Tafseer-e-Majidi - Al-Anbiyaa : 80
وَ عَلَّمْنٰهُ صَنْعَةَ لَبُوْسٍ لَّكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِّنْۢ بَاْسِكُمْ١ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ شٰكِرُوْنَ
وَعَلَّمْنٰهُ : اور ہم نے اسے سکھائی صَنْعَةَ : صنعت (کاریگر) لَبُوْسٍ : ایک لباس لَّكُمْ : تمہارے لیے لِتُحْصِنَكُمْ : تاکہ وہ تمہیں بچائے مِّنْ : سے بَاْسِكُمْ : تمہاری لڑائی فَهَلْ : پس کیا اَنْتُمْ : تم شٰكِرُوْنَ : شکر کرنے والے
اور ہم نے انہیں زرہ کی صنعت تمہارے (نفع کے) لئے سکھلا دی تھی تاکہ وہ تم کو تمہاری لڑائی میں بچائے،103۔ سو کیا تم شکر ادا کرو گے ؟ ،104۔
103۔ (ایک دوسرے کی زد سے) قرآن کے اس بیان سے یہ لازم نہیں آتا کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) زرہ کے موجد بھی ہوں اور یہ صنعت آپ سے قبل نامعلوم ہو۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ اس سے دو مسئلہ ثابت ہوتے ہیں، ایک دستکاری سے معاش حاصل کرنا، دوسرے اسباب عادیہ کا استعمال توکل کے منافی نہ ہونا۔ 104۔ (اس نعمت کا) صنعت زرہ سازی کو قرآن نے خاص محل نعمت میں بیان کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ فنون وصنائع حرب مطلق صورت میں حرام نہیں، بلکہ انہیں حرام ولغو مقاصد کے لئے نہ استعمال کیا جائے تو عین مستحسن وقابل قدر ہیں، (آیت) ” ھل “۔ کلمہ استفہام ہے۔ لیکن کام امر کا دے رہا ہے۔ استفھام بمعنی الامر اے فاشکرواللہ علی ذلک (مدارک)
Top