Tafseer-e-Mazhari - Az-Zukhruf : 14
وَ اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ
وَاِنَّآ : اور بیشک ہم اِلٰى رَبِّنَا : اپنے رب کی طرف لَمُنْقَلِبُوْنَ : البتہ پلٹنے والے ہیں
اور ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں
وانا الی ربنا لمنقلبون اور بلاشبہ ہم اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ سوار ہونے کا مقصد ہوتا ہے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا اور سب سے بڑا انتقال اور سفر یہ ہے کہ اس دنیا سے اللہ کی طرف جائے ‘ اسلئے نعمت سواری کی ادائیگی شکر کے ساتھ رب کی طرف لوٹ جانے کا ذکر کیا۔ ابو داؤد ‘ ترمذی ‘ نسائی اور بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت علی نے جب اپنا قدم رکاب میں رکھا تو فوراً بسم اللہ کہا ‘ پھر جب ٹھیک ہو کر بیٹھ گئے تو الحمد اللہ کہا ‘ پھر فرمایا : سبحان اللہ الّذی سخّر لنا ھٰذا وما کنّا لہٗ مقرنین وانّا الٰی ربّنا لمنقلبون اسکے بعد تین بار الحمد اللہ اور تین بار اللہ اکبر کہا ‘ پھر کہا : لآ الٰہ الّآ انت ظلمت نفسی فاغفرلی ذنوبی فانّہ لا یغفر الذنوب الّآ انت اسکے بعد مسکرا دئیے۔ عرض کیا گیا : امیر المؤمنین ! آپ کس وجہ سے مسکرائے ؟ فرمایا : میں نے بھی عرض کیا : یا نبی اللہ ﷺ ! حضور کیوں مسکرائے ؟ فرمایا : جب بندہ لآ الٰہ الّآ اللہ ظلمت نفسی فاغفرلی انہ لا یغفر الذنوب الّآ ھو کہتا ہے تو اسکے اس فعل کو پسند کرتا ہے (اوکما قال) اس موقعہ پر حضور ﷺ مسکرائے تھے تو حضرت علی بھی مسکرائے۔
Top