Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 15
اَللّٰهُ یَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَ یَمُدُّهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
اَللّٰهُ : اللہ يَسْتَهْزِئُ : مذاق کرے گا / مذاق کرتا ہے بِهِمْ : ساتھ ان کے وَ : اور يَمُدُّھُمْ : وہ ڈھیل دے رہا ہے ان کو فِىْ طُغْيَانِهِمْ : ان کی سرکشی میں يَعْمَھُوْنَ : وہ بھٹک رہے ہیں/ اندھے بنے پھرتے ہیں
انہیں اللہ بنا رہا ہے42 ۔ اور وہ انہیں ڈھیل دے رہا ہے43 (تو) وہ اپنی سرکشی میں سرگردان ہورہے ہیں44
42 ۔ یعنی ان کے تمسخر کو انہیں پر پلٹے دیتا ہے۔ مجازات، سزا، معاوضہ کے موقع پر لغت عرب میں یہ محاورہ وام ہے، کہ جزائے فعل کو اصل فعل ہی کا نام دے دیا جاتا ہے۔ اے یجازیھم جزاء الھزو (راغب) مثل قول نسو اللہ فنسیھم اے جاز اھم جزاء النسیان (ابن قتیبہ) جزاء الااستھزاء باسمہ کما جزاء السیءۃ سیءۃ (بیضاوی) ہنسی اور تمسخر کا انتساب ذات باری تعالیٰ کی جانب قدیم صحیفوں میں برابر موجود ہے۔ ” تو اے خداوندان پر ہنسے گا۔ تو ساری قوموں کو مسخرہ بنادے گا “۔ (زبور 79:8) ”۔۔۔ میں تمہاری پریشانی پر ہنسوں گا۔ اور جب تم پر دہشت غالب ہوگئی تو میں ٹھٹھے ماروں گا “ (امثال 1: 26) 43 ۔ (اپنے قانون تکوینی کے مطابق) خالق کائنات نے بندوں کو جو آزادی واختیار دے رکھا ہے۔ اس میں وہ خواہ مخواہ دست اندازی کبھی نہیں کرتا۔ سانپ کو کاٹنے کی ، ، زہر کو ہلاک کرنے کی، آگ کو جلانے کی، یہ ساری اجازتیں اور آزادیاں اسی کے قانون تکوینی کے مطابق ہیں۔ 44 ۔ یہ خود ایک تفسیر ہوگئی اللہ کے ” استہزاء “ کی۔ عمہ اس کیفیت کو کہتے ہیں کہ انسان کو راستہ سجھائی نہ دے، اور وہ ادھر ادھر اندھوں کی طرح ٹٹولتا اور ہاتھ پاؤں مارتا پھرے۔ ھو التردد فی الضلال والتحیر فی منازعۃ (تاج) العمی فی العین والعمہ فی القلب (قرطبی) وحی الہی کی روشنی سے محرومی کے بعد انسان کی واقعی یہی حالت ہوجاتی ہے۔ اپنی محدود ناقص ” عقل “ کے سہارے وہ چاروں طرف ہاتھ پاؤں مارتا ہے۔ طرح طرح کے ” نظریئے “ قائم کرتا ہے۔” اصول “ و ” کلیات “ بناتا ہے۔ ہر طرف ظن وتخمین کے گھوڑے دوڑاتا ہے۔ کھلا ہو اراستہ کوئی نہیں سجھائی دیتا ہے۔ شک، ارتیاب، بےاطمینانی کے دلدل میں اور زیادہ پھنستا جاتا ہے۔
Top