Tafseer-e-Mazhari - An-Nisaa : 156
وَّ بِكُفْرِهِمْ وَ قَوْلِهِمْ عَلٰى مَرْیَمَ بُهْتَانًا عَظِیْمًاۙ
وَّبِكُفْرِهِمْ : ان کے کفر کے سبب وَقَوْلِهِمْ : اور ان کا کہنا (باندھنا) عَلٰيُ : پر مَرْيَمَ : مریم بُهْتَانًا : بہتان عَظِيْمًا : بڑا
اور ان کے کفر کے سبب اور مریم پر ایک بہتان عظیم باندھنے کے سبب
وبکفرہم اور (عیسیٰ ( علیہ السلام) کا) انکار کرنے کی وجہ سے۔ اس فقرہ کا عطف سابق کفرہم پر ہے سابق کفر عام تھا اور یہ کفر خاص ہے خاص کا عطف عام پر ہوجاتا ہے دونوں کفر متحد نہیں ہیں کہ ایک کا عطف دوسرے پر ناجائز ہو۔ یا یوں کہا جائے کہ وکفرہم پر تنہا بکفرہمکا عطف نہیں ہے بلکہ : بکفرہم وقولہم علی مریم بہتاناً عظیمًا وقولہم انا قتلنا۔۔ کے مجموعہ کا ہے (تو گویا معطوف علیہ معطوف کا جزء ہوگا اور یہ درست ہے جیسے کہتے ہیں امام نے اور سب لوگوں نے یہ بات کہی (امام بھی لوگوں کے لفظ میں داخل ہے وہ بھی ایک آدمی ہے) یا یوں کہا جائے کہ بکفرہمکا عطف فبما نقضہم پر ہے بار بار کفر کے صادر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے کفرہم دوبارہ فرمایا کیونکہ پہلے انہوں نے موسیٰ ( علیہ السلام) کی تکذیب کی پھر عیسیٰ ( علیہ السلام) اور داؤد و سلیمان ( علیہ السلام) کی پھر محمد ﷺ کی۔ یا یہ کہا جائے کہ مجموعۂ کلام کا مجموعۂ کلام سابق پر عطف ہے لہٰذا تکرار موجود ہی نہیں ہے۔ وقولہم علی مریم بہتانا عظیما اور مریم ( علیہ السلام) پر بڑا بہتان باندھنے کی وجہ سے یعنی مریم ( علیہ السلام) کو زانیہ قرار دینے کی وجہ سے۔
Top