Urwatul-Wusqaa - Hud : 85
وَ یٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ
وَيٰقَوْمِ : اور اے میری قوم اَوْفُوا : پورا کرو الْمِكْيَالَ : ماپ وَالْمِيْزَانَ : اور تول بِالْقِسْطِ : انصاف سے وَلَا تَبْخَسُوا : اور نہ گھٹاؤ النَّاسَ : لوگ اَشْيَآءَهُمْ : ان کی چیزیں وَلَا تَعْثَوْا : اور نہ پھرو فِي الْاَرْضِ : زمین میں مُفْسِدِيْنَ : فساد کرتے ہوئے
(شعیب نے کہا) اے میری قوم کے لوگو ! ماپ تول انصاف کے ساتھ پوری پوری کیا کرو ، لوگوں کو ان کی چیزیں (ان کے حق سے) کم نہ دو ملک میں شر و فساد پھیلاتے نہ پھرو
اے میری قوم کے لوگو ! لوگوں کی چیزوں میں کھوٹ نہ ملایا کرو اور نہ ہی کم دیا کرو ۔ 109 جس طرح ہر قوم کی بیماریوں مختلف تھیں شعیب (علیہ السلام) کی قوم کی بھی کچھ مخصوص بیماریاں تھیں۔ آپ کی قوم مدین اور اس کے نواحی علاقہ میں آباد تھی یہ شہر بحر احمر کے اس مقام پر آباد تھا۔ جہاں جزیرئہ نمائے عرب کی دو تجارتی شاہراہیں آ کر ملتی تھیں۔ یمن و شام اور عراق و مصر کے قافلے یہیں سے گزرتے تھے۔ آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مدین کتنی بڑی تجارتی منڈی تھی اور وہاں کاروبار کا کیا حال ہوگا اور وہاں کے باشندے کتنے آسودہ حال ہوں گے۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ ہر قوم اپنے مخصوص حالات اور ماحول کی وجہ سے مخصوص اخلاقی کمزوریوں میں مبتلا ہوتی ہے۔ اہل مدین چونکہ ایک بین الاقوامی تجارتی منڈی میں آباد تھے اور کاروبار میں بڑی مہارت رکھتے تھے اس لئے ان میں وہی کمزوریاں پوری شدت سے رونما ہوئیں جو عام طور پر اس ماحول کی پیداوار ہوتی ہیں۔ ناپ تول میں خیانت ، لیتے وقت زیادہ ناپنا اور زیادہ تولنا اور دیتے وقت کم ناپنا اور کم تولنا اور پھر یہ کہ لینے دینے والوں کو پتہ بھی نہ چلنے دینا یہ ان کا خاص فن تھا۔ ایسا معلوم ہوتا کہ جھکتا دے رہے ہیں لیکن حقیقت میں وہ پچاس گرام فی کلو کم ہی ہوتا۔ آپ نے اس حرکت سے انہیں باز رہنے کی تلقین کی۔ شعیب (علیہ السلام) کو حسن خطابت الانبیاء کا لقب دیا گیا ہے آپ کا یہ خطبہ جو ان آیات میں مذکور ہے کتنا حکیمانہ اور مدلل ہے۔ پہلے فرمایا کہ ناپ تول میں کمی نہ کیا کرو کیونکہ یہ گھٹیا حرکت تو وہ کرتے ہیں جو غریب اور نادار ہوں لیکن تمہاری مالی حالت تو بہتر ہی بہتر ہے ، تم آسودہ حال ہو ، کاروبار بڑے عروج پر ہے ، اتنے متمول ہونے کے باوجود تمہارا ان رذیل ہتھکنڈوں کو استعمال کرنا تھا تمہاری شان کے بھی خلاف ہے۔ غور کیجیے کہ کس عمدہ طریق سے انہیں شرم دلائی جا رہی ہے اور اس فعل سے انہیں روکا جا رہا ہے اور یہ تنبیہ بھی کی جا رہی ہے کہ تم یہ سمجھتے ہو کہ تم اس چابکدستی سے ڈنڈی مارتے ہو کہ تم لوگوں کی سادہ لوحی اور ناتجربہ کاری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ نفع کما لو اور تھوڑی سی مدت میں امیر کبیر بن جائو اور تمہارا خیال ہے کہ اگر تم نے بہت دولت اکٹھی کرلی تو امن و سلامتی اور راحت و شادمانی اک دور دورہ ہوگا لیکن تمہارا یہ خیال درست نہیں۔ ناجائز معاشی استحصال کا نتیجہ ہمیشہ برا ہوتا ہے اس سے آخر فتنہ و فساد کی آگ بھڑک اٹھتی ہے وہی لوگ جو آج تمہیں کمزور اور بےزبان نظر آ رہے ہیں اور جن کے متعلق تمہارا یہ نظریہ ہے کہ ان کے جسم سے جتنا بھی خون نکال لیا جائے یہ اف تک نہیں کریں گے ان میں تو احتجاج کی سکت تک نہیں لیکن جب ظلم و تشدد کی انتہا ہوجائے گی تو ان کے ہاتھ سے صبر کا دامن چھوٹ جائے گا اور مہر خاموش ٹوٹ جائے گی۔ ان کی بےنور آنکھوں سے غیظ و غضب کے انگارے چھوٹیں گے۔ ان کی زبان شعلہ نوا بنے گی اور تمہارے ان عشرت کدوں اور تمہارے سامان تعیش کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دے گی۔ تم انہی باغی کہو او ، فسادی اور فتنہ باز کہو گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس فتنہ و فساد کا باعث تم ہو ، سارا ایندھن تم نے فراہم کیا انہوں نے تو صرف آگ لگا دی۔ یہ ہلاکت خیز بم تو تم ہی نے تیار کیا انہوں نے تو جوش انتقام میں صرف اس کا بٹن آن کیا۔ معاشی میدان میں ناجائز وسائل سے نفع اندوزی کرنے والوں کو فساد بپا کرنے والا کہہ کر ایک تلخ لیکن ناقابل انکار حقیقت سے پردہ اٹھایا۔ آج دنیا میں کتنے ممالک ہیں جن میں بےچینی اور بےاطمینانی کا سیلاب امڈا چلا آ رہا ہے معاشی زبوں حالی کی وجہ سے کتنے ممالک انقلاب کی آما جاگہ بنے ، کتنے شاہی خاندانوں کو ان کی نادار اور کمزور رعایا نے بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کر ڈالا ، کیا یہ چیزیں ہمیں بےوار کرنے کے لئے کافی نہیں ؟ آپ مجموعی طور پر پوری دنیا پر نظر ڈالیں تو سب سے زیادہ بےچینی ان ہی ممالک میں نظر آئے گی جن میں اکثریت قوم مسلم کی ہے ، کیوں ؟ آپ اپنے اس ملک عزیز پر نگاہ دوڑائیں اور ان خاندانوں کا مطالعہ کریں جو اس وقت کے اور اس ملک کے فراغنہ ہیں کیا ان کی دولت ، ان کے اقتدار ، ان کے مالو متاع نے ان کو اطمینان دیا ہے ؟ جب سے یہ ملک تقسیم ہو کر پاکستان کے نام سے معرض وجود میں آیا سوائے چند معدودے خاندانوں کے نرغے سے اقتدار باہر نکلا ؟ اچھا ان خاندانوں میں جن میں اقتدار رہا اور اس وقت موجود ہے ان میں اطمینان ہے ؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو سمجھ لو کہ قرآن کریم نے جو وجوہ بیان کئے وہ بالکل حق اور درست ہیں جو آج سے صد ہا سال پہلے کتنی وضاحت سے بیان فرما دیئے۔ اب ان سے نصیحت حاصل کرنا تو ہمارا فرض ہے۔ اگر ہم فساد فی الارض کریں تو ہمارا انجام بھی بالکل وہی ہوگا جو پہلے مفسدین کا ہوا۔
Top