Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 49
وَ اَنِ احْكُمْ بَیْنَهُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ وَ لَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَهُمْ وَ احْذَرْهُمْ اَنْ یَّفْتِنُوْكَ عَنْۢ بَعْضِ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَیْكَ١ؕ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ اَنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ اَنْ یُّصِیْبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوْبِهِمْ١ؕ وَ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوْنَ
وَاَنِ : اور یہ کہ احْكُمْ : فیصلہ کریں بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان بِمَآ : اس سے جو اَنْزَلَ : نازل کیا اللّٰهُ : اللہ وَلَا تَتَّبِعْ : نہ چلو اَهْوَآءَهُمْ : ان کی خواہشیں وَاحْذَرْهُمْ : اور ان سے بچتے رہو اَنْ : کہ يَّفْتِنُوْكَ : بہکا نہ دیں عَنْ : سے بَعْضِ : بعض (کسی) مَآ : جو اَنْزَلَ : نازل کیا اللّٰهُ : اللہ اِلَيْكَ : آپ کی طرف فَاِنْ : پھر اگر تَوَلَّوْا : وہ منہ موڑ جائیں فَاعْلَمْ : تو جان لو اَنَّمَا : صرف یہی يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ يُّصِيْبَهُمْ : انہیں پہنچادیں بِبَعْضِ : بسبب بعض ذُنُوْبِهِمْ : ان کے گناہ وَاِنَّ : اور بیشک كَثِيْرًا : اکثر مِّنَ : سے النَّاسِ : لوگ لَفٰسِقُوْنَ : نافرمان
اور آپ ان لوگوں کے درمیان فیصلہ کرتے رہیے اسی (قانون) کے مطابق جو اللہ نے نازل کیا ہے اور ان کی خواہشوں پر عمل نہ کیجئے،184 ۔ اور ان لوگوں سے احتیاط رکھیے کہ کہیں وہ آپ کو بچلا نہ دیں، آپ پر اللہ کے اتارے ہوئے کسی حکم سے،185 ۔ پھر اگر یہ روگردانی کریں تو جان لیجئے کہ اللہ کو بس یہی منظور ہے کہ ان کے بعض جرموں پر انہیں پاداش کو پہنچا دے،186 ۔ اور یقیناً زیادہ آدمی تو بےحکم ہی ہوتے آئے ہیں،187 ۔
184 ۔ (اے پیغمبر ! ) (آیت) ” فاحکم بینھم “۔ یعنی ان اہل کتاب خصوصا یہود کے درمیان فیصلہ کیجئے جب وہ اپنا مقدمہ آپ کے سامنے لائیں۔ آیت کا یہ ٹکڑا ابھی اوپر آچکا تھا، دوبارہ اس کا ورد تاکید کے لیے ہے۔ وتکرر وان احکم بینھم للتاکید (قر طبی) (آیت) ” بما انزل اللہ۔ ولا تتع اھوآء ھم “۔ اللہ سے مراد قرآن مجید کا ہونا تو ظاہر ہی ہے۔ لیکن اگر توریت وانجیل ہی مراد لی جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ ان کتابوں کے بھی ٹھیک الہامی اور وحی شدہ احکام کے مطابق ہی فیصلہ کیجئے، نہ کہ ان اضافوں اور تحریفوں کے مطابق جو انہوں نے اپنے دل سے ان کتابوں میں کرلیے ہیں۔ (آیت) ” اھوآء ھم “۔ بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ حکم دو مختلف مسئلوں کے بارے میں ہے، اس لیے تکرار صرف ظاہری ہے، حقیقی نہیں۔ لیس بتکرار لماتقدم من مثلہ لانھما نزلا فی شیئین مختلفین احدھما فی شان الرجم والاخر فی التسویۃ بین الایات (جصاص) 185 ۔ اس حذر کا التزام اور اتنی احتیاط کا اہتمام ہر بار کرتے رہنا بہ قول مفسر تھانوی (رح) خود باعث اجر ہے۔ (آیت) ” ان یفتنوک “۔ رسول معصوم ﷺ کا کسی الہی سے بچلنا قصد وعمد سے تو ہو ہی نہیں سکتا، لامحالہ سہو ونسیان ہی کی بنا پر ہوگا۔ اور یہیں سے ہے کہ آیت سے بعض محققین نے پیمبر کے لیے جواز نسیان پر استدلال کیا ہے۔ وفی الایۃ دلیل علی جواز النسیان علی النبی ﷺ (قرطبی) قال اھل ھذہ الایۃ تدل علی ان الخطاء والنسیاں جائز ان علی الرسول (کبیر) 186 ۔ (اسی دنیا میں) (آیت) ” بعض ذنوبھم “۔ جرموں سے یہاں مراد یہود کا فیصلہ قرآنی اور تحکیم رسول سے انکار ہے۔ یعنی ذنب التولی عن حکم اللہ سبحانہ وتعالیٰ (بیضاوی) یہ حقیقت مدنظر رہے کہ کفر یا محض بدعقیدگی کی سزا آخرت پر رکھی گئی ہے۔ لیکن حربیت یا دنیا میں فتنہ و فساد پھیلانے کی سزا اسی دنیا میں ملتی ہے۔ چناچہ یہود کو قید کی، جلاوطنی کی، اور قتل کی سزا پاتے سب نے اسی دنیا میں دیکھ لیا۔ (آیت) ” بعض کا لفظ لانے سے اظہار عظمت واہمیت مقصود ہے، جیسا کہ لفظ کے نکرہ لانے سے ہوتی ہے۔ فیہ دلالۃ علی التعظیم کمافی التنکیر (بیضاوی) ھذا الابھام فیہ تعظیم التولی وفرط اسرافھم فی ارتکابھم (بحر) (آیت) ” فان تولوا “۔ روگردانی آپ ﷺ کے فیصلہ سے ہوگی، جو عین حکم قرآنی کے مطابق ہوگا، عن الحکم المنزل وارادوا غیرہ (بیضاوی) 187 ۔ (اس لیے آپ زیادہ رنج وتردد میں نہ پڑیں) (آیت) ” الناس “۔ سے مراد عام نوع انسانی بھی لی گئی ہے، اور قوم یہود بھی جن کا ذکر برابر چلا آرہا ہے، والمراد من الناس العموم وقیل الیھود (روح) ظاھر الناس العموم ویحتمل ان یکون الناس للعھد وھم الیھود الذین تقدم ذکر ھم (بحر)
Top