Tafseer-e-Majidi - Al-Anbiyaa : 90
فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ١٘ وَ وَهَبْنَا لَهٗ یَحْیٰى وَ اَصْلَحْنَا لَهٗ زَوْجَهٗ١ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًا١ؕ وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ
فَاسْتَجَبْنَا : پھر ہم نے قبول کرلی لَهٗ : اس کی وَوَهَبْنَا : اور ہم نے عطا کیا لَهٗ : اسے يَحْيٰى : یحییٰ وَاَصْلَحْنَا : اور ہم نے درست کردیا لَهٗ : اس کے لیے زَوْجَهٗ : اس کی بیوی اِنَّهُمْ : بیشک وہ سب كَانُوْا يُسٰرِعُوْنَ : وہ جلدی کرتے تھے فِي : میں الْخَيْرٰتِ : نیک کام (جمع) وَ : اور يَدْعُوْنَنَا : وہ ہمیں پکارتے تھے رَغَبًا : امید وَّرَهَبًا : اور خوف وَكَانُوْا : اور وہ تھے لَنَا : ہمارے لیے (سامنے) خٰشِعِيْنَ : عاجزی کرنیوالے
سو ہم نے ان کی (پکار) سن لی اور ہم نے انہیں یحییٰ کو عطا کیا،122۔ اور ان کی خاطر ہم نے ان کی بیوی کو صحیح کردیا،123۔ بیشک یہ (سب) نیک کاموں میں دوڑنے والے تھے اور ہم کو پکارتے رہتے تھے شوق اور خوف کے ساتھ اور ہمارے سامنے دب کر رہتے تھے،124۔
122۔ (بطور فرزند صالح اور وارث کے) یحییٰ (علیہ السلام) پر بھی حاشیے گزر چکے۔ 123۔ (کہ وہ عاقر تھیں اب انہیں قابل اولاد بنا دیا) اے اصلحھا للولادۃ (کبیر) بان جعلھا ولودا (ابن جریر) سعید ابن ابن جبیر قتادۃ وغیرہ تابعین سے مروی ہے کہ بیوی صاحبہ کا شباب لوٹا دیا گیا تھا۔ برد شبابھا الیھا وجعلھا ولودا کما روی عن ابن جبیر وقتادۃ (روح) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ اس تفسیر سے یہ نکلتا ہے کہ استجابت دعا کے وقت اکثر عادت الہی یہ ہے کہ جو چیزیں عموما وعادۃ جن اسباب سے پیدا ہوتی ہیں اکثر ان کے لئے وجود میں لانے کے لئے وہی اسباب مہیا کردیئے جاتے ہیں گو وہ قادر مطلق بلااسباب ہی تکوین پر قادر ہے۔ 124۔ (کہ اس سے ان کی کمال عبدیت و عبودیت اور ہماری کمال عظمت ومعبودیت ثابت ہوتی ہے) اہل خشوع اہل تواضع کی مدح سے توریت وانجیل بھی لبریز ہیں۔ مثلا ” خداوندا انہیں جو نہرا گئے ہیں۔ سیدھا کھڑا کرتا ہے۔ “ (زبور۔ 146: 8) ” خداوند حلیموں کو سنبھالتا ہے۔ پر شریروں کو زمین پر پٹک دیتا ہے۔ “ (زبور۔ 147: 6) ” خداوند اپنے لوگوں سے خوش ہوتا ہے۔ وہ حلیموں کو نجات کی زینت بخشتا ہے۔ “ (زبور۔ 149: 4) مبارک ہیں وہ جو حلیم ہیں کیونکہ وہی زمین کے وارث ہوں گے۔ “ (متی۔ 5: 5) لانھم سے مراد وہ سب لوگ ہیں جن کا ذکر اسی سورت میں آچکا ہے۔ (آیت) ” رغب اور ھبا “۔ یعنی عبادت کمال امید وبیم کے ساتھ کرتے رہتے ہیں جو عین علامت ہے ایمان کامل کی۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت میں (آیت) ” انھم کانوا یسرعون فی الخیرت “۔ سابق نعمتوں کی علت کے موقع پر آیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ طاعت نعمت دنیوی کا بھی سبب بن جاتی ہے۔
Top