Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 14
وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّا١ۖۚ وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰى شَیٰطِیْنِهِمْ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا مَعَكُمْ١ۙ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ
وَإِذَا لَقُوا : اور جب ملتے ہیں الَّذِينَ آمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے قَالُوا : کہتے ہیں آمَنَّا : ہم ایمان لائے وَإِذَا : اور جب خَلَوْا : اکیلے ہوتے ہیں إِلَىٰ : پاس شَيَاطِينِهِمْ : اپنے شیطان قَالُوا : کہتے ہیں إِنَّا : ہم مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ إِنَّمَا : محض نَحْنُ : ہم مُسْتَهْزِئُونَ : مذاق کرتے ہیں
اور جب ان لوگوں سے ملتے ہیں جو ایمان لاچکے ہیں37 ۔ تو کہتے ہیں کہ ہم بھی تو ایمان لاچکے ہیں38 ۔ اور جب اپنے شیطانوں کے پاس اکیلے ہوتے ہیں39 تو کہتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں40 ۔ ہم تو محض بنا رہے تھے41 ۔
37 ( اور صاحب وجاہت وصاحب اثر بھی ہیں) اے ابابکر و اصحابہ (ابن عباس ؓ ۔ 38 ۔ (اور آپ ہی جیسے مسلمان ہیں) امنا کا یمانکم (معالم) یہ بات یہ لوگ ذی اثر مسلمانوں کی رضا جوئی اور خوشنودی کے لیے کہتے۔ غرورا منہم للمومنین ومصانعۃ وتقیۃ (ابن کثیر) منافقین کی ایک ذہنیت یہ بھی تھی کہ غریب عوام مسلمانوں کے مقابلہ میں تو اکڑتے رہتے۔ لیکن مسلمانوں میں جو صاحب اثر واقتدار ہوتے ان کے آگے خود جھک جاتے اور ان سے بہ تملق پیش آتے۔ 39 ۔ یعنی اپنے شریر رفیقوں یا سرداروں کے پاس۔ (آیت) ” شیطینھم۔ شیطان کا لفظ عربی میں بڑا وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ ہر سرکش اور ہر بھڑکانے والے کو شیطان کہتے ہیں۔ انسان، جنات، حیوانات سب پر اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ الشیطان کل عارم متمرد من انس او جن اومن دابۃ (تاج) الشیطان اسم لکل عارم من الجنس والانس والحیوانات (راغب) یہاں شیاطین سے مراد رؤساء یہود ومنافقین لئے گئے ہیں جو اپنی سرکشی و طغیان کے لحاظ سے خود ہی شیطان بنے ہوئے تھے۔ نیز ان کے کاہن جن کے یہ لوگ بہت معتقد تھے۔ کھنتھم و رؤساء ھم (ابن عباس) رؤسھم فی الکفر (ابن جریر، اعن ابن عباس وابن مسعود ؓ (آیت) ” خلوا الی “ خلی کا صلہ جب الی آتا ہے تو معنی ہوتے ہیں تنہا ہونے کے، تنہائی میں ملنے کے۔ ؛ خلاالیہ اجتمع معہ فی خلوۃ (لسان) خلاالیہ اے انتھی الیہ فی خلوۃ (راغب) 40 (اپنے اصلی عقائد وخیالات میں) یعنی ہم مسلمانوں کے ساتھ تو محض ظاہرداری کے طور پر ہیں، اور مصلحۃ اپنا مسلمان ہونا ظاہر کرتے ہیں، ورنہ حقیقۃ تو ہم تمہارے ہی ہم عقیدہ وہم مذہب ہیں۔ انامعکم ما انتم علیہ من التکذیب بمحمد ﷺ (ابن جریر) 41 (ان مسلمانوں کو ان کے پیمبر ﷺ اور ان کے صحابیوں کو) بمحمد و اصحابہ ( ابن عباس ؓ مطلب یہ ہوا کہ عوام منافقین جب تنہائی میں اپنے سرداروں سے ملتے ہیں کہ ہم دل وجان سے تو آپ ہی کے ساتھ ہیں۔ باقی مسلمانوں کے بنانے کے لیے ان کی سی کہہ دیتے ہیں۔ استھزاء کے معنی تمسخر کرنے ہنسی اڑانے بنانے کے ہیں۔
Top