Tafseer-e-Mazhari - Al-Israa : 26
وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا
وَاٰتِ : اور دو تم ذَا الْقُرْبٰى : قرابت دار حَقَّهٗ : اس کا حق وَالْمِسْكِيْنَ : اور مسکین وَ : اور ابْنَ السَّبِيْلِ : مسافر وَ : اور لَا تُبَذِّرْ : نہ فضول خرچی کرو تَبْذِيْرًا : اندھا دھند
اور رشتہ داروں اور محتاجوں اور مسافروں کو ان کا حق ادا کرو۔ اور فضول خرچی سے مال نہ اُڑاؤ
وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ : اور اپنے قرابت داروں کو ان کا حق دو ۔ کنبہ پروری حسن معاشرت ‘ اچھا سلوک اور بھلائی ان کے ساتھ کرو۔ اکثر اہل تفسیر نے یہی مطلب بیان کیا ہے 1 ؂۔ امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا مال دار پر لازم ہے اس قرابت دار محرم کا خرچ جو نادار بچہ ہو یا نادار بالغ عورت ہو ‘ یا اپاہج یا نابینا نادار مرد ہو اس سے حفظ جان وابستہ ہے اور حفظ حیات ہی اصل بِر اور صلۂ رحمی ہے سورة بقرہ کی آیت وعلی الوارث مثل ذلک کی تفسیر میں ہم نے اس مسئلہ کی تنقیح کردی ہے۔ بغوی نے حضرت علی ؓ بن حسین ؓ (امام زین العابدین) کا قول نقل کیا ہے کہ قربیٰ سے مراد رسول اللہ ﷺ : کی قرابت ہے (یعنی رسول اللہ ﷺ کے قرابت داروں کو ان کا حق ادا کرو) ابن ابی حاتم نے سدی کی روایت سے بھی ایسا ہی نقل کیا ہے۔ طبرانی وغیرہ نے حضرت ابو سعید خدری کا بیان نقل کیا ہے کہ جب آیت وَاٰتِ ذالْقُرْبٰی حَقَّہٗ نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ ؓ کو طلب فرما کر فدک عطا فرما دیا۔ ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس ؓ کی جانب بھی اس بیان کی نسبت کی ہے۔ ابن کثیر نے لکھا ہے اس روایت کو صحیح ماننا مشکل ہے کیونکہ اس روایت پر کہنا پڑے گا کہ یہ آیت مدنی ہے حالانکہ مشہور اس کے خلاف ہے (یعنی آیت کا مکی ہونا مشہور ہے) میں کہتا ہوں مشہور قابل اعتماد یہ روایت ہے کہ حضرت فاطمہ ؓ نے حضور ﷺ سے خود فدک طلب کیا تھا مگر آپ نے نہیں دیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا قول بھی اسی طرح روایت میں آیا ہے اگر رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ : ؓ کو فدک عطا فرما دیا ہوتا تو خلفاء راشدین خصوصاً حضرت علی ؓ پھر ہرگز اس کو نہ روکتے اور اس کے خلاف نہ کرتے۔ واللہ اعلم۔ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ : اور مسکین و مسافرو کو دو ۔ اس کی تفصیل سورة بقرہ میں کردی گئی ہے۔ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيْرًا : اور مال کو گناہ کے راستہ میں برباد نہ کرو۔ یعنی اپنے مال کو گناہ کے راستے میں خرچ نہ کرو۔ مجاہد نے فرمایا اگر کوئی شخص اپنا سارا مال حق کے راستے میں خرچ کر دے تو اس کو تبذیر (مال کو بکھیرنا برباد کرنا) نہیں کہا جائے گا اور اگر ایک سیر غلہ بھی گناہ کے راستے میں خرچ کیا تو اس کو تبذیر کہا جائے گا۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے تبذیر کی تشریح فرمائی مال کو خرچ کرنا حق (کے راستے) کے علاوہ (باطل راستہ میں) شعبہ کا بیان ہے میں ابو اسحاق کے ساتھ کوفہ کے راستہ میں جا رہا تھا ‘ سر راہ ایک دیوار چونے اور پختہ اینٹوں سے بنی ہوئی ملی ‘ ابو اسحاق نے کہا ‘ حضرت عبداللہ (ابن مسعود) کے قول پر یہ تبذیر ہے حق کے راستے کے علاوہ (باطل کے راستے میں) مال کا خرچ کرنا ہے۔
Top