Tafseer-e-Mazhari - Al-Maaida : 8
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰهِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِ١٘ وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤى اَلَّا تَعْدِلُوْا١ؕ اِعْدِلُوْا١۫ هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى١٘ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) كُوْنُوْا : ہوجاؤ قَوّٰمِيْنَ : کھڑے ہونے والے لِلّٰهِ : اللہ کے لیے شُهَدَآءَ : گواہ بِالْقِسْطِ : انصاف کے ساتھ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ : اور تمہیں نہ ابھارے شَنَاٰنُ : دشمنی قَوْمٍ : کسی قوم عَلٰٓي : پر اَلَّا تَعْدِلُوْا : کہ انصاف نہ کرو اِعْدِلُوْا : تم انصاف کرو هُوَ : وہ (یہ) اَقْرَبُ : زیادہ قریب لِلتَّقْوٰى : تقوی کے وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ خَبِيْرٌ : خوب باخبر بِمَا : جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
اے ایمان والوں! خدا کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جایا کرو۔ اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے
یا ایہا الذین امنوا کونوا قوامین للّٰہ شہدآء بالقسط (اے ایمانووالو ! اللہ تعالیٰ کے لئے پوری پابندی کرنے والے ‘ انصاف کے ساتھ شہادت ادا کرنے والے رہو ‘ یعنی خود اپنی ذات اور دوستوں کے خلاف بھی عدل اور سچائی کی شہادت دینے کے لئے کھڑے ہوجاؤ۔ ولا یجرمنکم شنان قوم علی الا تعدلوا اور کسی خاص لوگوں کی عداوت تم کو اس پر باعث نہ ہوجائے کہ تم عدل نہ کرو۔ جَرْمٌاور اجترامٌکمانا جَرَمَ لِاَہْلِہٖاپنے گھر والوں کے لئے کمایا۔ (قاموس) اس جگہ لاَیَجْرمَنَّاپنے اندر ابھارنے آمادہ اور برانگیختہ کرنے کا مفہوم رکھتا ہے اس لئے لفظ حَمَلَکے بعد جو حرف جار (علی) آتا ہے اس کا استعمال یجرمن کے بعد کیا گیا گویا یہ مطلب ہوا کہ مشرکوں سے تمہاری سخت عداوت تم کو اس امر پر آمادہ نہ کر دے کہ ان کے سلسلہ میں تم عدل کو چھوڑ بیٹھو اور حد جواز سے آگے بڑھ کر مشرکوں کے ساتھ ایسی حرکتیں کرنے لگو جو تمہارے لئے ناجائز ہیں مثلاً مقتول مشرک کے ناک کان کاٹنا مشرکوں کی عورت کو قتل کرنا (بلا ثبوت) زنا کی تہمت لگانا ‘ کئے ہوئے معاہدہ کو توڑنا وغیرہ۔ اعدلوا انصاف کرو۔ یعنی کج راہی نہ اختیار کرو۔ جور کی ممانعت مذکورۂ بالا آیت میں کردی گئی تھی ‘ لفظ اعدلوا سے اس کی مزید تاکید کردی۔ ہو اقرب للتقوی یعنی عدل ‘ ہر چیز سے زیادہ تقویٰ کے قریب ہے۔ للتقوی میں لام بمعنی الی ہے۔ تقویٰ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے ناپسندیدہ امور سے اپنے نفس اور ظاہری باطنی قوتوں کو بچایا جائے تاکہ آخرت میں اللہ کی ناراضگی اور عذاب سے حفاظت ہوجائے اور عدل و جور کا تعلق انسانی حقوق سے ہے اور انسانی حقوق کی نگہداشت کو تقویٰ میں سب سے بڑا دخل ہے اسی لئے عدل کو اقرب للتقوی فرمایا۔ واتقوا اللہ اور اللہ سے ڈرو یعنی مامورات و منہیات کے عمل و ترک میں اللہ سے ڈرتے رہو۔ ان اللہ خبیر بما تعملون یقیناً اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔ یعنی اعمال کی جزا سزا دے گا۔ اس جملہ میں (نیکوں کے لئے) وعدۂ ثواب اور (بدوں کے لئے) وعید عذاب ہے۔ اس حکم کی تکراریا تو اس وجہ سے ہے کہ پہلی آیت کے مخاطب مشرک ہیں اور اس آیت کے مخاطب یہودی یا صرف عدل پر زور دینے اور آتش انتقام کو بجھانے کے لئے حکم کی تکرار کردی گئی۔
Top