خوش گواری کے ساتھ) قبول کرلینا۔ قاموس میں ہے : سَاغ الشَّرابَ سَوْغًا آسانی کے ساتھ پینے کی چیز کو حلق میں اتار لیا۔ ویاتیہ الموت من کل مکان اور موت (یعنی تکلیفیں اور قسم قسم کے عذاب) ہر طرف سے اس پر آئیں گے۔ یعنی ہر طرف سے اس کو طرح طرح کا عذاب گھیر لے گا۔ یا الْمَوْت سے مراد موت کی سختیاں اور شدائد ہیں اور کُلِّ مَکَان سے مراد ہے : جسم کا ہر حصہ ‘ یعنی ہر حصۂ جسم سے اس پر موت کی سختیاں آئیں گی۔ ابن ابی شیبہ ‘ ابن جریر ‘ ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے ابراہیم تیمی کا قول نقل کیا ہے کہ ہر (بن) مو سے اس پر موت (کی شدت) آئے گی۔ وما ھو یمیت اور وہ مردہ نہ ہوگا کہ تکلیف سے چھوٹ جائے۔ ابن جریج نے کہا : سانس گلے میں اٹکی رہے گی ‘ نہ منہ سے باہر نکلے گی نہ اندر ہی اترے گی۔ ابن المنذر نے فضیل بن عباس کا قول نقل کیا ہے کہ اس سے مراد سانس کا (گلے میں) بند ہوجانا ہے۔ ومن ورآۂ عذاب غلیظ اور اس (عذاب) کے بعد اس سے بھی سخت عذاب ہوگا۔ بعض علماء نے کہا کہ عَذَابٌ غَلِیْظ سے مراد ہے : دوزخ میں ہمیشہ رہنا ‘ کبھی نہ نکلنا۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ آیت اِسْتَفْتَحُوْا کا انبیاء کے قصہ سے کوئی تعلق نہیں ‘ یہ بالکل الگ آیت ہے اور اس کا نزول مکہ والوں کے متعلق ہوا۔ اہل مکہ رسول اللہ ﷺ کی بددعا سے قحط میں مبتلاہو گئے تھے ‘ اسلئے انہوں نے فتح یعنی بارش کیلئے اللہ سے دعا کی مگر اللہ نے ان کی مراد پوری نہیں کی اور بجائے پانی کے دوزخ میں دوزخیوں کے جوف کا گندہ پانی پلائے جانے کی وعید سنا دی۔
Top