Tafseer-e-Majidi - Al-Ahzaab : 24
لِّیَجْزِیَ اللّٰهُ الصّٰدِقِیْنَ بِصِدْقِهِمْ وَ یُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِیْنَ اِنْ شَآءَ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاۚ
لِّيَجْزِيَ : تاکہ جزا دے اللّٰهُ : اللہ الصّٰدِقِيْنَ : سچے لوگ بِصِدْقِهِمْ : ان کی سچائی کی وَيُعَذِّبَ : اور وہ عذاب دے الْمُنٰفِقِيْنَ : منافقوں اِنْ شَآءَ : اگر وہ چاہے اَوْ : یا يَتُوْبَ عَلَيْهِمْ ۭ : وہ ان کی توبہ قبول کرلے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
(یہ اس لئے ہوا) تاکہ اللہ سچوں کو صلہ دے ان کی سچائی کا اور منافقین کو اگر چاہے سزا دے یا (چاہے تو) ان کی توبہ قبول کرلے بیشک اللہ بڑا مغفرت والا ہے، بڑا رحمت والا،47۔
47۔ (اس کی وسیع رحمت سے کیا بعید ہے کہ وہ منافق کو مخلص بنا کر قابل مغفرت بنادے) اس میں ترغیب آگئی تو بہ ورجوع کی۔ (آیت) ” الصدقین “ سے مراد ظاہر ہے کہ سچے مسلمان ہیں۔ (آیت) ” لیجزی “۔ ل تعلیل کا ہے والظاھر اللام للتعلیل (روح) (آیت) ” لیجزی ...... علیھم “۔ آیت سے یہ ظاہر ہے کہ مومن صادق کی نجات یقینی ہے، بخلاف اس کے منافق کی سزا مشروط ہے مصلحت تکوینی کے ساتھ۔ (آیت) ” اویتوب علیھم “۔ یعنی اگر اس کی مشیت یہی ہوئی تو منافقین کو بھی آخرت میں سزانہ ملے گی۔ ان کی تعذیب ومغفرت دونوں حق تعالیٰ کی مشیت پر معلق ہیں۔ اے فلایعذبھم بل یرحمھم سبحانہ ان شآء وظاھرہ ان کلامن التعذیب والرحمۃ للمنافقین یوم القیامۃ ولوماتوا علی النفاق معلق بمشیتہ تعالیٰ (روح) آیت، مسلک خارجیت قدیم وجدید دونوں کی تردید کے لیے بالکل کافی ہے۔ منافقین حقیقۃ کافر ہی ہوتے ہیں۔ ایمان رمق بھر بھی ان میں نہیں ہوتا۔ اس پر بھی حکم ان کے معذب ہونے کا قطعی طور پر نہیں صادر ہوتا، بلکہ انکی مغفرت ومغفوریت کی بھی گنجائش رکھ لی جاتی ہے۔ اور اس پہلو کو زور دار بنانے کے لیے اعلان اپنی عام غفوریت ورحیمیت کا بھی ساتھ ساتھ کردیا جاتا ہے۔ کہاں حق تعالیٰ کی طرف سے یہ گنجائشیں اور وسعتیں اور کہاں بعض نافہم بندوں کی یہ تنگیاں اور سختیاں کہ پختہ پختہ مسلمان بھی قابل نجات نہیں، اس لییھ کہ ان سے فلاں فلاں لغزشیں بھی تو سرزد ہوچکی ہیں !
Top