Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 14
وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوْدَهٗ یُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِیْهَا١۪ وَ لَهٗ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ۠   ۧ
وَمَنْ : اور جو يَّعْصِ : نافرمانی اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَيَتَعَدَّ : اور بڑھ جائے حُدُوْدَهٗ : اس کی حدیں يُدْخِلْهُ : وہ اسے داخل کرے گا نَارًا : آگ خَالِدًا : ہمیشہ رہے گا فِيْھَا : اس میں وَلَهٗ : اور اس کے لیے عَذَابٌ : عذاب مُّهِيْنٌ : ذلیل کرنے والا
اور جو خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اس کی حدوں سے نکل جائے گا اس کو خدا دوزخ میں ڈالے گا جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اور اس کو ذلت کا عذاب ہوگا
و من یعص اللہ و رسولہ و یتعد حدودہ یدخلہ ناراً خالدا فیھا و لہ عذاب مہین . اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا۔ (یعنی حکم کا انکار کرے گا) اور اسکے ضابطوں سے ہٹ جائے گا وہ اسکوآگ میں لے جائیگا جس میں وہ ہمیشہ رہیگا اور اس کو ذلت آفریں عذاب ہوگا۔ چونکہ لفظ مَن مفرد ہے اس لیے ہٗ ضمیر مفرد مذکر اور خالداً حال بصیغہ مفرد مذکر ذکر کیا لیکن معنی کے لحاظ سے من جمع ہے اس لییخالدِین حال بصیغہ جمع مذکر ذکر کیا۔ وا اللہ اعلم حقیقی اور علاتی بہن بھائی کا ذکر اس سورت کے آخر میں آئے گا۔ ہم چاہتے ہیں کہ فرائض کے مسائل اس جگہ سیر حاصل طور پر بیان کردیں۔ مسئلہ عول اگر اہل فرائض کے حصے ترکہ کے سہام سے زائد ہوں تو لا محالہ ہر حصے والے کے حصے میں اس کے حصہ کے تناسب سے کچھ کمی کی جائے گی اور اس طرح تمام اہل فرائض کو ان کا حصہ (کچھ کمی کے ساتھ) دیدیا جائے گا ایسے مسئلہ کو عائلہ (اور ایسا عمل کر نیکو عول) کہتے ہیں عول کا معنی ہے موڑنا جھکانا چونکہ اہل فرائض میں باہم تعارض ہوتا ہے اور کسی ایک کے مقرر حصہ کو دوسرے کے مقررہ حصہ پر ترجیح نہیں دی جاسکتی اس لیے ترکہ کے اندر مقرر کئے ہوئے سہام کو (اصل تعداد سے) موڑ کر کچھ بڑھا دیا جاتا ہے عول کی وجہ تسمیہ یہی ہے اس کے علاوہ میراث کو قرض پر بھی قیاس کیا جاتا ہے (اگر قرض خواہ متعدد ہوں جن کے لیے ترکہ کافی نہ ہو تو قرض کے تناسب سے ہر قرض خواہ کے حق میں کچھ کمی کرکے دیا جاتا ہے اور قرض کے مناسب ٹکڑے کردیئے جاتے ہیں) ۔ حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں عول پر اجماع منعقد ہوا تھا آپ کی خدمت میں ایک مسئلہ پیش ہوا کہ ایک عورت شوہر اور دو بہنوں کو چھوڑ کر مری تو تقسیم کس طرح ہوگی (شوہر کو نصف ترکہ کا) اور دو بہنوں کو دو تہائی ترکہ کا حق ہے نصف اور دو تہائی مل کر کل ترکہ سے 6/1 بڑھ جاتا ہے پھر تقسیم کیسے ہو مثلاً مسئلہ کی تصحیح 6 سے کی گئی تو 3 شوہر کے اور 4 بہنوں کے ہونا چاہئے اور ان دونوں کا مجموعہ 7 ہوتا ہے گویا 6 سے ایک زائد ہوگیا پھر چھ کو دونوں فریق پر کس طرح بانٹا جائے۔ حضرت عمر نے صحابہ کرام کو جمع کرکے ان سے مشورہ لیا اور فرمایا : دیکھو اگر کوئی شخص مرجائے اور اس کا ترکہ صرف چھ روپیہ ہو لیکن دو مستحق ہوں ایک تین روپیہ کا طلبگار ہو اور دوسرا چار روپیہ کا تو کیا کل مال کے سات حصے کرکے تقسیم نہیں کی جائے گی صحابہ نے اس کی تائید کی اور آپ کے قول کے موافق عمل کیا۔ لیکن حضرت عمر کی وفات کے بعد حضرت ابن عباس نے اس کی مخالفت کی کسی نے پوچھا آپ ؓ نے حضرت عمر ؓ کے سامنے ایسا کیوں نہیں کیا فرمایا : ان کی ہیبت کی وجہ سے وہ پر ہیبت شخص تھے۔ لوگوں نے کہا جو رائے آپ کی جماعت کے ساتھ تھی ہم کو آپ کی اس انفرادی رائے سے وہی زیادہ پسند ہے۔ بیہقی نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا : جو شخص (صحراء عالج کے) ذروں کو گن سکتا ہے وہ مال کو آدھا آدھا کرنے کے بعد پھر اسی میں سے ایک تہائی بھی نکالتا ہے (یہ کیسا حساب ہے) نصف اور نصف کرنے سے پورا مال ختم ہوجاتا ہے پھر تہائی مزید نکالنے کی گنجائش ہی کہاں رہتی ہے۔ دریافت کیا گیا سب سے پہلے میراث کے مقررہ حصوں میں عول کس نے کیا تھا ؟ فرمایا : حضرت عمر ؓ نے اس کے بعد پورا قصہ نقل کردیا۔ پھر آپ نے فرمایا : خدا کی قسم اگر اس کو حصہ میراث میں مقدم رکھا جائے جس کو اللہ نے مقدم رکھا ہے اور اس کو پیچھے رکھا جائے جس کو اللہ نے پیچھے رکھا ہے تو فرائض میں عول کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے گی۔ حاکم نے بھی حضرت ابن عباس کا یہی مقولہ نقل کیا ہے ایک اور روایت میں آیا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ سے دریافت کیا گیا فرائض میں مقدم کون ہے اور مؤخر کون ہے ؟ فرمایا : اللہ نے مقدم اس کو رکھا ہے کہ جب اس کا مقرر کردہ حصہ کچھ گرایا گیا تو بدلے ہوئے حصہ کی بھی مقدار مقرر کردی اور پیچھے اس کو رکھا ہے کہ جب اس کے مقررہ حصہ کو بدلا تو پھر اس کے لیے کوئی حصہ مقرر نہیں کیا بلکہ اگر کچھ بچ رہے تو اس کو دیدیا جائے گا ورنہ کچھ نہیں۔ مقدم فریضہ والے تو شوہربیوی اور ماں ہے (کہ شوہر کا اصل حصہ نصف اور بیوی کا چہارم اور ماں کا تہائی ہے لیکن اگر میت کی اولاد ہو تو نصف بدل کر چہارم اور چہارم بدل کر آٹھواں اور تہائی بدل کہ چھٹا ہوجاتا ہے) اور مؤخر فریضہ والی بیٹیاں اور بہنیں ہیں (کہ ان کا اصل حصہ تو ایک بیٹی کے لیے یا ایک بہن کے لیے نصف ہے اور دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں تو دو تہائی ہے اور ایک بیٹی ایک بہن کے ساتھ ہو تو بیٹی کا نصف اور بہن کا چھٹا حصہ ہے لیکن جب بیٹیاں یا بہنیں اپنے بھائی کے ساتھ ہوں تو ان کا حصہ مقرر نہیں رہتا بلکہ یہ عصبہ ہوجاتی ہیں) اب اگر وہ وارث بھی ہوں جن کو اللہ نے مقدم رکھا اور وہ وارث بھی جن کو اللہ نے پیچھے رکھا ہے تو مقدم وارثوں کا پورا حصہ دیا جائے اور اگر کچھ باقی رہے گا توبیٹیوں اور بہنوں کو دیا جائے گا ورنہ کچھ نہیں۔ محمد بن حنفیہ کا قول بھی اس مسئلہ میں ابن عباس ؓ کے موافق ہے۔ مسئلہ اجماع صحابہ ہے کہ اہل فرائض کے مقررہ حصے دینے کے بعد جتنا مال باقی رہے گا وہ اس مرد کو دیا جائے گا جس کی قرابت میت سے سب سے زیادہ ہوگی جیسا کہ حدیث مذکورۂ بالا میں آچکا ہے ایسے شخص کو عصبہ کہتے ہیں گر اہل فرض نہ ہو تو عصبہ کل مال کا وارث ہوتا ہے میت کا قریب ترین قرابت دار اس کا بیٹا ہوتا ہے بیٹے کے بعد پوتا اسی طرح نیچے تک تمام نرینہ نسل کا درجہ ہے۔ نرینہ نسل کے بعدقریب ترین شخص باپ ہے پھر دادا پھر پردادا اسی طرح نرینہ سلسلہ کی اصل کا حسب ترتیب مرتبہ ہے۔ پھر حقیقی بھائی کا، پھر علاتی بھائی پھر حقیقی بھائی کے بیٹے کا پھر علاتی بھائی کے بیٹے کا، اسی طرح باپ کی نرینہ نسل کی ترتیب نیچے تک دی جائیگی پھر دادا کے حقیقی بھائی کا پھر اسکے علاتی بھائی کا پھر دادا کے حقیقی بھائی کے بیٹے کا پھر دادا کے علاتی بھائی کے بیٹے کا اسی طرح پردادا کی نسل نیچے تک جائے گی وغیرہ وغیرہ۔ حضرت علی ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : حقیقی بھائی باہم وارث ہوتے ہیں (یعنی عصبہ ہوتے ہیں) ان کی موجودگی میں علاتی بھائی وارث نہیں ہوے۔ (رواہ الترمذی وابن ماجہ والحاکم) اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں صرف مقاسمۃ الجد کے مسئلہ میں اختلاف ہے۔ مسئلہ علماء کا اجماعی قول ہے کہ جن عورتوں کے لیے ایک ہونے کی حالت میں نصف اور دو ہونے کی حالت میں دو تہائی مقرر ہے وہ اپنے بھائی کے ساتھ مل کر عصبہ ہوجاتی ہیں اہل فرض نہیں رہتیں کیونکہ اولاد (مذکر و مؤنث اگر مخلوط ہوں) اور بھائیوں بہنوں کے لیے اللہ نے فرمایا ہے : لِلّذَکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِاور جو عورتیں اہل فرض نہیں ہیں اور ان کا بھائی عصبہ ہے تو ایسی عورتیں بھائی کے ساتھ مل کر بھی عصبہ نہیں ہوتی جیسے پھوپھی اور بھتیجی۔ مسئلہ باجماع اہل فرائض آخری عصبہ مولیٰ عتاقہ ہے (اگر کسی آقا نے غلام کو آزاد کردیا تو اس آقا کو مولیٰ عتاقہ کہا جاتا ہے آزاد شدہ غلام اگر مرجائے تو سب سے پہلے اس کے وارث اس کے اہل فرائض ہوں گے پھر وہ رشتہ دار وارث ہوں گے جو رشتہ میں عصبہ ہیں پھر نسبی عصبات نہ ہوں گے تو عصبہ سببی یعنی مولیٰ عتاقہ وارث ہوگا) ۔ بیہقی اور عبد الرزاق نے لکھا ہے کہ ایک آدمی دوسرے شخص کو لے کر رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا میں نے اس کو خرید کر آزاد کردیا اس کی میراث کا کیا حکم ہے فرمایا : اگر یہ (نسبی) عصبہ چھوڑے گا تو (اہل فریضہ کے بعد) عصبہ سب سے زیادہ مستحق ہوگا ورنہ حق آقائی (یعنی آزاد شدہ غلام کی میراث) تجھے ملے گا۔ صحیحین میں ہے کہ حق آقائی اس کا ہے جس نے آزاد کیا ہو پھر مولیٰ عتاقہ کے عصبات کو حق آقائی حاصل ہے اور عورتوں کے لیے صرف انہی غلاموں کا حق آقائی ہے جن کو انہوں نے آزاد کیا ہو یا ان کے آزاد کردہ غلاموں نے آزاد کیا ہو۔ نسائی اور ابن ماجہ نے بنت حمزہ کی حدیث کے سلسلہ میں لکھا ہے کہ بنت حمزہ نے کسی غلام کو آزاد کیا۔ آزادی کے بعد وہ غلام مرگیا اور اس کی ایک بیٹی اور آزاد کرنے والی بی بی رہ گئی۔ رسول اللہ نے اس کا آدھا مال اس کی بیٹی کو اور آدھا بنت حمزہ کو دلوا دیا۔ دارقطنی اور طحاوی نے اس حدیث کو مرسلاً بیان کیا ہے بیہقی نے لکھا ہے کہ تمام راویوں کا متفقہ قول ہے کہ آزاد کرنے والی بنت حمزہ تھی بنت حمزہ کا باپ نہ تھا اس مبحث کی ایک روایت حضرت ابن عباس کی بھی آئی ہے جس کو دارقطنی نے ذکر کیا ہے۔ مسئلہ اہل فرائض کے حصے دینے کے بعد اگر کچھ مال بچ رہے اور عصبات نہ ہوں تو لوٹا کر پھر اہل فرائض کو ان کے حصوں کے تناسب سے بانٹ دیا جائے گا مگر شوہر اور بیوی کو لوٹا کر دوبارہ کچھ نہیں دیا جائے گا یہ قول امام ابوحنیفہ (رح) اور امام احمد کا ہے امام مالک اور شافعی کے نزدیک بقیہ مال اہل فرائض کو دوبارہ نہیں دیا جائے گا بلکہ بیت المال میں داخل کردیا جائے گا۔ متاخرین شافعیہ نے امام ابوحنیفہ (رح) کے قول پر فتویٰ دیا ہے کیونکہ بیت المال کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ بقول قاضی عبد الوھاب مالکی، ابو الحسن نے بیان کیا کہ حضرت علی ؓ ، حضرت عثمان غنی، حضرت ابن عباس اور حضرت ابن مسعود بقیہ مال کا وارث نہ ذوی الارحام (وہ رشتہ دار جو نہ اہل فرائض ہیں نہ عصبہ) کو قرار دیتے تھے نہ اہل اہل فرائض کو دوبارہ تقسیم کراتے تھے ابو الحسن نے کہا یہ روایت صحیح ہے طحاوی نے اپنی سند سے ابراہیم (نخعی) کا مقولہ نقل کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ اور حضرت عبد اللہ ذوی الارحام کو وارث قراردیتے تھے۔ راوی کا بیان ہے میں نے کہا کہ کیا حضرت علی بھی ایسا کرتے تھے۔ ابراہیم نے کہا حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ تو اس امر میں بہت سخت تھے۔ طحاوی نے دو طریقوں سے سوید بن غفلہ کا بیان نقل کیا ہے سوید نے کہا ایک شخص مرگیا اس کی ایک لڑکی، ایک بیوی اور اس کو آزاد کرنے والا ایک مرد پسماندگان کی فہرست میں ہے۔ میں بیٹھا ہوا تھا کہ یہ مسئلہ حضرت علی ؓ کی خدمت میں پیش ہوا آپ نے لڑکی کو نصف ترکہ اور بیوی کو 8/1 دیا اور جو باقی رہا وہ بھی لڑکی کو دوبارہ دیدیا مولیٰ (آزاد کرنے والے آقا) کو کچھ نہیں دیا۔ ابو جعفر کا مقولہ دو سلسلوں سے منقول ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ (عطاء، فرائض کے بعد) باقی مال بھی ان قرابتدروں کو دلواتے تھے جو اہل فریضہ ہوتے تھے۔ طحاوی نے اپنی سند سے مسروق کا بیان نقل کیا ہے کہ حضرت عبد اللہ سے مسئلہ پوچھا گیا کہ اگر چند اخیافی بھائی ہوں اور ماں ہو تو تقسیم میراث کس طرح کی جائے ؟ آپ نے بھائیوں کو ایک تہائی اور ماں کو باقی کل مال دلوادیا اور فرمایا : جسکا کوئی عصبہ نہ ہو تو ماں اس کی عصبہ ہے۔ آپ ماں کی موجودگی میں اخیافی بھائیوں کو لوٹا کر باقی مال میں سے کچھ نہیں دیتے تھے۔ نہ حقیقی بیٹی کی موجودگی میں پوتی کو دوبارہ کچھ دیتے تھے نہ حقیقی بہن کے ساتھ علاتی بہنوں پر مال کو رد کرتے تھے اور نہ بیوی اور شوہر اور دادا کو فریضۂ مقررہ سے زائد (بطورردّ ) کچھ دیتے تھے۔ طحاوی نے لکھا ہے کہ ہماری نظر میں حضرت علی کا مسلک صحیح ہے حضرت ابن مسعود کا قول ہمارے لیے جاذب نہیں۔ یعنی ذوی الفروض کو بقیہ میراث ان کے حصوں کے مطابق لوٹا کردی جائے اور دور کے رشتہ والے پر قریب کے رشتہ دا رکو ترجیح نہ دی جائے بلکہ سب کو ان کے حصوں کے موافق دیا جائے کیونکہ قرابت داروں کے جو حصہ مقرر کئے ہیں ہم نے دیکھا کہ وہ سب اپنی مختلف قرابتوں کے لحاظ سے وارث ہیں اور کوئی بھی اپنے قرب قرابت کی وجہ سے دور کی قرابت والے سے استحقاق میراث میں اوّلیت کا حامل نہیں ہے یہی مسلک امام ابوحنیفہ (رح) اور صاحبین کا ہے۔ مسئلہ اجماع علماء ہے کہ جب کسی شخص میں دو جہتیں جمع ہوجائیں اہل فرض بھی ہو اور عصبہ بھی تو دونوں کا لحاظ کیا جائے گا۔ مثلاً ایک عورت مرگئی اس کے تین چچا کے بیٹے رہے (تینوں کا شمار عصبات میں ہے) لیکن اس کا اخیافی بھائی بھی ہے اور دوسرا اس کا شوہر ہے تو اخیافی بھائی کو اس کا فریضہ یعنی 6/1 دیا جائے گا شوہر کو نصف ملے گا اور باقی مال تینوں کو عصبہ ہونے کی وجہ سے برابر برابر دیدیا جائے گا۔ مسئلہ کے ابتدائی سہام 6 ہوں گے اور تصحیح 18 سے کی جائے گی جن میں 5 اخیافی کے، 11 شوہر کے اور 2 صرف عصبہ کے ہوں گے (کیونکہ شوہر کا فریضہ 18 میں سے نو ہے اور 2 عصبہ ہونے کی جہت سے ملا کر کل 11 ہوگئے اور اخیافی کے فریضہ کے 3 ہیں اور دو عصبہ ہونے کی جہت سے ملا کر 5 ہوگئے اور تیسرے کی جہت صرف عصبہ ہونے کی ہے اس لیے اس کو صرف 2 ملیں گے۔ ) اگر کسی شخص کو دو طرف سے فریضہ کا استحقاق ہو تو یہ مسئلہ اختلافی ہے امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک تو قوی ترین قرابت کا لحاظ کیا جائے گا اور ضعیف قرابت قابل ترک ہوگی امام ابوحنیفہ (رح) اور امام احمد کے نزدیک دونوں استحقاق معتبر رہیں گے اور دونوں قربتوں کا حصہ اس کو دیا جائے گا اس قسم کی صورت صرف دو مسئلوں میں پیش آسکتی ہے ایک تو صورت یہ ہے کہ کوئی مسلمان کسی محرم عورت سے وطی شبہ میں کرلے اور پھر مرجائے (تو اس عورت کا دوہرا ستحقاق ہوجاتا ہے) دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی مجوسی کسی محرم عورت سے نکاح کرے پھر مسلمان ہوجائے اور مرجائے مثلاً کسی مجوسی نے اپنی بیٹی (پروین) سے نکاح کیا اور لڑکی (زرینہ) پیدا ہوئی پھر اس نواسی (زرینہ) سے بھی نکاح کرلیا اور اس سے لڑکا پیدا ہوا (سہراب) پس زرینہ سہراب کی ماں بھی ہے اور باپ کی لڑکی یعنی علاتی بہن بھی اور پروین سہراب کی نانی ہے اور علاتی بہن بھی۔ مسئلہ اس پر تو علماء کا اجماع ہے کہ شوہر اور بیوی کو چھوڑ کر باقی اہل فرائض میں سے کوئی ایک بھی موجود ہوگا یا عصبات میں سے اگر ایک شخص بھی ہوگا تو ذوی الارحام کو کچھ نہیں ملے گا لیکن (اب استثناء زوجین) اگر کوئی اہل فرض بھی نہ ہو اور عصبہ بھی نہ ہو تو ذوی الارحام کی میراث میں اختلاف رائے ہے۔ ہاں صرف سعید بن مسیب قائل ہیں کہ (باوجود یکہ ماموں ذوی الارحام میں سے ہے اور بیٹی اہل فرض ہے مگر) بیٹی کی موجودگی میں ماموں کو بھی میراث ملے گی۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور امام احمد ذوی الارحام کو وارث قرار دیتے ہیں حضرت علی، حضرت ابن مسعود اور حضرت ابن عباس سے بھی یہی مسلک منقول ہے۔ امام مالک، اور امام شافعی ذوی الارحام کو وارث نہیں مانتے اور (عصبہ نہ ہونے کی صورت میں بقیہ) کل مال بیت المال میں داخل کراتے ہیں۔ علماء کا قول ہے کہ یہی مسلک حضرت ابوبکر ؓ ، حضرت عمر ؓ ، حضرت عثمان ؓ ، حضرت زید بن ثابت، زہری اور اوزاعی کا بھی منقول ہے۔ متاخرین شافعیہ کا فتویٰ اور امام ابوحنیفہ (رح) کے مسلک پر ہے۔ ہماری دلیل یہ ہے کہ ذوی الارحام کو وارث بنانے کے سلسلہ میں اللہ نے فرمایا ہے : وَ اُولوا الْاَرْحَامِ بَعْضُھُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کَتاب اللہ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ نے خطبہ میں فرمایا یہ آیت ذوی الارحام کے متعلق نازل ہوئی کہ ذوی الارحام میں بعض بعض سے زیادہ حق رکھتے ہیں مخالفین نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ تمہارے قول کی کوئی دلیل نہیں واقعہ یہ تھا کہ اہل جاہلیت منہ بولے بیٹے کو بھی میراث دیتے تھے جیسے رسول اللہ نے حضرت زید بن حارثہ کو بیٹا بنا لیا تھا اسی طرح کچھ لوگ آپس میں معاہدہ کرلیتے تھے کہ ایک دوسرے کا وارث ہوگا اس کی تردید میں اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی تاکہ میراث ذوی الارحام (قرابت داروں) ہی کی طرف لوٹ جائے اور (بنائے ہوئے بیٹوں کے متعلق) فرمایا : اُدْعُوْھُمْ لِاٰبَاءِ ھِمْ ھُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللہ آیت میں اولوا الارحام سے مراد ہیں ذوی الفروض اور عصبات۔ ہم کہتے ہیں کہ آیت کا نزول اگر اسی سلسلہ میں مان لیا جائے جو آپ نے بیان کیا تب بھی اعتبار لفظ کے عموم کا ہوتا ہے خصوص سبب کا نہیں ہوتا اور اولو الارحام کا لفط عام ہے ذوی الفروض کو بھی شامل ہے اور عصبات کو بھی اور دوسرے رشتہ داروں کو بھی۔ بعض احادیث سے بھی ہمارے قول کا ثبوت ملتا ہے حضرت امامہ بن سہل کی روایت ہے کہ ایک شخص کے تیر لگا وہ مرگیا اور ماموں کے سوا اس کا کوئی وارث نہ تھا حضرت ابو عبیدہ نے حضرت عمر کو لکھا آپ نے جواب میں لکھا کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے جس کا کوئی وارث (زندہ) نہ ہو اس کا ماموں وارث ہے۔ (رواہ احمد والبزار) طحاوی کی روایت کے یہ الفاظ ہیں جس کا کوئی سر پرست نہ ہو اس کا سر پرست اللہ اور اسکا رسول ہے اور جس کا کوئی وارث نہ ہو (اور ماموں موجود ہو) تو ماموں اس کا وارث ہے۔ حضرت مقدام بن معدیکرب کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جس کا کوئی وارث نہ ہو ماموں اس کا وارث ہے وہ اس کا وارث ہوگا اور اس کی طرف سے دیت دے گا۔ (رواہ احمد وابو داؤد والنسائی و ابن ماجۃ والحاکم وابن حبان) حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ابن ابی حاتم نے ابو زرعہ کا قول نقل کیا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے لیکن بیہقی نے اس کو مضطرب قرار دیا ہے۔ طحاوی کی روایت ان الفاظ کے ساتھ ہے جس نے مال چھوڑا تو وہ اس کے وارثوں کے لیے ہے اور میں اس کا وارث ہوں جس کا کوئی وارث نہ ہو اس کی طرف سے دیت ادا کروں گا اور اس کا وارث ہوں گا اور ماموں اس کا وارث ہے جس کا کوئی وارث نہ ہو وہ اس کے مال کا وارث ہوگا اور اس کی دیت بھی دے گا۔ دوسری روایت میں ہے میں اس کا وارث ہوں گا اور اس کی جان چھڑاؤں گا اور جس کا کوئی وارث نہ ہو ماموں اس کا وارث ہوگا اس کا مال بھی اس کی جان بھی چھڑائے گا میں کہتا ہوں کہ حضور ﷺ نے جو فرمایا کہ میں اس کا وارث ہوں جس کا کوئی وارث نہ ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا مال بیت المال کا ہے اور رسول اللہ بیت المال کے متولی تھے۔ حضرت عائشہ کی حدیث ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : ماموں اس کا وارث ہے جس کا کوئی وارث نہ ہو۔ (رواہ الترمذی والنسائی والطحاوی) نسائی نے اس حدیث کو مضطرب اور دار قطنی نے راجح اور بیہقی نے موقوف کہا ہے۔ حضرت واسع بن حبان کا بیان ہے کہ ثابت بن دحداح کا انتقال ہوگیا ثابت باہر سے آیا ہوا تھا اس کی اصل (خاندان) کا کسی کو پتہ نہ تھا رسول اللہ نے عاصم بن عدی سے فرمایا : کیا تم کو اپنے (گروہ کے) اندر اس کا نسب معلوم ہے ؟ عاصم نے عرض کیا نہیں یا رسول اللہ (مجھے نہیں معلوم) حضور ﷺ نے ثابت کے بھانجے۔ ابو لبابہ بن منذر کو بلوا کر ثابت کی میراث اس کو دیدی۔ (رواہ الطحاوی) حضرت عمر بن خطاب کے چند آثار طحاوی نے نقل کئے ہیں کہ پھوپھی اور خالہ کو آپ ﷺ نے وارث قرار دے کر پھوپھی کو دو تہائی اور خالہ کو ایک تہائی دیا۔ پھوپھی کی قرابت باپ سے ہوتی ہے اس لیے اس کو دوہرا اور خالہ کی قرابت ماں سے ہوتی ہے اس لیے اس کو اکہرا حصہ دیا جو لوگ ذوی الارحام کو وارث نہیں کہتے وہ اپنی دلیل میں حضرت ابوہریرہ کی حدیث پیش کرتے ہیں کہ حضور ﷺ سے پھوپھی اور خالہ کی میراث کے متعلق دریافت کیا گیا فرمایا : جب تک جبرائیل نہ آئیں مجھے نہیں معلوم۔ کچھ دیر کے بعد فرمایا : پھوپھی اور خالہ کی میراث کا مسئلہ پوچھنے والا کہاں ہے وہ شخص حاضر ہوگیا۔ فرمایا : جبرائیل نے مجھے خاموشی سے بتادیا ہے کہ ان دونوں کے لیے کچھ نہیں۔ (رواہ الدار قطنی) یہ حدیث ضعیف ہے اسناد میں مسعدہ عن محمد بن عمرو ہے جو ضعیف ہے بلکہ جھوٹی حدیثیں بنانے والا ہے۔ صحیح یہ ہے کہ یہ حدیث مرسل ہے امام احمد بن حنبل نے فرمایا : ہم نے اس کی حدیث کو آگ لگا دی۔ حاکم نے یہ حدیث عبد اللہ بن دینار عن ابن عمر بیان کی ہے اور اس کو صحیح بھی کہا ہے مگر اس کی سند میں عبد اللہ بن جعفر مدنی ہے جو ضعیف ہے حاکم نے ایک اور حدیث اس کی شاہد بھی بیان کی ہے شریک بن عبد اللہ کا بیان ہے کہ حارث بن ابی عبید نے مجھے بتایا کہ رسول اللہ سے پھوپھی اور خالہ کی میراث کے متعلق دریافت کیا گیا۔۔ اس سند میں میں سلیمان بن داؤد واقع ہے جو متروک ہے دارقطنی نے شریک کی وساطت کے بغیر دوسرے طریقہ سے اس حدیث کو مرسلاً بیان کیا ہے۔ زید بن اسلم نے عطاء بن یسار کی روایت سے بیان کیا کہ ایک انصاری رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ایک شخض مرگیا اور ایک پھوپھی اور خالہ چھوڑ گیا۔ رسول اللہ اس وقت اپنے گدھے پر چڑھ رہے تھے یہ بات سن کر رک گئے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر کہا اے اللہ ایک آدمی مرگیا اور اپنی پھوپھی اور خالہ کو چھوڑ گیا اس شخص نے دوبارہ سوال کیا آپ نے دوبارہ ایسا ہی کہا اس نے تیسری بار پوچھا آپ نے تیسری مرتبہ بھی ایسا ہی کیا پھر فرمایا : ان دونوں کے لیے کچھ نہیں ہے اس حدیث کو طحاوی نے چند طریقوں سے بیان کیا ہے اور نسائی و دار قطنی نے بھی نقل کیا ہے حدیث مرسل ہے ابو داؤد نے مراسیل میں اس کو لکھا ہے حاکم نے مستدرک میں موصولاً بروایت ابو سعید بیان کیا ہے لیکن اس کی سند میں ضعف ہے۔ طبرانی نے صغیر میں محمد بن حارث مخزومی کی سوانح کے ذیل میں اس حدیث کو موصولاً ابو سعید کی روایت سے بیان کیا ہے اس سلسلہ میں بھی کوئی دوسرا شخص سوائے ابو سعید کے قابل نظر نہیں۔ احادیث مختلفہ کو باہم مطابق اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ آیت و اولوا الارحام بعضھم اولی ببعض فی کتاب اللہ کے نزول سے پہلے جب حضور ﷺ سے پھوپھی اور خالہ کی میراث کا مسئلہ پوچھا گیا تو چونکہ اس وقت تک ذوی الارحام کے متعلق کچھ نازل نہیں ہوا تھا اس لیے آپ نے فرمادیا کہ ان کے لیے کچھ نہیں ہے پھر جب ذوی الارحام کی میراث کا حکم نازل ہوگیا تو آپ نے فرمایا : ماموں اس کا وارث ہے جس کا کوئی وارث نہ ہو۔ وا اللہ اعلم مسئلہ ذوی الارحام کی چار قسمیں ہیں (1) میت کی نسل (2) میت کی اصل (3) میت کی اصل قریب کی نسل (4) میت کی اصل بعید کی نسل۔ نمبر اوّل نمبر دوم کو وارث ہونے سے روک دیتا ہے اور نمبر دوم نمبر سوم کو اور نمبر سوم، نمبر چہارم کو (یعنی نمبرچہارم کو اس وقت میراث ملے گی جب نمبر سوئم بھی نہ ہو اور نمبر سوئم اس وقت وارث ہوگا جب نمبر دوم بھی نہ اور نمبر دوم کا استحقاق اس وقت ہوگا جب نمبر اوّل نہ ہو) ہر صنف میں جو میت سے زیادہ قریب ہوگا وہ دور والے کو میراث پانے سے روک دے گا اگر قرب میں سب برابر ہوں تو میت سے جس کا رشتہ کسی وارث کے ذریعہ سے ہوگا وہ اس شخص کو روک دے گا جس کا میت سے رشتہ کسی ذی رحم کے ذریعہ سے ہوگا بھائی بہن چچا پھوپی، ماموں اور خالہ کی نسل میں قوت قرابت کا لحاظ ہوتا ہے بشرطیکہ دائرہ قرابت سب کا ایک ہو مثلاً حقیقی چچا کی لڑکی باپ کے علاتی بھائی کی لڑکی سے اولیٰ ہوتی ہے۔ اگر دائرۂ قرابت مختلف ہو تو قوت قرابت کا کوئی لحاظ نہیں کیا جاتا جیسے باپ کی علاتی بہن اور ماں کی حقیقی بہن کوئی بھی دوری کے لیے حاجب نہیں ہے ترکہ کے تین حصے کرکے دو تہائی باپ کی قرابت والی کو اور ایک تہائی ماں کی قرابت والی کو دیا جاتا ہے۔ طحاوی نے حضرت عمر کا اثر اسی طرح نقل کیا ہے جس کی قرابت دو جہت سے ہو اس کا حصہ ایک جہت کی قرابت والے سے دگنا ہوگا۔ ذوی الارحام میں امام ابوحنیفہ (رح) ، امام ابو یوسف اور حسن بن زیاد کے نزدیک (تعدد جہات کا اعتبار نہیں بلکہ) اشخاص کا اعتبار ہے اور امام محمد ﷺ کے نزدیک اشخاص کے ساتھ ساتھ کیفیت رشتہ بھی قابل لحاظ ہے (مثلاً اگر ایک دو رشتہ والی ہو اور ایک کا میت سے رشتہ اکہرا ہو تو امام صاحب کے نزدیک ترکہ آدھا آدھا تقسیم کردیا جائے گا اور امام محمد کے نزدیک کل ترکہ کے تین حصے کرکے دو حصے دو قرابت والی کو اور ایک حصہ ایک قرابت والی کو دیا جائے گا) اس جگہ تفصیل کی گنجائش نہیں۔ مسئلہ اجماعی فیصلہ ہے کہ قتل عمد قاتل کو مقتول کی میراث سے محروم کردیتا ہے اسی طرح قتل خطا بھی امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک مانع میراث ہے امام مالک کے نزدیک قتل خطا کا مرتکب مقتول کے مال کا وارث ہوگا لیکن جو دیت خودا دا کرے گا اس میں بطور وارث قاتل کا کوئی حصہ نہ ہوگا ہماری دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ کا عام فرمان ہے کہ قاتل وارث نہیں ہوتا۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت سے یہ حدیث ترمذی اور ابن ماجہ نے نقل کی ہے لیکن اس کی سند میں ایک راوی اسحاق بن عبد اللہ ہر وی ہے جو متروک الحدیث ہے۔ نسائی اور دار قطنی نے ایسی ہی حدیث عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ ٖ کی روایت سے بیان کی ہے اور بیہقی و دارقطنی نے حضرت ابن عباس کی روایت سے اس کو بیان کیا ہے۔ امام مالک نے اپنے قول کے ثبوت میں حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کی حدیث پیش کی ہے کہ رسول اللہ نے فتح مکہ کے دن فرمایا : دو (مختلف) مذہبوں والے باہم وارث نہیں ہوں گے۔ بیوی اپنے شوہر کی دیت کی بھی وارث ہوگی اور اس کے مال کی بھی اور شوہر اپنی بیوی کی دیت کا بھی وارث ہوگا اور اس کے مال کا بھی بشرطیکہ ایک نے دوسرے کو قتل نہ کیا ہو اگر ایک نے دوسرے کو عمداً قتل کیا ہو تو قاتل مقتول دیت کا وارث نہ ہوگا۔ (رواہ الدار قطنی) اس سند میں حسن بن صالح راوی مجروح ہے۔ دوسری حدیث امام مالک (رح) نے یہ بیان کی کہ ہشام بن عروہ نے بروایت عروہ بیان کیا کہ رسول اللہ نے فرمایا : جو آدمی اپنے ولی (قرابت دار مورث) کو خطاً قتل کردے وہ اسکے مال کا وارث ہوگا اور (اپنی دی ہوئی) دیت کا وارث نہ ہوگا۔ اس سند میں ایک راوی مسلم بن علی ہے جس کے متعلق یحییٰ نے کہا کہ وہ کچھ نہیں ہے اور دار قطنی نے کہا وہ متروک الحدیث ہے۔ دار قطنی نے کہا وہ متروک الحدیث ہے دارقطنی نے مرسلاً سعید بن مسیب کی روایت سے بیان کیا ہے کہ (حضور ﷺ نے فرمایا :) قاتل عمداً ہو یا خطا دیت کا وارث نہ ہوگا۔ (رواہ ابو داؤد ) ہم کہتے ہیں ان احادیث کے مفہوم سے پتہ چلتا ہے کہ قتل خطا کا مرتکب مقتول کے ترکہ کا وارث ہوگا اور مفہوم ہمارے نزدیک قابل حجت نہیں۔ پھر یہ بات اصول کے بھی خلاف ہے کیونکہ قاتل جب مقتول کے ترکہ کا وارث ہوگا تو دیت کا کس طرح وارث نہ ہوگا۔ (دیت بھی ترکہ کا ایک حصہ ہے) مسئلہ اجماعی فیصلہ ہے کہ مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوگا اور نہ کافر مسلمان کا۔ رسول اللہ کا فرمان ہے مسلمان کافر کا وارث نہیں اور نہ کافر مسلمان کا۔ اس حدیث کے راوی حضرت اسامہ بن زید ہیں۔ (رواہ الشیخان و اصحاب السنن الاربعہ) حضرت معاذ اور ابن مسیب اور نخعی کا قول اس طرح روایت میں آیا ہے کہ مسلمان کافر کا وارث ہوگا کافر مسلمان کا وارث نہ ہوگا جیسے اگر کوئی مسلمان کتابی عورت سے نکاح کرلے تو اس کا وارث ہوگا لیکن وہ اس کی وارث نہ ہوگی۔ امام احمد نے عدم توارث کے قانون سے دو صورتوں کو مستثنیٰ کیا ہے ایک یہ کہ اگر آزاد شدہ غلام کافر ہو اور مرجائے تو اس کا حق ولاء مسلمان آقا کو مل جائے گا۔ حضرت جابر کی مرفوع حدیث ہے کہ مسلمان نصرانی کا وارث نہیں ہوتا ہاں اگر وہ نصرانی اس کا غلام یا باندی ہو (تو وارث ہوجائے گا) (رواہ الدار قطنی) دارقطنی نے لکھا ہے کہ یہ حدیث موقوف ہے ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ باندی غلام سے وہ باندی غلام مراد ہیں جن کو تجارب کرنے کی آقا کی طرف سے اجازت ہو ایسے باندی غلام کا مال آقا کا ہوتا ہے اسی مال کو مجازاً میراث کہا ہے کیونکہ آزاد کردہ غلام تو غلام ہی نہیں ہوتا (اور حدیث میں لفظ عبد آیا ہے) دوسری استثنائی صورت یہ ہے کہ میت مسلمان ہو اور اس کے قرابت دار کافر ہوں لیکن تقسیم ترکہ سے پہلے مسلمان ہوجائیں اس وقت میراث کے مستحق ہوجائیں گے۔ دوسری روایت میں امام احمد کے نزدیک بھی میراث کے مستحق نہیں ہوں گے گویا اس صورت میں امام احمد کا قول بھی جمہور کے موافق ہے اوّل قول کی دلیل حضرت ابن عباس کی حدیث ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جو حصہ جاہلیت کے زمانہ میں بانٹ دیا گیا وہ سابقہ تقسیم کے موافق رہے گا اور جو حصہ اسلامی کے دور میں تقسیم ہوا وہ اسلامی تقسیم کے موافق ہوگا۔ (رواہ ابو داؤد) حضرت ابن عمر کی حدیث کے یہ الفاظ ہیں کہ جو میراث جاہلیت کے زمانہ میں بانٹ دی گئی وہ جاہلیت کی تقسیم پر رہے گی اور جو میراث دور اسلام میں تقسیم ہوئی وہ اسلامی تقسیم پر ہوگی۔ (راہ ابن ماجہ) لیکن دونوں حدیثوں میں امام احمد کے قول کی کوئی دلیل نہیں کیونکہ حدیثوں کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کی حالت میں اللہ کے قائم کردہ حصص کے مطابق تقسیم کی جائے گی۔ جاہلیت کے نظام کے مطابق تقسیم نہیں ہوگی۔ عروہ بن زبیر کی حدیث ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : مسلمان ہونے کے وقت جو چیز جس کی تھی وہ اسی کی ہے علماء نے اس سے بھی امام احمد کے قول پر استدلال کیا ہے مگر اس سے بھی کسی دلیل کا استنباط نہیں کیا جاسکتا۔ (رواہ ابن الجوزی) مسئلہ یہودی نصرانی کا وارث ہوگا اور نصرانی یہودی کا اسی طرح الگ الگ ملت والے باہم وارث ہوں گے کیونکہ کفر ایک ہی ملت ہے (خواہ کوئی فقہ ہو) اور اصل میراث ہے یہ مسلک امام ابوحنیفہ (رح) اور امام شافعی (رح) کا ہے امام احمد اور امام مالک کے نزدیک ایک فرقہ کا کافر دوسرے فرقہ کے کافر کا وارث نہیں ہوگا کیونکہ رسول اللہ نے فرمایا ہے دو مختلف ملتوں والے ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے۔ (رواہ احمد والنسائی و ابو داؤد وابن ماجہ والدار قطنی من حدیث عمر و بن شعیب عن ابیہ عن جدہٖ ) اس سند میں ایک راوی یعقوب بن عطاء ہے جو ضعیف ہے ابن حبان نے یہ حدیث حضرت ابن عمر ؓ کی روایت سے بیان کی ہے اور ترمذی نے حضرت جابر کی روایت سے اس کو لکھا ہے اور روایت کو غریب کہا ہے اس سند میں ایک ضعیف راوی ابن ابی لیلیٰ ہے۔ بزار نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے بیان کیا ہے کوئی ملت دوسری ملت کی وارث نہیں ہوگی اس کی سند میں عمرو بن راشد ہے جو لیّن الحدیث ہے۔ نسائی حاکم اور دار قطنی نے حضرت اسامہ بن زید کی روایت سے انہی الفاظ کے ساتھ اس حدیث کو لکھا ہے لیکن دار قطنی نے کہا ہے کہ حضرت اسامہ کی حدیث میں یہ الفاظ محفوظ نہیں ہیں عبد الحق کو وہم ہوگیا انہوں نے اس حدیث کو ان الفاظ کے ساتھ مسلم کی طرف منسوب کیا ہے بیہقی نے حضرت اسامہ کی روایت کردہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے، مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوگا اور نہ کافر مسلمان کا اور نہ دو ملتوں والے باہم وارث ہوں گے اس سند میں خلیل بن مرہ ضعیف راوی ہے پھر یہ بات بھی ہے کہ دو ملتوں سے مراد اسلام اور کفر ہے۔ وا اللہ اعلم۔ مسئلہ : اجماعی فیصلہ ہے کہ انبیاء کا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ انبیاء کا ترکہ خیرات کا مال ہے جو مسلمانوں کے کا موں میں صرف کیا جانا چاہئے۔ اس فیصلہ کے مخالف صرف شیعہ ہیں جو حضرت ابوبکر صدیق پر طعن کرتے ہیں کہ آپ نے رسول اللہ کا ترکہ حضرت سیدہ فاطمہ ؓ کو نہیں دیا شیعہ نے اعتراض کیا ہے کہ حدیث نَحْنُ معاشِرُ الْاَنْبِیَاءِ لَا نُوْرِثُ مَا تَرَکْنَاہُ صَدَقَۃٌ ہمارا انبیاء کا گروہ ہے ہم کسی کو اپنے مال کا وارث نہیں کرتے ہم جو کچھ چھوڑتے ہیں وہ (عمومی) خیرات ہوتی ہے یہ حدیث خبر واحد ہے اور آیت : یوصیکم اللہ۔۔ کے مخالف ہے لہٰذا آیت پر خبر واحد کی ترجیح لازم آتی ہے پھر دوسری آیات کے بھی یہ حدیث خلاف ہے ایک آیت ہے : وَ وَرِثَ سُلِیْمَانُ دَاوٗدَ سلیمان داؤد کے وارث ہوئے۔ دوسری آیت میں حضرت زکریا کا قول نقل کیا : رَبِّ ھَبْ لی مِنْ لَدُنْکَ وَلِیًّا یَرِثُنِیْ وَ یَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَ یہ لوگ عجیب بیوقوف ہیں اتنا نہیں سمجھتے کہ یہ حدیث ہمارے لیے آحاد میں سے ہے لیکن صدیق اکبر نے جب اپنے کانوں سے رسول اللہ کی زبان مبارک سے سن لی تو متواتر سے بھی بڑھ گئی محسوس کا درجہ متواتر سے بڑھ کر ہے۔ پھر یہ کہنا کہ اس حدیث کو صرف حضرت ابوبکر نے روایت کیا بجائے خود غلط ہے اس کی راوی تو صحابہ کی ایک جماعت ہے جن میں سے حضرت حذیفہ بن یمان حضرت ابو درداء اور حضرت عائشہ اور حضرت ابوہریرہ بھی ہیں۔ بخاری نے بیان کیا ہے کہ صحابہ کرام کی ایک جماعت کے سامنے جن میں حضرت علی، حضرت عباس، حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت زبیر بن عوام اور حضرت سعد بن ابی وقاص بھی تھے حضرت عمر نے کہا میں آپ کو اس اللہ کی جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں قسم دیتا ہوں کیا آپ کو علم ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا تھا : لا نورث ما ترکناہ صدقۃ ہم کسی کو اپنا وارث نہیں بناتے جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ خیرات ہے اس سے مراد حضور ﷺ کی اپنی ذات تھی سب صحابہ ؓ نے جواب دیا جی ہاں (ایسا فرمایا تھا) پھر حضرت علی اور حضرت عباس کی طرف حضرت عمر ؓ نے (خصوصی) رخ موڑ کر کہا میں آپ دونوں صاحبوں کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ نے ایسا فرمایا تھا دونوں نے جواب دیا جی ہاں۔ بےشک۔ (الحدیث) ان تمام صحابہ کی روایات حدیث کی کتابوں میں صحت کے ساتھ مذکور ہیں پس یہ حدیث ہمارے لحاظ سے بھی درجہ شہرت تک پہنچ چکی ہے اور امت اسلامیہ نے بھی اس کو (بالاتفاق) قبول کیا ہے اور سب کا اس کی صحت پر اجماع ہوچکا ہے پھر شیعہ کی کتابوں میں بھی ایسی احادیث آئی ہیں جو اس حدیث کی تائید کرتی ہیں محمد بن یعقوب رازی نے بروایت ابو البختری حضرت ابو عبد اللہ جعفر بن محمد صادق کا قول نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : علماء انبیاء کے وارث ہیں اور یہ اس طرح کہ انبیاء نے نہ درہم کا کسی کو وارث کیا نہ دینار کا بلکہ صرف اپنی احادیث کا وارث بنایا ہے جس کو ان احادیث کا کچھ حصہ بھی مل گیا اور اس کو پورا حصہ مل گیا (یعنی پوری میراث مل گئی) اس حدیث میں لفظ صرف حصر کیلئے ہے (مطلب یہ کہ انبیاء کی میراث مال نہیں ہوتا علم کے سوا ان کا کوئی ترکہ بطور میراث تقسیم نہیں کیا جاسکتا) رہی آیت : وَوَرِثَ سُلَیْمَانُ دَاوٗدَ کا جواب تو اس میں علم کی میراث مراد ہے آیت اسی پر دلالت کر رہی ہے کیونکہ حضرت سلیمان نے فرمایا تھا : یٰٓایُّھَا النَّاسُ عَلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ اس آیت میں عُلِّمْنَا سے اسی علمی میراث کو بیان کیا ہے حضرت زکریا کی دعاء میں بھی ایسے لڑکے کے لیے دعا ہے جو علمی میراث کا وارث ہو کیونکہ اس کا تو امکان ہی نہیں ہے کہ حضرت یحییٰ بن زکریا تمام بنی اسرائیل کے مال کے وارث ہوتے ہاں علم کے وارث ہوسکتے تھے ہوئے تھے (اسی علمی میراث کی دعا حضرت زکریا نے کی تھی) ۔ وا اللہ اعلم۔
Top