Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 117
بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ
بَدِیْعُ : پیدا کرنے والا السَّمَاوَاتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَاِذَا : اور جب قَضٰى : وہ فیصلہ کرتا ہے اَمْرًا : کسی کام کا فَاِنَّمَا : تو یہی يَقُوْلُ : کہتا ہے لَهٗ كُنْ : اسے ہوجا فَيَكُوْنُ : تو وہ ہوجاتا ہے
وہ آسمان و زمین کو بنانے والا ہے وہ جب کسی کام کا فیصلہ کرلیتا ہے تو حکم دیتا ہے ہوجا اور جیسا وہ حکم دیتا ہے بالکل ویسا ہی ظہور میں آجاتا ہے
بغیر کسی مادہ کے پیدا کرنے والا ہی ” اللہ “ ہے : 219: بدیع وہ ہے جو نہ کسی آلہ کا محتاج ہو نہ کسی مال مسالہ کا۔ نہ مکان و مقام کا پابند ہو اور نہ ہی زمان و وقت سے مقید ہو۔ نہ کسی چیز کا محتاج ہو نہ کسی نمونہ و نقشہ کا نہ استاد کا۔ اصلی اور حقیقی معنوں میں خالق اور موجد ہے بغیر کسی کی اعانت اور شرکت کے وجود میں لانے والا۔ بدیع کا لفظ دراصل ان مشرک قوموں کے رد میں ہے جو اللہ کو محض صانع کی حیثیت دیتے ہیں اور روح یا مادہ دونوں کو کسی نہ کسی درجہ میں اس کا شریک و سیہم رکھتے ہیں۔ گویا مادہ پہلے سے موجود ہے وہ قدیم اور غیر حادث ہے۔ یا روح بھی اس کے ساتھ ساتھ قدیم و غیر حادث ہے اب اللہ نے صرف اتنا کیا کہ ایک اعلیٰ درجہ کے کیمسٹ کی طرح ان میں باہمی ترکیب و تربیت سے نئی نئی صورتیں نمودار کردیں۔ ابداع کا لفظ ان سارے مشرکانہ تخیلات کی تردید کے لئے کافی ہے۔ تقدیم ذاتی کے علاوہ تقدیم زمانی بھی تمام صفات کمال کی طرح اس کی ذات کے لئے ثابت ہے۔ وہ سب پر ” زمانۃ ً “ بھی مقدم ہے ایک زمانہ تھا کہ صرف وہ تھا اور کچھ بھی نہیں تھا اور یقیناً وہ وقت بھی آنے والا ہے کہ صرف وہی ہوگا اور کچھ بھی نہیں ہوگا۔ اللہ کے کلمہ ” کُن “ کا صحیح مطلب کیا ہے ؟ 220: یعنی عدم محض سے وجود میں آجا۔ نیست سے ہست ہوجا۔ ” یقول “ : کہتا ہے کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے آپ کی طرح یہ دو حرفی لفظ ” کن “ بولتا ہے لفظ و حروف تو خود ہی حادث ہے اور نہ حق تعالیٰ کا تلفظ زبان ، ہونٹ یا اعصاب کا محتاج ہے۔ بندوں کی سمجھ کے لائق آخر اس کے سوا قریب سے قریب تر پیرایہ بیان اور اسلوب اور کیا اختیار کیا جائے۔ اے بروں ازوہم و قال و قیل من ۔ خاک بر فرق من و تمثیل من ! مقصود صرف اسی قدر ہے کہ ادھر حق تعالیٰ کا ارادہ ہوا ادھر معاً اور بلا تو سط و توقف اس کا ظہور عملاً ہوگیا۔
Top