Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 117
بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ
بَدِیْعُ : پیدا کرنے والا السَّمَاوَاتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَاِذَا : اور جب قَضٰى : وہ فیصلہ کرتا ہے اَمْرًا : کسی کام کا فَاِنَّمَا : تو یہی يَقُوْلُ : کہتا ہے لَهٗ كُنْ : اسے ہوجا فَيَكُوْنُ : تو وہ ہوجاتا ہے
(وہی) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والاہے۔ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اس کو ارشاد فرما دیتا ہے کہ ہوجا تو وہ ہو جاتا ہے.
بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ( موجد ہے آسمان اور زمین کا) یعنی جس طرح وہ آسمان و زمین کی چیزوں کا خالق ہے اسی طرح وہ خود آسمان و زمین کا بھی خالق و موجد ہے اور یا یہ معنی کہ آسمان اور زمین اسی کے پیدا کردہ اور مخلوق ہیں۔ تقدیر اول پر بدیع بمعنی اسم فاعل مبدع ہوگا اور صورت ثانی پر بمعنی اسم مفعول یعنی مبدع ہوگا۔ وَاِذَا قَضٰٓى اَمْرًا ( جب ارادہ کرتا ہے کسی کام کا) یعنی جب کسی شے کا ارادہ کرتا ہے اصل معنی قضا کے کسی شے سے فراغ پانے کے ہیں اسی واسطے کسی شے کے تمام کرنے پر اس کا اطلاق آتا ہے خواہ وہ شے قولی ہو جیسے فرمایا : وَ قَضٰی ربک ان لا تعبدوا الا ایاہ ( اور قطعی حکم دے دیا آپ کے پروردگار نے کہ کسی کو نہ پوجو اس کے سوا) یا وہ شے فعلی ہو جیسے فرمایا : فَقَضٰھُنَّ سَبْعَ سَمٰوَاتٍ ( پھر پوار بنا دیا ان کو سات آسمان) اور کبھی اس کا اطلاق اس ارادۂ الٰہی پر آتا ہے جو کسی شے کے وجود کے ساتھ بحیثیت موجب وجود ہونے کے متعلق ہو یہاں یہی معنی مراد ہیں۔ فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ ( تو بس فرما دیتا ہے کہ ہو سو وہ ہوجاتا ہے) کن اور فیکون دونوں کان تامہ سے مشتق ہیں کیونکہ چیز کہیں مذکور نہیں مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ پیدا ہو، وہ شے پیدا ہوجاتی ہے یہ مطلب نہیں کہ کسی صفت سے موصوف ہو۔ جمہور نے فیکون کو بطور کلام مستقل کے یا بقول پر عطف کرکے سب جگہ رفع سے پڑھا ہے اور کسائی نے ابن عامر کی متابعت کرکے سورة نحل اور سورة یٰسین میں نصب سے پڑھا ہے اور ابن عامر نے سب جگہ نصب سے پڑھا ہے لیکن سورة آل عمران میں کن فیکون الحق کو اور سورة انعام میں کن فیکون قولہ الحقکو رفع سے پڑھا ہے۔ نصب کی وجہ یہ ہے کہ جواب امر میں فاء کے بعد ان مقدر مانا ہے۔ اس مقام پر چند بحثیں ہیں اول یہ کہ معدوم کو خطاب کرنا تو جائز نہیں ( بلکہ متصور نہیں) پھر اللہ تعالیٰ نے یہ لفظ کن کیوں اور کسے فرمایا۔ بعض علماء نے تو اس کا یہ جواب دیا ہے کہ اس شے کا وجود چونکہ مقدر تھا۔ اس لیے گویا وہ وقت خطاب میں موجود تھی اسی طرح خطاب صحیح ہوگیا اور ابن انباری نے کہا ہے کہ یقول لہ کے معنی یہ ہیں کہ اس کو پیدا کرنے کے لیے یوں فرماتا ہے یہ مطلب نہیں کہ خود اس کو فرمان دیتا ہے اس مطلب پر یہاں خطاب ہی نہیں۔ علامہ بیضاوی نے کہا ہے کہ حقیقتاً یہ مراد نہیں کہ کسی شے کو امر فرمایا ہو اور اس نے امتثال کیا ہو بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی یہ ایک مثال دی ہے کہ جس طرح کوئی آمر کسی مامور کو کہے اور وہ فوراً مطیع ہوجائے اسی طرح ہم جب چاہتے ہیں تو شے کو پیدا کردیتے ہیں دوسری بحث یہ ہے کہ یکون کا نصب جو ان مقدرہ کی وجہ سے ہے چاہتا ہے کہ صیغہ امر اپنے معنی میں ہو کیونکہ ان تو امر حقیقی کے بعد ہی مقدر ہوتا ہے اور حالانکہ یہاں امر اپنے معنے میں نہیں بلکہ یہ مراد جلد حاصل ہوجانے کی مثال ہے پھر نصب کس طرح متصورہو سکتا ہے اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہ نصب ظاہر لفظ کے اعتبار سے ہے نہ معنی کے اعتبار سے اور ظاہر صیغہ صیغہ امر ہے تیسری بحث یہ ہے کہ ان کے مقدر ہونے کی شرط یہ ہے کہ فا کا ما قبل ما بعد کا سبب ہو اور اس صورت میں یہ لازم آتا ہے کہ ممکن کے لیے دو مربتہ کون ( وجود) ہوں۔ اس کا جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ کون اول سے مجازاً وجوب اس طور پر مراد ہے کہ مسبب کا سبب پر اطلاق کیا گیا ہے کیونکہ ممکن جب تک حد وجوب میں نہیں آتا موجود نہیں ہوتا پس حاصل کن کا یہ ہونا چاہئے کہ وجوب اس شے کا ہوجائے۔ میں کہتا ہوں کہ جواب اس طرح بھی ہوسکتا ہے کہ اول کون سے مراد اس کا دارالعمل ( دنیا میں سبب ہونا اور دوسرے کون سے دارالجزاء (آخرت) میں مسبب ہونا مراد ہو لیکن اس صورت میں یہ آیت مکلفین کے ساتھ خاص ہوگی حالانکہ طرز کلام عموم کو چاہتا ہے اور عمدہ جواب یہ ہے کہ اول کون سے مراد اس شے کا وجود علمی کے ساتھ مرتبہ اعیان ثابتہ ( یعنی مرتبہ تقرر) میں موجود ہونا ہے اور دوسرے کون سے اس شے کا خا ارج میں بوجود ظلی موجود ہونا ہے۔ صوفیہ کرام (رح) نے اسی طرح فرمایا ہے اور اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اعیان ثابتہ کا مرتبہ بحدوث زمانی حادث ہے اور اس تفسیر کے موافق یہ آیت توحید شہودی پر دال ہے جیسا کہ حضرت مجدد الف ثانی نے فرمایا ہے توحید وجودی پر دلالت نہیں کرتی جیسا کہ شیخ اکبر محی الدین عربی قدس سرہٗ نے فرمایا ہے کہ ممکنات نے خارج میں وجود کی بوتک نہیں سونگھی ‘ واللہ اعلم۔
Top