Tafseer-e-Mazhari - Hud : 85
وَ یٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ
وَيٰقَوْمِ : اور اے میری قوم اَوْفُوا : پورا کرو الْمِكْيَالَ : ماپ وَالْمِيْزَانَ : اور تول بِالْقِسْطِ : انصاف سے وَلَا تَبْخَسُوا : اور نہ گھٹاؤ النَّاسَ : لوگ اَشْيَآءَهُمْ : ان کی چیزیں وَلَا تَعْثَوْا : اور نہ پھرو فِي الْاَرْضِ : زمین میں مُفْسِدِيْنَ : فساد کرتے ہوئے
اور قوم! ماپ اور تول انصاف کے ساتھ پوری پوری کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو اور زمین میں خرابی کرتے نہ پھرو
ویقوم اوفوا المکیال والمیزان اور اے میری قوم ! ناپ تول پوری پوری کیا کرو۔ پہلے ناپ تول میں کمی کرنے کی ممانعت تھی (جس سے ضمناً پورا ناپ تولنے کا حکم معلوم ہوگیا) پھر زور دینے کے لئے اس جملہ میں صراحۃً پورا ناپنے تولنے کا حکم دیا۔ اس صریح حکم سے اس امر پر بھی تنبیہ ہوگئی کہ قصداً ناپ تول میں کمی سے اجتناب کرنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ پورا پورا دینے کی کوشش کرنا بھی ضروری ہے۔ اگرچہ کچھ زیادہ ہی دینا پڑے ‘ جس کے بغیر پورا پورا ادا کرنا مقصود نہ ہو۔ اسی لئے امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا کہ اگر کوئی پیمائشی یا وزنی چیز کسی نے ناپ تول کر خریدی ہو اور بائع نے ناپ تول کردی ہو تو جب تک خریدار خود دوبارہ اس کی ناپ تول نہ کرلے ‘ نہ خود اس کو استعمال کرسکتا ہے نہ فروخت کرسکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے (خریدے ہوئے) غلّہ کو فروخت کرنے سے اس وقت تک روکا ہے جب تک دو بار (ایک بار بائع نے اور ایک بار مشتری نے) اپنے اپنے پیمانوں سے اس کی ناپ تول نہ کرلی ہو۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں غلّہ پیمانوں سے ناپ کر فروخت کیا جاتا تھا۔ صاع یا فرق یا وسق وغیرہ غلّہ ناپنے کے پیمانے تھے ‘ تول کر نہیں بیچا جاتا تھا۔ یہ حدیث حضرت جابر کی روایت سے ابن ماجہ اور اسحاق بن ابی شیبہ نے نقل کی ہے لیکن اس کی سند میں ایک راوی عبدالرحمن بی ابی لیلیٰ ہے جس کی وجہ سے محدثین نے اس روایت کو معلّل قرار دیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت سے بھی ایسی ہی حدیث آئی ہے۔ حضرت انس ؓ اور حضرت ابن عباس ؓ کی رویت سے یہ حدیث منقول ہے لیکن یہ روایت بھی ضعیف ہے۔ ابن ہمام نے لکھا ہے کہ یہ حدیث بہت سندوں سے آئی ہے اور ائمہ نے اس کو قبول کیا ہے ‘ اس لئے قابل استدلال ہے۔ امام مالک ‘ امام شافعی اور امام احمد بھی اسی کے قائل ہیں۔ یہ بھی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا : وزن کر کے ذرا جھکتا ہوا دو ‘ کیونکہ ہم گروہ انبیاء اسی طرح تولتے ہیں۔ رواہ احمد و ابوداؤد والترمذی والنسائی وابن ماجۃ والحاکم وابن حبان من حدیث سوید بن قیس۔ حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے۔ بالقسط انصاف کے ساتھ۔ ولا تبخسوا الناس اشیآءَھم اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو ۔ پہلے صرف ناپ تول میں کمی نہ کرنے کی ہدایت تھی ‘ اس آیۃ میں عمومی حکم ممانعت ہے کہ ناپ سے بکنے والی چیز ہو یا تول سے مقداری ہو یا زرعی ‘ کیسی ہی چیز ہو اور جس کے حق کی ہو ‘ اس میں کمی نہ کرو۔ ولا تعثوا فی الارض مفسدین اور زمین میں فساد کرتے ہوئے (حد توحید و عدل سے) مت نکلو۔ عَثو (مصدر ہے) ہر طرح کے فساد کو شامل ہے ‘ خواہ ادائے حقوق کی کمی کی شکل میں ہو یا کسی اور شکل میں۔ بعض علماء نے کہا کہ بخس (جس کی پہلے ممانعت کی گئی) سے مراد ہے ٹیکس اور معاملات میں دوسری حق تلفیاں اور عثو (جس کی ممانعت اس آیت میں کی گئی ہے) سے مراد ہے چوری ‘ ڈاکہ ‘ رہزنی۔ لاَ تَعًثَوْا کا معنی جب لاَ تُفْسِدُوْا ہے تو پھر مفسدین کہنے کی کیا ضرورت تھی ؟ یہ ایک سوال کیا جاسکتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مفسدین کہنے سے وہ صورتیں نکل گئیں جو واقعی صحیح ہوتی ہیں لیکن بظاہر فساد نظر آتی ہیں ‘ جیسے حضرت خضر کا فعل (بچے کو قتل کرنا ‘ کشتی کا تختہ اکھاڑ دینا) یہ بھی کہا گیا ہے کہ مفسدین (کا مفعول محذوف ہے ‘ اس لفظ کو بڑھانے) سے مراد یہ ہے کہ اپنی دینی امور اور دنیوی مصالح کو بگاڑ کر فساد کرتے نہ پھرو۔ ظاہر یہ ہے کہ یہ حال مؤکدہ ہے کیونکہ عثی کا معنی خود ہی اَفْسَدَ ہے (یعنی عثو جب افساد کے ہم معنی ہے تو مفسدین سے تاکید ہوگئی ‘ کوئی نیا معنی مراد نہیں ہے) ۔
Top