Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 8
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰهِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِ١٘ وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤى اَلَّا تَعْدِلُوْا١ؕ اِعْدِلُوْا١۫ هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى١٘ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) كُوْنُوْا : ہوجاؤ قَوّٰمِيْنَ : کھڑے ہونے والے لِلّٰهِ : اللہ کے لیے شُهَدَآءَ : گواہ بِالْقِسْطِ : انصاف کے ساتھ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ : اور تمہیں نہ ابھارے شَنَاٰنُ : دشمنی قَوْمٍ : کسی قوم عَلٰٓي : پر اَلَّا تَعْدِلُوْا : کہ انصاف نہ کرو اِعْدِلُوْا : تم انصاف کرو هُوَ : وہ (یہ) اَقْرَبُ : زیادہ قریب لِلتَّقْوٰى : تقوی کے وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ خَبِيْرٌ : خوب باخبر بِمَا : جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
اے ایمان والو، اللہ کے لیے پوری پابندی کرنے والے (اور) عدل کے ساتھ شہادت دینے والے رہو،47 ۔ اور کسی جماعت کی دشمنی تمہیں اس پر نہ آمادہ کردے کہ تم (اس کے ساتھ) انصاف ہی نہ کرو، انصاف کرتے رہو (کہ) وہ تقوی سے بہت قریب ہے،48 ۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ کو اس کی (پوری) خبر ہے کہ تم کیا کرتے رہتے ہو،49 ۔
47 ۔ (آیت) ” قومین للہ “۔ یعنی اللہ کے احکام کی پوری پابندی کرتے رہو “۔ معناہ کونوا قوامین للہ بالحق فی کل ما یلزمکم القیام بہ من الامر بالمعروف والعمل بہ والنھی عن المنکر واجتنابہ (جصاص) والمراد حثھم علی الانقیاد لتکالیف اللہ تعالیٰ (کبیر) (آیت) ” للہ “۔ یعنی کی رضاجوئی کے لیے لاجل ثواب اللہ (قرطبی) مطلب یہ ہوا کہ حقوق اللہ کی ادائی میں ہمہ وقت مستعد رہو۔ اشارۃ الی التعظیم لا مرا للہ (کبیر) (آیت) ” شہدآء بالقسط “۔ یعنی ہر معاملہ میں مرتبہ انصاف کا لحاظ رکھو، یہ تاکید ہوئی حقوق العباد کی ادائی ہوئی۔ اشارۃ الی الشفقۃ علی خلق اللہ (کبیر) 48 ۔ گویا ادائے حقوق ہی کا دوسرا نام تقوی ہے (آیت) ” الاتعدلوا اعدلوا “۔ یہ بالکل حکیمانہ ترتیب کے مطابق پہلے ممانعت ناانصافی اور زیادتی سے ہوئی۔ پھر اس سلب کے بعد ایجابی حکم عدل کا ملا۔ (آیت) ” شنان قوم “۔ جس قوم یا جماعت سے مسلمانوں کو بہ حیثیت مسلمان کے دشمنی ہوگی ظاہر ہے کہ وہ دشمن اسلام کافروں ہی کی ہوگی، تو گویا تاکید اس کی ہوئی کہ دشمنوں تک کے ادائے حقوق میں کمی نہ کرو، اللہ اللہ ! دنیا کا کون قانون ایسا ملے گا، جس نے اپنے باغیوں اور معاندوں تک کے حقوق کی یہ رعایت رکھی ہو ! فقہا نے آیت سے یہ حکم نکالا ہے کہ کافر کا کفر اسے اس سے محروم نہیں کردیتا کہ اس کے حق میں عدل کیا جائے، یا اس کے حقوق ادا کیے جائیں۔ دلت الایۃ علی ان کفر الکافر لا یمنع من العدل علیہ (قرطبی) اور عدل کا وجوب جب کفر کے ساتھ جمع ہوسکتا ہے، تو کفر سے کمتر درجہ کی چیزوں، فسق، بدعت وغیرہ کے ساتھ اس کا وجوب کیونکر نہ جمع ہوگا۔ جب منکروں، باغیوں، سرکشوں کے ساتھ عدل واجب ہے تو توحید و رسالت کے قائلوں کے ساتھ یہ وجوب کتنا اور مؤکد ہوگا ! اکابر شارحین نے اس طرف بار بار توجہ دلائی ہے۔ فیہ تنبیہ عظیم علی ان وجوب العدل مع الکفار الذین ھم اعداء اللہ اذا کان بھذہ الصفۃ من القوۃ فما الظن بوجوبہ مع ال مومنین (کشاف، کبیر۔ مدارک) وفی الایۃ تنبیۃ علی مراعاۃ حق ال مومنین بالعدل اذا کان تعالیٰ قد امر اللہ بالعدل مع الکافرین (بحر) شدت غضب میں کون اپنے آپ پر قابو رکھ سکا ہے۔ یہاں تاکید اسی کی ہورہی ہے کہ جو غصہ تمہارے دلوں میں کافروں کے خلاف ہے وہ کہیں تمہیں ان کے مقابلہ میں زیادتی پر نہ آمادہ کردے۔ تو زیادتی نہ ہونے پائے۔ عدل و اعتدال کا لحاظ ہر معاملہ میں رہے۔ عداہ بعلی لتضمنہ معنی الحمل والمعنی لا یحملنکم شدۃ بغضم للمشرکین علی ترک العدل فیھم فتعتدوا بارتکاب مالا یحل (بیضاوی) نھاھم اولا عن ان یحملھم البغضاء علی ترک العدل ثم استانف فصرح لھم بالامر بالعدل تاکیدا وتشدیدا (کبیر) مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ معاملات میں طبیعیات پر عمل نہ کرنا ایک مجاہدہ ہے، اور یہاں اسی کی تعلیم ہے۔ 49 ۔ اللہ کی اس ہمی بینی وہمی دانی کا استحضار ہی تقوی کی ہر منزل اور ہر مرحلہ کو آسان بنا سکتا ہے۔ اسی لیے یہ ہے کہ قرآن مجید میں جہاں جہاں تقوی کا حکم ہے، اکثر اسی کے متصل ہی اس مضمون کا بھی بیان ملتا ہے۔ اسی سے ملتی جلتی ایک آیت پارۂ پنجم، سورة النساء میں بھی آئی ہے۔ (آیت) ” یایھا الذین امنوا کونوا قومین بالقسط شھدآء للہ “۔ الخ۔ مفسرتھانوی (رح) نے خوب فرمایا کہ معاملات میں بےانصافی کے سبب عموما دو ہی ہوتے ہیں۔ یا تو کسی فریق کی رعایت ومروت اور یا کسی فریق کی عداوت ومخالفت سورة النساء میں اقامت عدل کا حکم اول کی مناسبت ہے، اور یہاں سبب دوم کی مناسبت ہے۔
Top