Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 135
اَمْ اَنَا خَیْرٌ مِّنْ هٰذَا الَّذِیْ هُوَ مَهِیْنٌ١ۙ۬ وَّ لَا یَكَادُ یُبِیْنُ
اَمْ : بلکہ اَنَا : میں خَيْرٌ : بہتر ہوں مِّنْ ھٰذَا الَّذِيْ : اس (شخص) سے جو هُوَ مَهِيْنٌ : وہ حقیر ہے وَّلَا : اور نہیں يَكَادُ : قریب کہ وہ يُبِيْنُ : وہ واضح بات کرے
بےشک میں اس شخص سے جو کچھ عزت نہیں رکھتا اور صاف گفتگو بھی نہیں کرسکتا کہیں بہتر ہوں
ام انا خیر من ھذا الذی ھو مھین ولا یکاد یبین بلکہ میں اس شخص سے بہتر ہوں جو حقیر ‘ ذلیل ہے اور (اپنا مدعیٰ ) واضح طور پر بیان بھی نہیں کرسکتا۔ مَھِیْنٌ۔ مہانت سے مشتق ہے ‘ مہانت کا معنی ہے قلت ‘ اس سے مراد ہے حقیر ‘ کمزور ‘ ذلیل ‘ جو سردار ہونے کا اہل نہیں ہے۔ حضرت موسیٰ کی زبان صاف نہیں تھی ‘ توتلے تھے۔ آپ نے دعا کی تھی : اے اللہ ! میری زبان کی گرہ کھول دے کہ لوگ میری بات سمجھیں۔ دعا سے زبان کچھ کھل گئی (اتنی کہ لوگ بات سمجھنے لگے) پھر بھی کچھ بندش رہ گئی ‘ اسی کو فرعون نے نقص اور عیب قرار دیا۔ اَمْ منقطعہ ہے ‘ اس کے اندر ہمزۂ استفہام کا معنی ہے اور استفہام تقریری ہے (یعنی میں بہتر ہوں) ۔ بغوی نے لکھا ہے : اکثر مفسرین کے نزدیک اَمْ بمعنی بَلْ ہے۔ فراء کے نزدیک اَمْ متصلہ ہے اور اس پر وقف ہے اور کلام کا کچھ حصہ پوشیدہ ہے ‘ یعنی کیا تم یہ نہیں دیکھتے یا دیکھتے ہو ‘ اس صورت میں اَمْ کے بعد جدید کلام شروع ہوتا ہے۔ مسبب کو سبب کے قائم مقام ذکر کیا ہے۔ آیت کا معنی اس طرح ہوگا : تم جانتے ہو کہ میں اس سے بہتر ہوں۔ بہتر ہونے کا علم مسبب ہے اور دیکھنا اسکا سبب ہے ‘ گویا یوں فرمایا : کیا تم نہیں دیکھتے ‘ یا دیکھتے ہو اور دیکھنے کے بعد جانتے ہو کہ میں اس سے بہتر ہوں۔
Top