Tafseer-e-Baghwi - Maryam : 38
اَسْمِعْ بِهِمْ وَ اَبْصِرْ١ۙ یَوْمَ یَاْتُوْنَنَا لٰكِنِ الظّٰلِمُوْنَ الْیَوْمَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
اَسْمِعْ : سنیں گے بِهِمْ : کیا کچھ وَاَبْصِرْ : اور دیکھیں گے يَوْمَ : جس دن يَاْتُوْنَنَا : وہ ہمارے سامنے آئیں گے لٰكِنِ : لیکن الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع) الْيَوْمَ : آج کے دن فِيْ : میں ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ : کھلی گمراہی
اور وہ جس دن ہمارے سامنے آئیں گے کیسے سننے والے اور کیسے دیکھنے والے ہوں گے مگر ظالم آج صریح گمراہی میں ہیں
تفسیر۔ 38۔ اسمع بھم وابصر، ، وہ قیامت کے دن اس طرح ہوں گے گویا کہ انہوں نے نہ کچھ سنا اور نہ دیکھا جب ان کو نہ کوئی سننا فائدہ دے گا اور نہ ہی دیکھنا کہ وہ آخرت میں سنتے اور دیکھتے ہیں جو انہوں نے نہ دنیا میں سنا ہوگا اور نہ ہی آخرت میں ۔ کلبی کا بیان ہے کہ قیامت کے دن کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہوگا وہ یہ کہہ دے کہ نہ انہوں نے سنا اور نہ ہی دیکھا جب اللہ تعالیٰ عیسیٰ (علیہ السلام) سے کہیں گے ، ا انت قلت للناس ۔۔ یوم یاتوتنا لکن الظالمون الیوم فی ضلال مبین، یہ کھلی گمراہی میں پڑے رہے۔ وانذرھم یوم الحسرۃ اذ قضی الامر ، ، یہ حسرت اس وقت ہوگی جب اہل جنت جنت میں چلے جائیں گے اور دوزخی دوزخ میں اور موت کو ذبح کردیاجائے گا۔ قیامت کے دن موت کو مینڈھے کی شکل میں ذبح کیا جائے گا۔ حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا موت کو چت کبرے مینڈھے کی شکل میں لایاجائے گا۔ پھر ایک منادی پکارنے والا کہے گا، اے اہل جنت، جنت والے سراٹھا کر جھانک کر دیکھیں گے منادی کہے گا کہ کیا اس کو پہچانتے ہو اہل جنت کہیں گے ہاں یہ موت ہے پھر سب کی نظروں کے سامنے اس کو ذبح کردیاجائے گا۔ اور منادی کہے گا اے جنت والو دوامی زندگی ہے موت نہیں پھر وہی منادی دوزخیوں کو پکارے گا دوزخ والو، تم کو یہاں ہمیشہ رہنا ہے موت نہیں آئے گی۔ اس کے بعد حضور نے یہ آیت ، وانذرھم یوم الحسرۃ اذ قضی الامر، تلاوت فرمائی۔ اوراعمش نے اسی اسناد کے ساتھ اور زیادہ نقل کی ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ جنت میں رہنے والوں کے لیے اگر یہ خوش خبری سنا دیں کہ وہ کبھی نہ مریں گے اور ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہیں گے تو وہ خوشی کے ساتھ مرجاتے اور اگر ہل جہنم کے لیے اللہ تعالیٰ فرمادیتے کہ تمہاری بقاء اور ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہنا ہوگاتو پھر یہ افسوس کی وجہ سے مرجاتے ہیں۔ حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ جب اہل جنت میں جنت والے چلے جائیں گے اور دوزخی دوزخ میں چلے جائیں گے تو موت کو جنت و دوزخ کے درمیان لایاجائے گا، پھر اس کو ذبح کیا جائے گا، آواز دینے والاآواز لگائے گا کہ اے جنتیو تمہیں اب موت نہیں آئے گی اور اہل دوزخ والے تمہیں کبھی موت نہیں آئے گی ، اس اعلان کی وجہ سے اہل جنتیوں کی خوشیوں میں اضافہ ہوگا اور دوزخیوں کے غم میں اضافہ ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ کوئی جنتی اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہوگا جب تک وہ جہنم میں اپنے ٹھکانے کو دیکھ نہ لے۔ تاکہ وہ اگر گناہ گار ہوتا تو اس کے لشکر میں مزید اضافہ ہو۔ اور جو شخص جہنم میں جائے گا تو اس کو دوزخ میں جانے سے پہلے جنت میں اس کا ٹھکانہ دکھایا جائے گا، تاکہ اس کو معلوم ہوجائے کہ اگر وہ نیکی کرتا (تو اس کو یہ ملتا) اس کو اس پر حسرت ہوگی۔ حضرت یحییٰ بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابی سے کہا کہ میں نے حضرت ابوہریرہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ ہر مرنے والے کو پشیمانی ضرور ہوگی۔ صحابہ نے عرض کیا کیسی پیشمانی ؟ فرمایا اگر وہ نیکو کار تو اس کو اس بات کی پشیمانی ہوگی کہ اس نے اس سے زیادہ نیکی کیوں نہ کی، اور بدکار کو اس بات کی پشیمانی ہوگی کہ وہ بدکاری سے باز کیوں نہ رہے۔ وھم فی غفلۃ ، آخرت میں ان سے جو معاملہ کیا جائے گا اس کی طرف سے بھی غافل ہیں۔ وھم لایومنون ، اس کی تصدیق نہیں کرتے۔
Top