Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 29
اِنِّیْۤ اُرِیْدُ اَنْ تَبُوْٓءَاۡ بِاِثْمِیْ وَ اِثْمِكَ فَتَكُوْنَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِ١ۚ وَ ذٰلِكَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِیْنَۚ
اِنِّىْٓ : بیشک اُرِيْدُ : چاہتا ہوں اَنْ تَبُوْٓاَ : کہ تو حاصل کرے بِاِثْمِيْ : میرا گناہ وَاِثْمِكَ : اور اپنا گناہ فَتَكُوْنَ : پھر تو ہوجائے مِنْ : سے اَصْحٰبِ النَّارِ : جہنم والے وَذٰلِكَ : اور یہ جَزٰٓؤُا : سزا الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
میں تو یہی چاہتا ہوں کہ تو میرے (قتل کا) گناہ اور اپنا (پچھلا) گناہ (دونوں) اپنے سر رکھ لے پھر تو دوزخیوں میں شامل ہوجائے،112 ۔ یہی سزا ہے ظلم کرنے والوں کی،113 ۔
112 ۔ (جو کھلا ہوا نتیجہ تیری بدکرداریوں کا ہوتا ہے) اثمی کے معنی ” میرے “ گناہ کے نہیں، بلکہ اہل تحقیق کے نزدیک ” میرے قتل کے گناہ “ کے ہیں۔ اور تقدیر کلام یوں ہے، باثم قتلی من قتلک ایای (ابن جریر ابن عباس وابن مسعود ؓ ون اس من اصحاب الرسول) ای باثم قتلی (ابن کثیر عن ابن عباس ؓ ومجاہد والضحاک وقتادہ والسدی) ای باثم قتلی وھذا قول اکثر المفسرین (معالم) (آیت) ” اثمک “ سے مراد وہ گناہ ہیں جو قابیل اس تازہ اقدام گناہ سے قبل کرچکا تھا، یا وہ پہلا گناہ جس کے پاداش میں اس کی نذر قبولیت سے محروم رہ گئی تھی، واثمک فی معصیۃ اللہ بغیر ذلک من معاصیک (ابن جریر عن ابن عباس وابن مسعود ؓ ون اس من اصحاب الرسول) اثم الذی علیک قبل ذلک (ابن کثیر وعن ابن عباس ؓ ومجاہد والضحاک وقتادہ والسدی) اثمک الذی لاجلہ لم یتقبل قربانک (مدارک) قال اکثر العلماء ان المعنی ترجع باثم قتلی واثمک الذی عملتہ قبل قتلی قال الثعلبی ھذا قول عامۃ اکثر المفسرین (قرطبی) (آیت) ” فتکون من اصحب النار “۔ اس جزو سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ قابیل کافر تھا، اس لیے کہ اصحاب النار کا اطلاق قرآنی اصطلاح میں کافروں ہی پر ہوتا ہے۔ وقد استدل بقول ھابیل لاخیہ قابیل انہ کان کافرا لان لفظ اصحاب النار انما ورد فی الکفار حیث وقع فی القران (قرطبی) لیکن اہل تحقیق کے نزدیک یہ استدلال صحیح نہیں، اصحاب النار وہ بھی ہیں جو کچھ دیر کے لیے بھی دوزخ میں جائیں، اور یہ سزا مومن عاصی کے لیے ممکن ہے۔ وھذا مردود بما ذکرناہ عن اھل العلم فی تاویل الایۃ ومعنی من اصحب النار مدۃ کو نک فیھا (قرطبی) ولا یقوی ھذا الاستدلال لانہ یکنی عن المقام فی النار مدۃ بالصحبۃ (بحر) (آیت) ” انی ارید ان تبوٓا باثمی واثمک “۔ یعنی میں چاہتا ہوں کہ سارا وبال تمہی پر پڑے، مجھ پر نہ پڑے، یہ مراد نہیں کہ میں چاہتا ہوں تم بھی گناہ کرو کسی کے لیے یہ چاہنا کہ وہ گناہ کرے، جائز نہیں، البتہ اس چاہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ گناہ کا وبال گنہگار ہی پر پڑے، والمراد انی ارید ان تبوء بعقاب اثمی واثمک لانہ لایجوز ان یکون مرادہ حقیقۃ الاثم اذغیر جائز لاحد ارادۃ معصیۃ اللہ من نفسہ ولا من غیرہ (جصاص) معناہ انی ارید ان تبوء بعقاب قتلی فیکون ارادۃ صحیحۃ لانھا موافقۃ لحکم اللہ عزوجل (معالم) (آیت) ” تبوٓا “۔ باء کے معنی الٹ کر پڑنے کے ہیں، ومعنی تبوء ترجع والبواء الرجوع بالقود (جصاص) وقیل تحتمل (معالم) 113 ۔ اپنے عام حکیمانہ اسلوب کے مطابق قرآن مجید نے یہاں بھی ایک مخصوص واقعہ کے بیان کے معا بعد ہی قانون عام بھی سنادیا۔
Top