Madarik-ut-Tanzil - Az-Zukhruf : 14
وَ اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ
وَاِنَّآ : اور بیشک ہم اِلٰى رَبِّنَا : اپنے رب کی طرف لَمُنْقَلِبُوْنَ : البتہ پلٹنے والے ہیں
اور ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں
آیت 14: وَاِنَّآ اِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ (اور ہم کو اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے) منقلبون۔ لوٹنے والے ہیں۔ ایک قول : وہ دنیا میں سوار ہوتے وقت اس کو اپنی آخری سواری خیال کرتے ہیں اور وہ آخری سواری جنازہ ہے۔ نبی اکرم ﷺ کے متعلق وارد ہے کہ جب آپ رکاب میں قدم مبارک رکھتے تو بسم اللہ پڑھتے۔ جب سواری پر سیدھے ہو کر بیٹھ جاتے تو الحمد للّٰہ علی کل حال سبحان الذی سخرلنا ہذا وما کنا لہ مقرنین وانا الی ربنا لمنقلبون پڑھتے اور تین مرتبہ اللہ اکبر ٗ اللہ اکبر ٗ اللہ اکبر اور لا الٰہ الا اللہ تین مرتبہ پڑھتے۔ رواہ ابو دائود۔ 2602۔ ] الترمذی 3446[ علماء نے کہا جب کشتی پر سواری کرے تو کہے : بسم اللّٰہ مجریہا و مرسٰہا ان ربی لغفور رحیم۔ ] ہود۔ 41[ ایک واقعہ : کچھ لوگ سفر کے لئے سوار ہوئے اور انہوں نے پڑھا سبحان الذی سخرلنا الایۃ۔ ان میں ایک شخص ایسا تھا جس کی اونٹنی کمزوری کی وجہ سے حرکت نہ کرتی تھی۔ اس کے منہ سے نکلا انی مقرن لہذہ۔ میں تو اس کا مطیع ہوں۔ اونٹنی کود پڑی اور یہ شخص اس سے نیچے جا گرا اور گردن ٹوٹ گئی۔ اس کے استہزاء اور ناشکری کا یہ نتیجہ نکلا۔ مناسب یہ ہے کہ عقل مند تفریح و تلذذ کی بجائے عبرت کی نگاہ رکھتے ہوئے سوار ہو اور یہ غور کرے کہ وہ بہرحال مرنے والا اور اپنے رب کی طرف لوٹنے والا ہے۔ تقدیر سے اس کو مفر نہیں۔
Top