Tafseer-e-Majidi - Al-An'aam : 146
وَ عَلَى الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِیْ ظُفُرٍ١ۚ وَ مِنَ الْبَقَرِ وَ الْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَیْهِمْ شُحُوْمَهُمَاۤ اِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُوْرُهُمَاۤ اَوِ الْحَوَایَاۤ اَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ١ؕ ذٰلِكَ جَزَیْنٰهُمْ بِبَغْیِهِمْ١ۖ٘ وَ اِنَّا لَصٰدِقُوْنَ
وَعَلَي : اور پر الَّذِيْنَ : وہ جو کہ هَادُوْا : یہودی ہوئے حَرَّمْنَا : ہم نے حرام کردیا كُلَّ : ہر ایک ذِيْ ظُفُرٍ : ناخن والا جانور وَمِنَ الْبَقَرِ : اور گائے سے وَالْغَنَمِ : اور بکری حَرَّمْنَا : ہم نے حرام کردی عَلَيْهِمْ : ان پر شُحُوْمَهُمَآ : ان کی چربیاں اِلَّا : سوائے مَا حَمَلَتْ : جو اٹھاتی ہو (لگی ہو) ظُهُوْرُهُمَآ : ان کی پیٹھ (جمع) اَوِ الْحَوَايَآ : یا انتڑیاں اَوْ : یا مَا اخْتَلَطَ : جو ملی ہو بِعَظْمٍ : ہڈی سے ذٰلِكَ : یہ جَزَيْنٰهُمْ : ہم نے ان کو بدلہ دیا بِبَغْيِهِمْ : ان کی سرکشی کا وَاِنَّا : اور بیشک ہم لَصٰدِقُوْنَ : سچے ہیں
اور جو لوگ کہ یہودی ہوئے ان پر ہم نے کھر والے کل جانور حرام کردیئے تھے،223 ۔ اور گائے اور بکری میں سے ہم نے ان پر ان دونوں کی چربیاں حرام کی تھیں بجز اس (چربی) کے جو ان کے پشتوں پر یا ان کی انتڑیوں میں لگی ہوئی ہو، یا جو ہڈی سے ملی ہوئی ہو، یہ سزا دی تھی ہم نے ان کو ان کی شرارت پر اور ہم ہی یقیناً سچے ہیں،224 ۔
223 ۔ (آیت) ” ذی ظفر “۔ ظفر کا اردو ترجمہ ایک لفظ سے کرنا مشکل ہے۔ پرندوں میں تو اس میں کل وہ پرند آجاتے ہیں، جن کے بجائے انگلیوں کے پنجے ہوتے ہیں، جیسے چیل، گدھ، باز، شکرا وغیرہ اور چرندوں میں وہ سارے جانور شامل ہیں جن کے سم ہوتے ہیں۔ مثلا گھوڑا، گدھا، خچر، اونٹ وغیرہ۔ وھو من البھائم والطیرمالم یکن مشقوق الاصابع (ابن جریر) قال عبداللہ بن مسلم انہ کل ذی مخلب من الطیر وکل ذی حافر من الدواب ثم قال کذالک قال المفسرون (کبیر) قال مجاھد وقتادۃ ذی ظفر مالیس بمتفرج الاصابع من البھائم والطیر (قرطبی) قال ابن عباس و سعید بن جبیر وقتادہ والسدی و مجاھد ھو کل مالیس بمفوتح الاصابع (جصاص) (آیت) ” الذین ھادو “۔ یعنی جنہوں نے شریعت یہود کو قبول کیا تھا۔ موجودہ توریت محرف میں حلت و حرمت حیوانات کے احکام مقامات ذیل میں ملیں گے :۔ کتاب احبار باب، 1 1 کتاب استثناء بات 14 ۔ 224 ۔ (اور ہمارے اس بیان کے خلاف کوئی چیز اگر تو ریت محرف وغیرہ میں ملے تو وہ ہرگز قابل اعتناء نہیں) (آیت) ” ذلک جزینھم ببغیھم “۔ یعنی ان چیزوں کی حرمت فی نفسہ مقصود نہ تھی بلکہ یہ حکم بہ طور سزا تھا۔ اور یہیں سے یہ قاعدہ ہاتھ آتا ہے کہ حرمت اشیاء کبھی کبھی گناہوں کے باعث بھی ہوجاتی ہے۔ وفی ھذا دلیل علی ان التحریم انما یکون بذنب لانہ ضیق (قرطبی) (آیت) ” اوالحوایا “۔ تقدیر کلام یوں ہے۔ اوما حملت حوایا ھما والالف والالف واللام بدل من الاضافۃ (قرطبی)
Top