Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 57
وَ اَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَیُوَفِّیْهِمْ اُجُوْرَهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ
وَاَمَّا : اور جو الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے کام کیے الصّٰلِحٰتِ : نیک فَيُوَفِّيْهِمْ : تو پورا دے گا اُجُوْرَھُمْ : ان کے اجر وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا الظّٰلِمِيْن : ظالم (جمع)
اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل (بھی) کئے سو اللہ انہیں ان کے پورے صلے دے گا اور اللہ ناانصافوں کو دوست نہیں رکھتا،142 ۔
142 ۔ (آیت) ” الظلمین “۔ ظلم کی حقیقت افراط وتفریط ہے۔ یہاں ظالموں سے مراد یہود کا ہونا تو ظاہر ہی ہے، جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت وصداقت بلکہ شرافت نسب تک کے منکر تھے لیکن دوسری طرف اس کے تحت میں مسیحی بھی آئے جاتے ہیں۔ جو حضرت کو عبد کے بجائے معبود اور رسول کے بجائے مظہر یا اوتار قرار دے رہے ہیں۔ اور اس طرح حضرت (علیہ السلام) کے باب میں دونوں ہی ظالم ہیں۔ یعنی مقام عدل و اعتدال سے بہت ہی ہٹے ہوئے۔
Top