Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 90
فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ١٘ وَ وَهَبْنَا لَهٗ یَحْیٰى وَ اَصْلَحْنَا لَهٗ زَوْجَهٗ١ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَهَبًا١ؕ وَ كَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ
فَاسْتَجَبْنَا : پھر ہم نے قبول کرلی لَهٗ : اس کی وَوَهَبْنَا : اور ہم نے عطا کیا لَهٗ : اسے يَحْيٰى : یحییٰ وَاَصْلَحْنَا : اور ہم نے درست کردیا لَهٗ : اس کے لیے زَوْجَهٗ : اس کی بیوی اِنَّهُمْ : بیشک وہ سب كَانُوْا يُسٰرِعُوْنَ : وہ جلدی کرتے تھے فِي : میں الْخَيْرٰتِ : نیک کام (جمع) وَ : اور يَدْعُوْنَنَا : وہ ہمیں پکارتے تھے رَغَبًا : امید وَّرَهَبًا : اور خوف وَكَانُوْا : اور وہ تھے لَنَا : ہمارے لیے (سامنے) خٰشِعِيْنَ : عاجزی کرنیوالے
تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور ہم نے اس کو یحییٰ عطا فرمایا اور اس کی بیوی کو اس کے لیے سازگار کردیا، بیشک یہ لوگ نیکی کے کاموں میں سبقت کرنے والے اور امید و بیم میں ہمیں پکارنے والے اور ہمارے ہی سامنے عجزونیاز کرنے والے تھے۔
فَاسْتَجَبْنَا لَـہٗ ز وَوَھَبْنَا لَہٗ یَحْیٰی وَاَصْلَحْنَا لَـہٗ زَوْجَہٗ ط اِنَّھُمْ کَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَیَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَھَبًا ط وَکَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ ۔ (الانبیاء : 90) (تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور ہم نے اس کو یحییٰ عطا فرمایا اور اس کی بیوی کو اس کے لیے سازگار کردیا، بیشک یہ لوگ نیکی کے کاموں میں سبقت کرنے والے اور امید و بیم میں ہمیں پکارنے والے اور ہمارے ہی سامنے عجزونیاز کرنے والے تھے۔ ) حضرت زکریا (علیہ السلام) کی دعا کا مقصد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ہم نے زکریا کی دعا کو قبول فرمایا، انھوں نے چونکہ اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لیے وارث مانگا تھا یعنی ایسا بیٹا جو میراثِ یعقوب کا حق ادا کرسکے۔ چناچہ ہم نے انھیں یحییٰ جیسا بیٹا عطا فرمایا۔ اور سورة بنی اسرائیل کی تفسیر میں ہم نے ان کی شخصیت کے بارے میں بطور خاص اس بات کو نمایاں کیا ہے کہ حضرت یحییٰ نے زندگی بھر نہ ایسی غذا کھائی جو عام طور پر کھائی جاتی ہے، نہ کوئی سلا ہوا کپڑا پہنا۔ جنگلی شہد ان کی خوراک رہا اور ایک پرانا کمبل درمیان میں پھاڑ کر ان کا ملبوس بن جاتا اور ان کی زندگی کی مصروفیات میں اللہ تعالیٰ کے دین کے لیے تگ و دو کے سوا کسی اور مصروفیت کا گزر تک نہ ہوسکا۔ اور قبولیتِ دعا میں اس بات کا بھی ذکر فرمایا گیا ہے کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کی زوجہ محترمہ بانجھ ہوچکی تھیں یعنی اولاد پیدا کرنے کی عمر سے گزر چکی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے دعا کو قبول فرماتے ہوئے آپ ( علیہ السلام) کی زوجہ محترمہ کو استقرارِحمل اور وضع حمل کے قابل بنادیا اور شاید یہ بھی مراد ہو کہ ان کی صحت اس قابل بنادی کہ وہ سہولت سے بچے کی تربیت کرسکیں۔ آیت کے دوسرے حصے میں اِنَّھُمْکی ضمیر کا مرجع یا تو حضرت زکریا (علیہ السلام) سے وابستہ لوگ ہیں۔ ان میں کچھ اعزا بھی ہوسکتے ہیں اور کچھ آپ ( علیہ السلام) کے شاگرد جو اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے وقف کرچکے تھے۔ چناچہ ان کی تعریف میں فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ ایسے تھے کہ جو نہ صرف نیکوکار تھے بلکہ نیکی کی طرف ان کا میلان سبقت کی صورت اختیار کرچکا تھا۔ ان کے اندر تنافسِ دنیا نہیں بلکہ دین اور بھلائی کے لیے تنافس کا جذبہ غالب تھا اور وہ ہرحال میں امید ہو یا خوف، اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے تھے، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ ہی سے لو لگانے والے اللہ تعالیٰ کے سامنے سرافگندہ اور اللہ تعالیٰ ہی سے ڈرنے والے تھے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اِنَّھُمْ کی ضمیر کا مرجع متذکرہ بالا انبیائے کرام کو ٹھہرایا جائے۔ اور پھر آگے جو صفات بیان ہوئی ہیں انھیں ان کا موصوف قرار دیا جائے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں مفہوم بیک وقت مراد لیے جائیں۔
Top