Al-Qurtubi - Maryam : 38
اَسْمِعْ بِهِمْ وَ اَبْصِرْ١ۙ یَوْمَ یَاْتُوْنَنَا لٰكِنِ الظّٰلِمُوْنَ الْیَوْمَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
اَسْمِعْ : سنیں گے بِهِمْ : کیا کچھ وَاَبْصِرْ : اور دیکھیں گے يَوْمَ : جس دن يَاْتُوْنَنَا : وہ ہمارے سامنے آئیں گے لٰكِنِ : لیکن الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع) الْيَوْمَ : آج کے دن فِيْ : میں ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ : کھلی گمراہی
اور وہ جس دن ہمارے سامنے آئیں گے کیسے سننے والے اور کیسے دیکھنے والے ہوں گے مگر ظالم آج صریح گمراہی میں ہیں
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اسمع بھم وابصر یوم یاتوننا، ابوالعباس نے کہا : عرب یہ صیغے تعجب کی جگہ استعمال کرتے ہیں تو کہتا ہے : أسمع بزید وابصر یزید زید کتنا سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ فرمایا : اس کا معنی ہے اس نے اپنے نبی کو ان پر متعجب کیا۔ کلبی نے کہا : کوئی ان سے زیادہ قیامت کے دن سننے اور دیکھنے والا نہ ہوگا جب اللہ تعالیٰ عیسیٰ (علیہ السلام) سے فرمائے گا : ءانت قلت للناس اتخذونی وامی الھین من دون اللہ (المائدہ : 16) بعض علماء نے فرمایا : اسمع کا معنی ہے اس دن وہ اللہ تعالیٰ کی کتنی زیادہ اطاعت کرنے والے ہوں گے۔ لکن الظلمون الیوم فی ضلل مبین۔ یعنی دنیا میں ظالم کھلی گمراہی میں ہیں۔ اس سے زیادہ کھلی گمراہی کیا ہو سکتی ہے کہ ایک آدمی اپنے جیسے شخص کے بارے میں یہ عقیدہ رکھے وہ خدا ہے جبکہ اسے رحم نے اٹھایا، اس نے کھایا، پیا، حدث کیا اور محتاج ہوا۔ اسی گمراہی کی بنا پر فرمایا : وہ بہرہ اور اندھا ہے لیکن آخرت میں دیکھے گا اور سنے گا جب عذاب کو دیکھے گا لیکن اس وقت کا سننا اور دیکھنا مفید نہ ہوگا۔ یہ مفہوم قتادہ وغیرہ نے بیان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وانشرھم یوم الحسرۃ اذ قضی الامر، حضرت عببداللہ بن مسعود سے مروی ہے فرمایا : جو بھی دوزخ میں داخل ہوگا اس کے لیے جنت میں بھی گھر ہوگا پس وہ اس پر حسرت و افسوس کرے گا۔ بعض علماء نے فرمایا : وہ اس وقت حسرت کرے گا جب نامہ اعمال اسے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ اذ قضی الامر، یعنی حساب مکمل ہوجائے گا۔ اہل جنت، جنت میں اور اہل نار آگ میں داخل کر دئیے جائیں گے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابو سیعد خدری سے مروی ہے (1) فرمایا : نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” جب جنتی جنت میں داخل ہوں گے اور دوزخی دوزخ میں داخل ہوں گے تو قیامت کے روز موت کو لایا جائے گا گویا وہ چتکبرا مینڈھا ہے، پس اسے جنت اور دوزخ کے درمیان کھڑا کیا جائے گا۔ کہا جائے گا : اے اہل جنت ! کیا تم اسے جانتے ہو ؟ پس وہ اپنی گردنیں لمبی کر کے دیکھیں گے اور وہ کہیں گے : ہاں یہ موت ہے۔ “ فرمایا : ” پھر کہا جائے گا : اے دوزخیو ! کیا تم اسے جانتے ہو وہ گردنیں لمبی کر کے دیکھیں گی اور کہیں گے : ہاں یہ موت ہے “۔ فرمایا : ” پھر اسے ذبح کرنے کا حکم دیا جائے گا تو وہ ذبح کردی جائے گی پھر کہا جائے گا : اے جنتیو ! تمہیں ہمیشہ یہاں رہنا ہے اب موت نہیں ہے اور (کہا جائے گا) اے دوزخیو ! تمہیں یہاں ہمیشہ رہنا ہے اب موت نہیں ہے۔ “ پھر نبی کریم ﷺ نے یہ آیت تلاوت کی : وانذرھم یوم الحسرۃ اذ قضی الامر وھم فی غفلۃ وھم لا یومنون۔ اس حدیث کو امام بخاری نے حضرت ابن عمر سے، ابن ماجہ نے حضرت ابوہریرہ کی حدیث سے ترمذی نے حضرت ابو سعید سے مرفوع روایت کی ہے (1) اور فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ ہم نے یہ اپنی کتاب ” التذکیرہ “ میں ذکر کی ہے اور وہاں ہم نے یہ بیان کیا ہے کہ ان احادیث اور آیات کی وجہ سے کافر ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے اور ہم نے ان کے قول کا رد کیا ہے جو کہتے ہیں کہ غضب کی صفت ختم ہوجائے گی۔ ابلیس اور پیرو کار کفار جیسے فرعون، ھامان، قارون اور ان کے مشابہ لوگ بھی جنت میں داخل ہوجائیں گے۔
Top