Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ahkam-ul-Quran - Al-Maaida : 8
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰهِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِ١٘ وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤى اَلَّا تَعْدِلُوْا١ؕ اِعْدِلُوْا١۫ هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى١٘ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے)
كُوْنُوْا
: ہوجاؤ
قَوّٰمِيْنَ
: کھڑے ہونے والے
لِلّٰهِ
: اللہ کے لیے
شُهَدَآءَ
: گواہ
بِالْقِسْطِ
: انصاف کے ساتھ
وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ
: اور تمہیں نہ ابھارے
شَنَاٰنُ
: دشمنی
قَوْمٍ
: کسی قوم
عَلٰٓي
: پر
اَلَّا تَعْدِلُوْا
: کہ انصاف نہ کرو
اِعْدِلُوْا
: تم انصاف کرو
هُوَ
: وہ (یہ)
اَقْرَبُ
: زیادہ قریب
لِلتَّقْوٰى
: تقوی کے
وَاتَّقُوا
: اور ڈرو
اللّٰهَ
: اللہ
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
خَبِيْرٌ
: خوب باخبر
بِمَا
: جو
تَعْمَلُوْنَ
: تم کرتے ہو
اے ایمان والو ! خدا کے لئے انصاف کی گواہی دینے کے لئے کھڑے ہوجایا کرو اور لوگوں کی دشمنی تمکو اس بات ہر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو ۔ انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے۔ اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے۔
(آیت نمبر 6 کی بقیہ تفسیر) اس پر یہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے (وانزلنا من السماء مآء طھوراً (a) اور ہم نے آسمان سے طہورپانی اتارا) طہور کے معنی مطہر یعنی پاک کرن والا کے ہیں اس لئے جس طرح بھی وہ ملے اس کے لئے اس حکم کا ہونا واجب ہوگا۔ اگر ہم تفریق کی وجہ سے اعضائے وضو دولینے کے باوجود حصول طہارت کی ممانعت کردیں تو اس کی بنا پر ہم پانی سے مطہر ہونے کی وہ صفت سلب کرلیں گے جس کے ساتھ اللہ نے اسے موصوف کیا ہے۔ اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جو ہمیں عبدالباقی بن قانع نے بیان کی، انہیں علی بن محمد بن ابی الشوارب نے، انہیں مسدد نے، انہیں ابو الاحوص نے ، انہیں محمد بن عبید اللہ نے حسین بن سعد سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت علی ؓ سے کہ ایک شخص حضور ﷺ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ میں نے غسل جنابت کرنے کے بعد فجر کی نماز پڑھی ہے۔ جب سورج کی روشنی پھیل گئی تو میں نے اپنے بازو کو دیکھا کہ ناخن کے برابر اس کا ایک حصہ خشک رہ گیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” اگر تم اس جگہ پر ہاتھ پھیر لیتے اور اس کا مسح کرلیتے تو تمہارے لئے کافی ہوجاتا۔ “ اس روایت کی رو سے آپ نے اس شخص کو کافی وقت گزرجانے کے باوجود اس خشک جگہ پر ہاتھ پھیر لینے کی اجازت دے دی تھی اور اسے نئے سرے سے نہانے کا حکم نہیں دیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اور دوسرے حضرات نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ ﷺ نے کچھ لوگوں کی ایڑیاں چمکتی ہوئی دیکھیں یعنی وضو کے دوران وہ خشک رہ گئی تھیں۔ آپ ﷺ نے یہ دیکھ کر فرمایا (ویل للاعقاب من النار، اسبغوا الوضو (a) خشک رہ جانے والی ایڑیوں کے لئے جہنم کی آگ کی وجہ سے بربادی ہے۔ وضو پوری طرح کرو) اس پر حضرت رفاعہ بن رافع ؓ کی روایت بھی دلالت کرتی ہے جس میں حضور ﷺ نے یہ فرمایا (لاتتم صلوۃ احدکم حتی یضع الوضوء مواضعہ (a) تم میں سے کسی شخص کی نماز اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک وہ وضو کو وضو کے مقامات پر نہ رکھ دے) یعنی جب تک پوری طرح وضو نہ کرلے۔ اگر کوئی شخص وضو کے افعال میں تفریق کرتا اور وقفہ ڈال کر انہیں پورا کرتا ہے تو وہ درج بالا حدیث کے حکم سے خارج نہیں ہوتا اس لئے کہ اس نے وضو کو وضو کے مقامات پر رکھ دیا ہے یعنی وضو کی تکمیل کرلی ہے۔ آخر وضو کے مقامات تو اس کے وہی اعضاء ہی ہیں جن کا قرآن میں ذکر آیا ہے۔ لیکن اس میں موالات اور ترک تفریق کی شرط عائد نہیں کی گئی ہے۔ اس پر حضور ﷺ کے وہ الفاظ دلالت کرتے ہیں جو ایک اور طریق سے مروی ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا (حتی یسبغ الوضوء فضل وجھہ دیدیہ ویمسح براسہ ویغسل رجلیہ (a) یہاں تک کہ وہ پوری طرح وضو کرے، اپنا چہرہ اور دونوں ہاتھ دھوئے۔ سر کا مسح کرے اور اپنے دونوں پائوں دھوئے) ۔ اس روایت میں پے درپے افعال وضو سرانجام دینے کا ذکر نہیں ہے اس لئے وضو کرنا دونوں صورتوں میں درست ہوگا خواہ وضو کے افعال کے درمیان وقفہ ڈال دے یا خواہ مسلسل اور پے در پے کر گزرے۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب قول باری (فغسلوا وجوھکم وایدیکم (a) امر کی صورت میں جو فوری طور پر عمل درآمد کا مقتضی ہے اس لئے فی الفور اس کی ادائیگی ضروری ہے۔ جب وہ اس طرح اس کی ادائیگی نہیں کرے گا تو یہ سمجھا جائے گا کہ اس نے گویا اس امر پر عمل ہی نہیں کیا۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ امر کا علی الفور ہونا اسے ٹھہر کر بروئے کار لانے کی صحت میں مانع نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جو شخص سرے سے ہی وضو کا تارک ہوتا ہے اگر ایک مدت گزار کر وہ وضو کرلیتا ہے تو اس کا وضو درست ہوتا اور فاسد نہیں ہوتا ہے۔ یہی صورت حال ان تمام اوامر کی ہے جو جسی وقت کے ساتھ مقید نہیں ہوتے۔ اگر ایک شخص ایسے اوامر پر اس وقت عمل نہیں کرتا جب ان کا ورود ہوتا ہے تو ٹھہر کر ان پر عمل کرنے کی صورت میں اس کا عمل فاسد نہیں ہوتا اور نہ ہی درمیان میں وقفے کا آجانا اس عمل کی صحت کے لئے مانع ہوتا ہے۔ اس مفہوم کی بنیاد پر مذکورہ بالا قول باری کا ہمارے قول کی صحت کی دلیل بننا اولیٰ ہے۔ وہ اس طرح کہ اس عضو کا دھولینا جسے فوری طور پر دھولیا گیا ہے ہم اور ہمارے مخالفین سب کے نزدیک درست ہے۔ اب باقی اعضاء کے نہ دھونے سے دھوئے ہوئے عضو کے حکم میں کوئی تبدیلی آنی نہیں چاہیے اور نہ ہی اس کا اعادہ ہونا چاہیے اس لئے کہ اسے اعادے کا حکم دے کر علی الفور کے مفہوم کو باطل کردینا لام آتا ہے۔ اور ساتھ ہی اس پر وقفہ کے ساتھ فعل سرانجام دینے کا ایجاب بھی لازم آتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ اسے اس حکم پر براقر رکھا جائے کہ اس نے ابتدا ہی میں علی الفور ایک عضو کو دھولینے کا جو کام سرانجام دیا تھا وہ درست تھا۔ جو لوگ وضو میں موالات کے قائل ہیں وہ حضرت ابن عمر ؓ کی اس روایت سے بھی استدلال کرتے ہیں جس میں ذکر ہے کہ حضور ﷺ نے اعضائے وضو ایک ایک مرتبہ دھوکر فرمایا (ھذا وضوء من لایقبل اللہ لہ صلوٰۃ الابہ) ۔ (a) ان حضرات کا کہنا ہے کہ حدیث کے بیان کی روشنی میں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپ ﷺ نے وضو کا یہ عمل پے درپے کیا تھا۔ اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ یہ صرف ایک دعویٰ ہے لیکن یہ کہاں سے پتہ چلا کہ آپ نے یہ وضو موالات اور متابعت کے طور پر کیا تھا۔ اس میں یہ گنجائش ہے کہ آپ نے اپنا چہرہ دھولیا ہو اور کچھ ساعتوں کے بعد اپنے باوز دھوئے ہوں اور اسی طرح باقی اعضاء بھی ٹھہر ٹھہر کر دھوئے ہوں تاکہ دیکھنے والوں کو یہ بتایا جاسکے کہ وضو کے افعال کو ٹھہر ٹھہر کر اور متفرق طور پر کرنا جائز ہے۔ علاوہ ازیں اگر حضور ﷺ نے یہ وضو پے در پے کیا تھا تو بھی آپ کا مذکورہ بالا قول تتابع کے وجوب پر دلالت نہیں کرتا اس لئے کہ آپ کے ارشادکا یہ لفظ (ھذا وضوء) دھونے کے علم کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ دھونے کے عمل کے زمانے اور مدت کی طرف اشارہ نہیں کرتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب وضو کے بعض کے ساتھ معلق ہوگئے۔ حتیٰ کہ مجموعے کے بغیر بعض کے لئے کوئی حکم درست نہیں ہوتا تو وضو نماز کے لئے مشابہ ہوگیا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ اصول حج کی صورت میں ٹوٹ جاتا ہے اس لئے کہ حج کے بعض افعال بھی بعض کے ساتھ معلق ہوتے ہیں۔ مثلاً آپ نہیں دیکھتے کہ اگر ایک شخص وقوف عرفہ نہیں کرتا تو اس کا احرام اور پہلے سے کیا ہوا طواف دونوں باطل ہوجاتے ہیں۔ اس طرح حج کے بعض افعال بعض کے ساتھ معلق ہوتے ہیں لیکن اس صورت حال کی وجہ سے اس شخص پر حج کے افعال پے درپے کرنا واجب نہیں ہوتا۔ نیز وضو میں بعض اعضاء کو دھونے کے سلسلے میں ایک حکم ثابت ہوتا ہے لیکن وہ حکم دوسرے اعضاء کے لئے ثابت نہیں ہوتا مثلاً آپ نہیں دیکھتے کہ اگر وضو کرنے والے کے بازو کو کوئی عذر لاحق ہوجاتا ہے تو اس سے طہارت یعنی دھونے کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے۔ نماز کے اندر یہ بات نہیں ہوتی۔ اس لئے کہ اس ک تمام افعال ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح معلق ہوتے ہیں کہ جس حالت میں ان افعال کی ادائیگی ممکن ہوتی ہے اس میں یا تو سارے افعال ساقط ہوجاتے ہیں یا سارے ثابت رہتے ہیں۔ اس لئے معترض نے جس زاویے سے نماز کے ساتھ وضو کی مشابہت کا ذکر کیا ہے وہ غلط ثابت ہوگیا۔ ہاں البتہ اس حیثیت سے کہ بعض اعضاء طہارت کا سقوط جائز ہوگیا اور بعض باقی رہ گئے۔ وضو کی نماز، زکوٰۃ اور دوسری عبادات کے ساتھ مشابہت ہوگئی جب ان سب کا وجوب کسی پر یکجا ہوجائے پھر اس کے لئے ان کی تفریق جائز ہوتی ہے۔ ایک اور جہت سے دیکھا جائے تو معترض کا اٹھایا ہوا نکتہ غلط ثابت ہوگا۔ وہ یہ کہ نماز میں کسی فصل کے بغیر افعال کو پے در پے ادا کرنا اس لئے لازم ہوتا ہے کہ نمازی تحریمہ کے ذریعے نماز میں داخل ہوتا ہے اور نماز کے افعال کی بنا پر اس تحریمہ کے بغیر درست نہیں ہوتی جس کے ساتھ وہ نماز میں داخل ہوا ہے۔ اس لئے جس وقت نمازی گفتگو کے ذریعے یا کسی اور فعل کی وجہ سے تحریمہ کو باطل کردے گا تو اس کے لئے تحریمہ کے بغیر نماز کے باقی ماندہ افعال کو جاری رکھنا درست نہیں ہوگا۔ اس کے برعکس طہارت یعنی وضو میں کسی تحریمہ کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وضو کے دوران ایک شخص کے لئے گفتگو کرنا، نیز دوسرے تمام افعال درست ہوتے ہیں اور ان سے اس کا وضو باطل نہیں ہوتا۔ جن لوگوں نے وضو کے بارے میں درج بالا بات کہی ہے انہوں نے وضو کے اتمام سے پہلے صرف عضو کے خشک نہ ہونے کی شرط لگائی ہے، ہم کہتے ہیں کہ رفع کے حکم میں عضو کے خشک ہوجانے کا کوئی اثر اور دخل نہیں ہوتا۔ یعنی اگر ایک عضو خشک بھی ہوجائے تب بھی وضو کا عمل مکمل ہوجاتا ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ وضو کرنے کے بعد اگر سارے اعضاء خشک ہوجائیں تو اس سے طہارت یعنی وضو ختم نہیں ہوتا بلکہ باقی رہتا ہے۔ اسی طرح اگر بعض اجزاء خشک ہوجائیں تو اس سے وضو میں کوئی نقص پیدا نہیں ہوتا۔ ایک اور پہلو سے بھی معترض کی بات غلط ثابت ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ اگر نماز کے ساتھ وضو کی مشابہت درست بھی ہوجاتی اور نماز پر وضو کو قیاس کرنا درست بھی ہوجاتا تو بھی اس مسئلے میں یہ طریق کار درست نہ ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قیاس کے ذریعہ نص میں اضافہ کرنا درست نہیں ہوتا ہے۔ اس لئے اس مسئلے میں قیاس کو کوئی دخل نہیں ہے۔ اس پر ایک اور پہلو سے غور کیجئے۔ اگر ایک شخص دھوپ میں بیٹھ کر وضو کررہا ہو اور اعضائے وضو پے درپے دھورہا ہو لیکن گرمی کی وجہ سے دوسرا عضو دھونے سے پہلے اگر پہلا عضو خشک ہوجائے تو یہ صورت حال اس کے وضو کے بطلان کی موجب نہیں بنتی۔ یہی حکم اس صورت کا بھی ہے جب درمیان میں وضو کا عمل چھوڑے رکھنے کی وجہ سے دوسرے عضو کو دھونے تک پہلا عضو خشک ہوچکا ہو۔ فصل وضو سے پہلے بسم اللہ فرض ہے یا نہیں قول باری (اذا قمتم الی الصلوٰۃ فاغسلوا وجوھکم) (a) تا آخر آیت اس پر دلالت کرتا ہے کہ وضو کے لئے بسم اللہ پڑھنا فرض نہیں ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اعضا، وضو کو دھونے کے ساتھ نماز کی اباحت کردی اور تسمیہ کی کوئی شرط نہیں لگائی۔ ہمارے اصحاب اور تمام فقہاء امصار کا یہی قول ہے۔ بعض اصحاب الحدیث سے یہ منقول ہے کہ ان کے نزدیک وضو میں بسم اللہ پڑھنا فرض ہے اگر جان بوجھ کر کوئی شخص تسمیہ ترک کردے گا تو اس کا وضو نہیں ہوگا۔ اگر بھول کر چھوڑ دے گا تو وضو ہوجائے گا۔ ترک تسمیہ کے جواز پر قول باری (وانزلنا من السمآء ماء طھوراً ۔ (a) اور ہم نے آسمان سے پاک کرنے والا پانی اتارا) دلالت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے طہارت کی صحت کو وضو کے فعل کے ساتھ معلق کردیا اور اس کے لئے تسمیہ کو شرط کے طور پر ذکر نہیں کیا۔ اب جو شخص تسمیہ کی شرط عائد کرے گا وہ ان آیات کے حکم میں ایسی چیز کا اضافہ کردے گا جو ان آیات میں موجود نہیں ہے اور اعضا نے وضو دھو لینے کی بنا پر نماز کے جواز اور اس کی اباحت کی نفی کردے گا۔ سنت کی جہلت سے حضرت ابن عمر ؓ کی وہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے جو آپ نے حضور ﷺ سے نقل کی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے وضو فرمایا اور اعضا نے وضو ایک ایک مرتبہ دھونے کے بعد یہ کہا (ھذا وضوء من لایقبل اللہ لہ صلاۃ الابہ (a) آپ نے اس میں تسمیہ کا ذکر نہیں کیا۔ حضرت رفاعہ بن رافع ؓ کی روایت کے مطابق آپ نے ایک بدو کو نماز کے لئے وضو کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا (لاتتم صلوۃ احدکم حتی یسیغ الوضوء فیغسل وجھہ ویدیہ) (a) تاآخر حدیث۔ اس میں آپ نے تسمیہ کا ذکر نہیں کیا۔ حضرت علی ؓ ، حضرت عثمان ؓ ، حضرت عبداللہ بن زید ؓ وغیرہم نے حضور ﷺ کے وضو کی کیفیت بیان کی ہے لیکن ان میں سے کسی نے تسمیہ کی فرضیت کا ذکر نہیں کیا۔ سب نے کہا ہے کہ حضور ﷺ نے اسی طرح وضو کیا تھا۔ اگر وضو میں تسمیہ فرض ہوتا تو یہ حضرات اس کا ضرور ذکر کرتے اور اس بارے میں تواتر کے ساتھ اسی پیمانے پر روایات منقول ہوتیں جس پیمانے پر دوسرے اعضاء وضو کی طہارت کی فرضیت کے سلسلے میں روایات منقول ہیں کیونکہ لوگوں کو عمومی طور پر اس کی ضرورت پیش آتی تھی۔ اگر حضرت ابوہریرہ ؓ کی اس روایت سے استدلال کیا جائے جس میں انہوں نے حضور ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے (لاوضوء لمن یم یذکراسم اللہ علیہ (a) جو شخص وضو میں اللہ کے نام کا ذکر نہیں کرتا اس کا وضو نہیں ہوتا) تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ نص قرآن میں اضافہ جائز نہیں ہوتا۔ اس میں اضافہ صرف ایسے نص کے ذریعے ہوسکتا ہے جس کی وجہ سے اس نص کا منسوخ ہوجانا جائز ہوتا ہو۔ اس لئے معترض کا یہ سوال دو وجوہ سے ساقط ہے۔ پہلی وجہ تو وہ ہے جس کا ہم نے ابھی ذکر کیا دوسری وجہ یہ ہے کہ ان مسائل میں اخبار آحاد قابل قبول نہیں ہیں جن میں عموم بلوی ہو یعنی لوگوں کو روزانہ ان سے سابقہ پڑتا ہو۔ اگر اس روایت کو درست بھی تسلیم کرلیا جائے تو اس میں یہ احتمال موجود رہے گا کہ آپ نے اس سے نفی کمال مراد لی ہے۔ نفی اصل مراد نہیں لی ہے جس طرح آپ کا یہ ارشاد ہے (لاصلوۃ لجاء المسجد الافی المسجد ومن سمع النداء فلم یجب فلاصلوٰۃ لہ، (a) مسجد کے پڑوسی کی نماز صرف مسجد میں جاکر ہوتی ہے اور جو شخص اذان کی آواز سن کر نماز کے لئے مسجد میں نہیں جاتا اس کی نماز نہیں ہوتی) اور اسی طرح کی دوسری روایات۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب وضو حدث کی وجہ سے باطل ہوجاتا ہے تو اس کی ابتداء میں بسم اللہ پڑھنے کی ضرورت کے لحاظ سے یہ نماز کی طرح ہوگیا تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ معترض کا یہ کہنا غلط ہے کہ حدث نماز کو باطل کردیتا ہے۔ ہمارے نزدیک ایسا نہیں ہوتا اس لئے کہ حدث لاحق ہونے کے باوجود نمازکا باقی رہنا جائز ہے۔ ایسا شخص وضو کرے گا اور اس کے بعد نماز وہیں سے شروع کردے گا جہاں حدث لاحق ہونے کی وجہ سے نماز چھوڑ کر وضو کرنے کے لئے چلا گیا تھا۔ نیز نماز کی ابتدا میں اللہ کے ذکر کی حاجت کی یہ علت نہیں ہے کہ حدث نماز کو باطل کردیتا ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز میں قرأت فرض ہوتی ہے اور قرأت کے لئے بسم اللہ پڑھی جاتی ہے۔ نیز ہم وضو کو نجاست کے دھونے پر اس لحاظ سے قیاس کرتے ہیں کہ یہ بھی طہارت ہے۔ اس لئے نجاست دھونے کے لئے جس طرح بسم اللہ پڑھنا ضروری نہیں اسی طرح وضو کے لئے بھی بسم اللہ پڑھنا ضروری نہیں۔ نیز ہمارے مخالفین اس نکتے پر ہم سے متفق ہیں کہ بھول کر بسم اللہ چھوڑ دینا طہارت یعنی وضو کی صحت کے لئے مانع نہیں ہوتا۔ اس موافقت کی بنا پر ہمارے مخالفین کا قول دو وجوہ سے باطل ہوگیا۔ ایک وجہ یہ ہے کہ تحریمہ کے ذکر کا جان بوجھ کر یا بھول کر چھوڑ دینا نماز کے بطلان میں یکساں حکم رکھتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر تسمیہ فرض ہوتا تو نسیان کی بنا پر ساقط نہ ہوتا۔ اس لئے کہ طہارت کی صحت کے لئے تسمیہ شرط ہوتا جس طرح طہارت کی دوسری تمام شرائط کا حکم ہے۔ فصل آیا ترک استنجا سے نماز جائز ہے ؟ قول باری (اذا قمتم الی الصلوۃ فاغسلوا وجوھکم) (a) تاآخر آیت۔ اس پر دلالت کرتا ہے کہ استنجا فرض نہیں ہے اور ترک استنجاء کے باوجود نماز جائز ہے بشرطیکہ نجاست اپنی جگہ سے آگے نہ پھیل گئی ہو۔ قضائے حاجت کے بعد مٹی کا ڈھیلا یا پانی استعمال کرنا استنجا کہلاتا ہے۔ استنجا کے مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف رئے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے استنجا کے بغیر نماز جائزہوجائے گی اگرچہ ترک استنجا بری بات ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اگر کسی نے سرے سے استنجانہ کیا تو اس کی نماز جائز نہیں ہوگی۔ ظاہر آیت پہلے قول کی صحت پر دلالت کررہی ہے۔ اس کی تفسیر میں یہ مروی ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے ” جب تم نماز کے لئے اٹھو اور تم حدث کی حالت میں ہو۔ “ سلسلہ آیت میں یہ فرمایا (اوجآء احدکم من الغائط اولمستم النسآء فلم تجدوا مآء فتیمتوا (a) ، یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے فارغ ہوکر آئے یا تم نے عورتوں کو لمس کیا ہو۔ پھر تمہیں پانی نہ ملے تو تیمم کرو) یہ آیت ہمارے قول پر دو وجوہ سے دلالت کرتی ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ حدث والے شخص پر اعتضائے وضو کا دھونا واجب کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ نماز کی اباحت کردی گئی ہے۔ استنجاء کو فرض قرار دینے کی صورت میں آیت سے اباحت کا جو پہلو نکلتا ہے وہ ختم ہوجاتا ہے۔ یہ چیز نسخ کو واجب کردیتی ہے۔ کسی آیت کو منسوخ کرنا صرف اس نقل متواتر کے ذریعے جائز ہوتا ہے جو علم کی موجب بنتی ہو۔ استنجا کے ایجاب میں یہ چیز نامعلوم اور غیر موجود ہے۔ اس کے باوجود سب کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ آیت غیر منسوخ ہے اور اس کا حکم ثابت اور قائم ہے۔ اس پر سب کا اتفاق استنجا کی فرضیت کے قائلین کے قول کو باطل کردیتا ہے۔ دوسری وجہ اس قول باری کی دلالت ہے (اوجآء احدکم من الغائط) (a) تاآخر آیت۔ اللہ تعالیٰ نے رفع حاجت سے آنے والے شخص پر تیمم واجب کردیا۔ آیت کے الفاظ رفع حاجت سے کنایہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے استنجا کے بغیر صرف تیمم کی بنیاد پر ایسے شخص کے لئے نماز کی اباحت کردی۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ استنجا فرض نہیں ہے۔ سنت کی جہت سے اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جس کے راوی علی بن یحییٰ بن خلاد ہیں، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے چچا حضرت رفاعہ بن رافع ؓ سے اور انہوں نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (لاتتم صلوٰۃ احدکم حتیٰ یغسل وجھہ ویدیہ ویمسح برأسہ ویغسل رجلیہ) (a) آپ نے ترک استنجا کے باوجود ان اعضاء کے دھو لینے پر نماز کی اباحت کردی۔ اس پر الحصین الحرانی کی روایت بھی دلالت کرتی ہے جسے انہوں نے ابو سعید سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے نقل کیا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (من استجمر فلیوتر من فعل فقد احسن ومن لافلاحرج ومن اکتحل فلیوتر من فعل فقد احسن ومن لافلاحرج، (a) جو شخص ڈھیلے استعمال کرے اسے چاہیے کہ ان کی تعداد طاق رکھے جو شخص ایسا کرے گا وہ بہت اچھا کرے گا اور جو شخص ایسا نہیں کرے گا تو اس میں کوئی گناہ نہیں جو شخص سرمہ لگائے اسے چاہیے کہ طلاق مرتبہ سلائی پھیرے، جو شخص ایسا کرے گا وہ بہت اچھا کرے گا اور جو شخص ایسا نہیں کرے گا تو اس میں کوئی گناہ نہیں) آپ نے گناہ کی نفی کردی اس لئے یہ حدیث ڈھیلے استعمال کرنے کی عدم فرضیت پر دلالت کرتی ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ حرج یا گناہ کی نفی اس شخص کے لئے کی گئی ہے جو ڈھیلوں کی بجائے پانی استعمال کرتا ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات دو وجوہ سے غلط ہے ایک تو یہ کہ آپ نے استجمار یعنی ڈھیلے استعمال نہ کرنے کی اجازت دے دی تھی اور پانی کے استعمال کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔ اس لئے اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اسی سے ڈھیلے چھوڑ کر پانی سے استنجا کرنا مراد ہے تو وہ کسی دلالت کے بغیر حدیث کی تخصیص کرتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر معترض کی بات قبول کرلی جائے تو اس سے حضور ﷺ کے ارشاد کا فائدہ ساقط ہوجائے گا اس لئے کہ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ ڈھیلے استعمال کرنے کی بہ نسبت پانی سے استنجا کرنا افضل ہے۔ اس لئے افضل طریقے کو اختیار کرنے والے سے گناہ کی نفی کردینے کی بات کم از کم حضور ﷺ کی ذات سے تو ناممکن بلکہ محال ہے اس لئے کہ یہ کلام کو بےموقع استعمال کرنے ایک ایک بہت ہی بھونڈی شکل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت سلمان ؓ کی روایت میں ہے کہ حضور ﷺ نے ہمیں تین سے کم پتھر یعنی ڈھیلے استعمال کرنے سے منع فرمادیا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا (فلیستنج بثلاثۃ احجار (a) تین پتھروں یعنی ڈھیلوں سے استنجا کرنا چاہیے) حضور ﷺ کا امر و جوب پر محمول ہوتا ہے اس لئے گزشتہ حدیث میں آپ کے قول (فلاحرج) کو ایسی صورت پر محمول کیا جائے گا جس سے امر کے ایجاب کا سقوط لازم نہ آئے۔ وہ صورت یہ ہوگی کہ آپ نے ایسے شخص سے گناہ کی نفی کردی جس نے طاق تعداد میں ڈھیلے استعمال نہ کئے ہوں بلکہ ان کی تعداد جفت کردی ہو۔ آپ نے ایسے شخص سے گناہ کی نفی نہیں کی جو سرے سے ڈھیلے استعمال ہی نہیں کرتا یا آپ کے اس قول کو اس صورت پر محمول کیا جائے گا جس میں ایک شخص ڈھیلے چھوڑ کر پانی سے استنجا کرلیتا ہے۔ آپ کے قول کو ان صورتوں پر محمول کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ امر کا مقتضی یعنی ایجاب کا مفہوم باقی رہ جائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم تو دونوں صورتوں کو جمع کرلیتے اور ان دونوں پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ ایک صورت دوسرے کی بنا پر ساقط نہیں ہوتی۔ ہم آپ کے استنجا کے امرا ور ترک استنجا کی نہی کو استحباب پر محمول کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ آپ کے ارشاد (ومن لافلاحرج) (a) ایجاب کی نفی پر محمول کرتے ہیں۔ لیکن اگر معترض کا بیان کردہ مفہوم لیا جائے تو اس کی وجہ سے ان دونوں صورتوں میں سے ایک کا بالکلیہ اسقاط لازم آجائے گا۔ خاص طو پر جب کہ (فلاحرج) کی ہماری روایت آیت کے متضمن معنی کے موافق بھی ہے یعنی آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ ترک استنجا کے باوجود نماز کی ادائیگی کا جواز موجود ہے۔ استنجا کرنا فرض نہیں ہے اور اس کے بغیر بھی نماز کا جواز ہے اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اگر پانی موجود ہونے کے باوجود ایک شخص ڈھیلوں سے استنجا کرلیتا ہے یا بلا ضرورت پانی چھوڑ کر ڈھیلے استعمال کرلیتا ہے تو سب کے نزدیک اس کی نماز جائز ہوجاتی ہے۔ اگر استنجا فرض ہوتا تو پھر ڈھیلوں کی بجائے پانی سے کرنا واجب ہوتا جس طرح جسم میں کسی جگہ بہت زیادہ لگی ہوئی نجاست کو صاف کرنے کا مسئلہ ہے کہ اگر اس نجاست کو ڈھیلوں کے ذریعے دور کردیا جائے اور پانی سے صاف نہ کیا جائے تو نماز درست نہیں ہوگی۔ بشرطیکہ پانی دستیاب ہو۔ اس مسئلے میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ تھوڑی مقدار میں لگی ہوئی نجاست قابل معافی ہے۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ آپ کے نزدیک خشک منی کو کپڑے سے کھرچ دینے کی صورت میں کپڑا پاک ہوجاتا ہے لیکن یہ چیز کثیر مقدار میں لگی ہوئی منی کے ساتھ نماز کے جواز پر دلالت نہیں کرتی۔ اسی طرح استنجا کی جگہ اس حکم کے ساتھ مخصوص ہے کہ اگر ڈھیلوں کے ذریعے اس جگہ سے نجاست کا ازالہ کردیا جائے تو نماز جائز ہوجائے گی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم نے منی کے سلسلے میں جواز کا حکم لگا دیا ہے اگرچہ منی بھی نجس ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ فی نفسہ اس کے حکم میں شدت نہیں بلکہ نرمی ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ منی کپڑے کے جس حصے میں بھی لگ جائے اسے وہاں سے کھرچ کر صاف کردینا جائز ہے۔ لیکن جہاں تک جسم انسانی کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں پانی یا مانع یعنی بہنے والی شے کے بغیر منی کی نجاست کا ازالہ جائز نہیں ہے اور اس بارے میں اس کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہے اسی طرح استنجا کی جگہ میں لگی ہوئی نجاست کا حکم ہے کہ اس کے ازالے کے متعلق حکم کے اندر شدت کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے۔ اس لئے استنجا کی جگہ میں لگی ہوئی نجاست اور بدن کے کسی حصے میں لگی ہوئی نجات کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح اگر ہم سے یہ پوچھا جائے کہ ذی جرم نجاست یعنی ایسی نجاست جو جسم رکھتی ہو اگر موزے میں لگی ہوئی ہو تو خشک ہوجانے پر اسے اگر زمین پر رگڑ کر دور کردیا جائے تو موزہ پاک ہوجائے گا لیکن اس قسم کی نجاست اگر بدن کو لگ جائے تو دھوئے بغیر پاک نہیں ہوگی۔ تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ ان دونوں صورتوں کے حکم میں انسانی جسم اور موزے کے جسم کی حالتوں میں اختلاف کی وجہ سے فرق پڑا ہے۔ اس لئے کہ موزے کا جرم یا جسم چکنا ہوتا ہے اور اس پر لگی ہوئی نجاست کی رطوبت کو اپنے اندر جذب نہیں کرتا ہے جبکہ نجاست کا جرم یا جسم کمزور اور درمیان سے متخلخل یا پوپلا ہوتا ہے اور موزے پر لگی ہوئی رطوبت کو جذب کرلیتا ہے۔ اس لئے اگر اسے کھرچ دیا جائے تو بہت تھوڑی مقدار میں موزے پر باقی رہ جاتا ہے جو قابل نظر انداز ہوتا ہے۔ اس لئے رگڑنے، کھرچنے اور دھونے کے احکامات کا تعلق یا تو نفس نجاست کے ساتھ اس کی نرمی اور خفت کی بنا پر ہوتا ہے یا اس چیز کے ساتھ ہوتا ہے جسے نجاست لگ گئی ہو اور پانی کے بغیر اسے زائل کردینے کا امکان ہوتا ہے جس طرح تلوار کے بارے میں ہمارا قول یہ ہے کہ اگر اسے خون لگ جائے تو خون پونچھ دینے سے تلوار پاک ہوجاتی ہے۔ اس لئے کہ تلوار کا جسم نجاست کو اپنے اندر جذب نہیں کرتا ہے۔ اس لئے اگر اس کی سطح پر لگی ہوئی نجاست کو صاف کردیا جائے تو اس پر قلیل مقدار میں نجاست لگی رہ جائے گی جس کا کوئی حکم نہیں ہوگا اور اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ فصل آیا وضو میں ترتیب اعضا ضروری ہے ؟ قول باری (فاغسلوا وجوھکم) (a) تا آخر آیت سے ان لوگوں کے قول کے بطلان پر استدلال کیا جاتا ہے جو وضو میں ترتیب کے وجوب کے قائل ہیں۔ اسی قول باری سے وضو کے افعال کی تقدیم و تاخیر کے جواز پر بھی استدلال کیا جاتا ہے، وضو کرنے والے کو اس تقدیم پر تاخیر کا اختیار ہوتا ہے ہمارے اصحاب، امام مالک، لیث بن سعد اور اوزاعی کا یہی قول ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ چہرہ دھونے سے پہلے بازو دھولینایا بازوئوں سے پہلے پائوں دھولینا جائز نہیں ہے۔ اس قول کی بنا پر امام شافعی ، اجماع سلف اور اجماع فقہاء سے کٹ کر رہ گئے ہیں۔ وہ اس طرح کہ حضرت علی ؓ ، حضرت عبداللہ اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے یہ قول مروی ہے کہ جب میں وضو مکمل کو لوں تو مجھے اس کی پرواہ نہیں ہوتی کہ میں نے اپنے کس عضو سے وضو کی ابتدا کی تھی۔ جہاں تک ہمیں علم ہے سلف اور خلف میں سے کسی بھی فرد سے امام شافعی جیسا قول منقول نہیں ہے۔ قول باری (اذا قمتم الی الصلوٰۃ فاغسلوا وجوھکم) (a) تا آخر آیت ، تین وجوہ سے ترتیب کی فرضیت کے سقوط پر دلالت کرتا ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ ظاہر آیت کا مقتضیٰ یہ ہے کہ اعضا کے دھو لینے پر نماز کا جواز ہوجاتا ہے اور ترتیب کی شرط نہیں ہوتی۔ اس لئے کہ آیت میں مذکورہ صرف وائو اہل لغت کے ندیک ترتیب کا موجب نہیں ہے۔ مبرد اور ثعلب دونوں نے یہی بات کہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے۔ ” رأیت زیداً وعملوا (a) (میں نے یزید اور عمرو کو دیکھا) تو اس کے قول کی وہی حیثیت ہوگی اگر وہ یہ کہے ” رایت الزیدین یا رأیتھما (a) ( میں نے دونوں زید کو دیکھا یا میں نے دونوں کا دیکھا) اہل لغت کی اسی طرح کہنے کی عادت ہوتی ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص کسی کا یہ فقرہ سن لے۔ ’ رایت زیداً وعملواً (a) تو وہ کبھی یہ نہیں سوچے گا کہ کہنے والے نے عمرو سے پہلے زید کو دیکھا ہے بلکہ یہ ممکن ہوگا کہ اس نے دونوں کو ایک ساتھ دیکھ لیا ہو یا زید سے پہلے عمرو کو دیکھا ہو۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ صرف وائو ترتیب کا موجب نہیں ہے۔ فقہاء کا اس مسئلے میں اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے۔ ” میں اگر گھر میں داخل ہوگیا تو میری بیوی کو طلاق، میرا غلام آزاد اور مجھ پر صدقہ لازم، پھر وہ گھر میں داخل ہوجائے تو اس پر یہ تینوں چیزیں بیک وقت لازم ہوجائیں گی۔ ایسا نہیں ہوگا کہ ایک چیز دوسری چیز سے پہلے لازم ہوگی۔ یہی صورت حال یہاں بھی ہے اس پر حضور ﷺ کا یہ قول دلالت کرتا ہے (لا تقولوا ماشاء اللہ وشئت ولٰکن قولوا ماشاء اللہ ثم شئت (a) یہ نہ کہو کہ جو اللہ نے اور میں نے چاہا بلکہ یوں کہو جو اللہ نے چاہا پھر میں نے چاہا) اگر حرف وائو ترتیب کا موجب ہوتا تو یہ حرف قم کے قائم مقام ہوجاتا اور حضور ﷺ کو ان دونوں کے درمیان فرق کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت میں ترتیب کا ایجاب نہیں ہے تو جو شخص اس کے ایجاب کی بات کرے گا وہ آیت کا مخالف شمار ہوگا اور آیت میں ایسے مفہوم کا اضافہ کرنے والا بن جائے گا جو آیت کا جز نہیں ہے۔ یہ بات ہمارے نزدیک آیت کے نسخ کی موجب بنتی ہے اس لئے کہ آیت جس چیز کی اباحت کی مقتضی ہے وجوب ترتیب کا قائل اس کی ممانعت کررہا ہے۔ جبکہ اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ اس آیت میں نسخ نہیں ہے۔ اس لئے ترتیب کے بغیروضو کے افعال کی ادائیگی کا جواز ثابت ہوگیا دوسری وجہ قول باری (وامسحوا بروسکم وارجلکم ای الکعبین) (a) کی دلالت ہے۔ فقہاء امصار کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ پائوں دھونے کے حکم میں داخل ہے اور معنی کے لحاظ سے یہ قول باری (ویدیکم) (a) پر معطوف ہے۔ اور آیت کی ترتیب کچھ اس طرح ہے۔ ” فاغسلوا وجوھکم وایدیکم وارجلکم وامسحو بروسکم (a) (اپنے چہرے، اپنے بازو اور ٹانگیں دھولو اور اپنے سروں کا مسح کرو) اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس تاویل پر الفاظ کی ترتیب مراد نہیں ہے بلکہ معنی کی ترتیب مراد ہے۔ تیسری وجہ آیت کے تسلسل میں یہ قول باری ہے (مایرید اللہ لیجعل علیکم من حر ولکن یرید لیطھرکم۔ (a) اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر کوئی تنگی لانا نہیں چاہتا بلکہ وہ تمہیں پاک کرنا چاہتا ہے) یہ تفصیل دو وجوہ سے ترتیب کے سقوط پر دلالت کرتی ہے، ایک تو یہ کہ طہارت اور وضو کے جس امر تعبدی کی ہم پر ذمہ داری ڈالی گئی ہے اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ہم پر تنگی ڈالنے کی نفی کردی ہے جبکہ ترتیب کے ایجاب میں تنگی کا اثبات ہے نیز کشادگی اور فراخی کی نفی ہے۔ دوسری وجہ یہ قول باری ہے (ولکن یرید لیطھرکم) (a) اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بتادیا کہ ان اعضا کو دھونے کے ذریعے طہارت کا حصول اس کی مراد ہے۔ ترتیب کی غیر موجودگی میں حصول طہارت اسی طرح ہے جس طرح ترتیب کی موجودگی میں اس کا حصول ہے۔ کیونکہ اللہ کی مراد تو ان اعضاء کا دھونا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پہلی تفصیل کے مطابق ہم آپ کی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ حرف وائو ترتیب کا موجب نہیں ہوتا۔ لیکن آیت اس کے ایجاب کی مقتضی ہے اس لئے حرف فاء تعقیب کے معنی ادا کرتا ہے یعنی ایک چیز دوسری چیز کے پیچھے آئے، اہل لغت کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا (اذا قمتم الی الصلوٰۃ فاغسلوا وجوھکم) (a) تو آیت کے الفاظ کے تقاضے کے مطابق نماز کے لئے قیام کے متصل جو کام ہونا چاہیے وہ چہرے کا دھونا ہے پھر جب چہرہ دھونے میں ترتیب لازم ہوگی تو تمام اعضا میں بھی لازم ہوجائے گی۔ اس لئے کہ کسی نے بھی ان دونوں کے درمیان فرق نہیں کیا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات دو وجوہ کی بنا پر غیر واجب ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ قول باری (اذا قمتم الی الصلوٰۃ) (a) کے معنی سب کا اس پر اتفاق ہے کہ یہاں حقیقی معنی مراد نہیں ہیں۔ اس لئے کہ حقیقی معنی کا یہ تقاضا ہے کہ نماز کے لئے قیام کے بعد وضو کا ایجاب ہوتا ہے کیونکہ وضو کو قیام الی الصلوٰۃ کے لئے شرط کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ اس لئے قیام کے ذکر کا اطلاق کرکے دوسرے معنی مراد لیے ہیں۔ اس میں ایک پوشیدہ لفظ موجود ہے جس پر ہم گزشتہ ابواب میں روشنی ڈال آئے ہیں۔ اس بنا پر جس لفظ کی یہ کیفیت ہو تو دلالت قائم ہوئے بغیر اس سے استدلال درست نہیں ہوگا کیونکہ اس صورت میں وہ مجاز ہوگا جب حرف فاء داخل ہونے کی وجہ سے چہرہ دھونے کا ایجاب اس امر پر مرتب نہیں ہوگا جو آیت میں مذکور ہے کیونکہ جس امر پر چہرہ دھونے کا ترتیب ہوگا وہ دلالت پر موقوف ہے تو معترض کا سوال ساقط ہوجائے گا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر ہم معترض کے اس قول کو تسیلم کرلیں کہ لفظ کے مقتضیٰ کے مطابق ترتیب کا اعتبار کرلیا جائے تو ہم اس سے یہ کہیں گے کہ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ حرف وائو ترتیب کا موجب نہیں ہے تو اس صورت میں آیت کی ترتیب کچھ یوں ہوگی ” اذا قمتم الی الصلوٰۃ فاغسلوا ھذہ الاعضاء (a) (جب تم نماز کے لئے چلو تو ان اعضاء کو دھولو) اس طرح تمام اعضاء کا دھونا قیام الی الصلوٰۃ پر مرتب ہوگا۔ صرف چہرہ خاص نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ حرف وائو جمع کے لئے آتا ہے اس طرح گویا ان اعضاء کا مجموعہ حرف فاء کے ذریعے قیام الی الصلوٰۃ پر معطوف ہوگا۔ اس صورت میں ترتیب پر تو اس کی دلالت نہیں ہوگی بلکہ یہ اسقاط ترتیب کا مقتضی ہوگا۔ ترتیب کے سقوط پر قول باری (وانزلنا من السماء ماء طھورا) (a) بھی دلالت کرتا ہے۔ طہور کے معنی مطہر کے ہیں یعنی پاک کرنے والا۔ اس لئے جس جگہ بھی پانی ملے اسے مطہر ہونا چاہیے اور اس کے اندر پوری طرح وہ صفت موجود ہونی چاہیے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اسے موصوف کیا ہے۔ اب جو شخص ترتیب کو واجب قرار دے گا وہ پانی کی اس صفت کو اس سے سلب کرلے گا۔ الا (a) یہ کہ پانی کے اندر اس صفت کو سلب کرنے والی کوئی اور وجہ پیدا ہوگئی ہو۔ ترتیب کی بنا پر اس صفت کو سلب کرلینا درست نہیں ہے۔ ترتیب کی عدم فرضیت پر سنت کی جہت سے وہ حدیث دلالت کرتی ہے جسے حضرت رفاء بن رافع ؓ نے حضور ﷺ سے روایت کی ہے جس میں آپ نے ایک بدو کو وضو کرنا سکھایا تھا اور اس سے فرمایا تھا (لاتتم صلوٰۃ احدمن الناس حتیٰ یضع الوضوء مواضعہ ثم یکبر ویحمد اللہ (a) کسی شخص کی نماز اس وقت تک پوری نہیں ہوسکتی جب تک وہ وضو کو اس کے مقامات پر نہ رکھے پھر اللہ اکبر کہے اور اللہ کی حمدو ثنا کرے) تا آخر حدیث۔ حضور ﷺ نے یہ بتایا کہ جب کوئی شخص وضو کو اس کے مقامات میں رکھ دے گا تو اس کا وضو جائز ہوجائے گا۔ وضو کے مقامات وہ اعضاء وضو ہیں جن کا آیت وضو کے اندر ذکر ہوا ہے۔ آپ نے ان اعضاء کو دھو لینے پر نماز کی اجازت دے دی اور ان کے دھونے میں کسی ترتیب کا ذکر نہیں کیا۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ ان اعضاء کو دھولینا وضو کی تکمیل کا موجب ہے۔ اس لئے کہ دھونے والے شخص نے اس کے ذریعے وضو کو اس کے مقامات میں رکھ دیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب وضو کرنے والے نے ان اعضاء کے دھونے میں ترتیب کا لحاظ نہیں رکھا تو گویا اس نے وضو کو اس کے مقامات میں نہیں رکھا اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ کہنا غلط ہے۔ اس لئے کہ وضو کے مقامات معلوم ہیں اور کتاب اللہ میں مذکور بھی ہیں۔ اس لئے جس طور پر بھی یہ اعضاء دھو لیے جائیں وضو کو اس کے مواضع میں رکھنے کا عمل مکمل ہوجائے گا اور اس عمل کی بنا پر حضور ﷺ کے ارشاد کے مطابق اس کی طہارت کی تکمیل ہوجائے گی۔ نظر اور قیاس کی جہت سے ہمارے قول پر یہ بات دلالت کرتی ہے اگر کوئی شخص بازو دھونے میں کہنی سے ابتدا کرکے ہاتھ کے گٹے کی طرف لے جائے تو اس کے وضو کے جواز پر سب کا اتفاق ہے۔ حالانکہ قول باری ہے (وایدیکم الی المرافق) (a) لفظ کے حقیقی معنی کے مقتضیٰ کے لحاظ سے جو چیز مرتب ہے جب اس میں ترتیب واجب نہیں ہوئی تو جس چیز کی ترتیب کا لفظ تقاضا ہی نہیں کرتا اس کا جائز ہوجانا زیادہ مناسب بات ہے۔ یہ ایک ایسی واضح دلالت ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے کسی علت کے ذکر کی ضرورت نہیں جو ان دونوں صورتوں کی جامع بنتی ہو۔ اس لئے کہ ہمارے بیان کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ وضو میں ترتیب مقصود نہیں ہے اس لئے کہ اگر ایسا ہوتا تو لفظ جس چیز کی ترتیب کا مقتضی تھا اس کامرتب ہونا اولیٰ ہوتا۔ نیز اس طرح بھی قیاس کرنا درست ہے کہ کہنی اور ہاتھ کا گٹا دونوں اعضائے وضو ہیں جب ایک میں ترتیب ساقط ہوگئی تو دوسرے میں ترتیب کا ساقط ہونا بھی واجب ہوگیا۔ نیز جب نماز اور زکوٰۃ میں ترتیب واجب نہیں ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک کے لئے یہ جائز ہے کہ ایک کا سقوط ہوجائے اور دوسری کی فرضیت باقی رہے تو وضو کے اندر ترتیب کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے۔ کیونکہ اس میں بھی یہ جائز ہے کہ کسی بیماری کی بنا پر دونوں پیروں کو دھونے کا حکم ساقط ہوجائے اور چہرے وغیرہ کے دھونے کی فرضیت باقی رہے۔ نیز جب اعضائے وضو کو دھونے کے اندر اکٹھا کرلینا کوئی امر محال نہیں تو یہ ضروری ہوگیا کہ ان کے دھونے میں ترتیب کا وجود نہ ہو جس طرح نماز اور زکوٰۃ میں ترتیب کا وجوب نہیں ہوتا۔ حضرت عثمان ؓ سے یہ مروی ہے کہ آپ نے اس طرح وضو کیا کہ پہلے چہرہ، بازو اور پائوں دھوئے اور اس کے بعد سر کا مسح کیا۔ پھر فرمایا : میں نے حضور ﷺ کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا ہے۔ “ اگر ترتیب کے قائلین اس روایت سے استدلال کریں جس میں مذکور ہے کہ حضور ﷺ نے اعضائے وضو ایک ایک مرتبہ دھونے کے بعد فرمایا (ھذا وضوء من لایقبل اللہ لہ صلوٰۃ الابہ) (a) تو اس استدلال کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ حدیث میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو ترتیب پر دلالت کرتی ہو۔ یہ زید العمی کی روایت ہے جو انہوں نے معاویہ بن قرہ سے نقل کی ہے اور انہوں نے حضرت ابن عمر ؓ سے کہ حضور ﷺ نے اعضائے وضو ایک ایک دھونے کے بعد درج بالا جملہ ارشاد فرمایا۔ اسی روایت میں یہ بھی ذکر ہے کہ آپ ﷺ نے پھر وضو کیا اور اس مرتبہ اعضائے وضو دو دفعہ دھوئے، اس کے بعد زید العمی نے پوری روایت بیان کی لیکن یہ ذکر نہیں کیا کہ حضور ﷺ نے ترتیب کے ساتھ اعضائے وضو دھوئے تھے۔ اس میں کوئی امتناع نہیں کہ آپ نے پہلے دونوں بازو دھونے ہوں اس کے بعد چہرہ دھویا ہو یا اس سے پہلے سر کا مسح کرلیا ہو، جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ آپ نے ترتیب کے ساتھ اعضائے وضو دھوئے تھے اس کے لئے کسی روایت کعے بغیر اس کا اثبات ممکن نہیں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حدیث سے ترک ترتیب کے معنی نکالنا کیسے درست ہوسکتا ہے جبکہ آپ خود اس بات کے قائل ہیں کہ ترتیب مستحب ہے۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ مستحب کو ترک کرکے مباح کو اختیار کرلینا جائز ہے۔ اس لئے یہ جائز ہے کہ حضور ﷺ نے تعلیم کے طور پر یہ وضو غیر مرتب طریقے پر کیا ہو۔ جس طرح آپ نے مغرب کی نماز ایک دفعہ موخر کرکے پڑھی تھی اور یہ بات تعلیماً کی گئی تھی جبکہ برس کے بارہ مہینے مغرب کی نماز میں مجیل مستحب ہوتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب آپ نے ترتیب کے ساتھ وضو نہیں کیا تھا تو اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ غیر مرتب طریقے سے وضو کرنا واجب ہوجائے کیونکہ آپ نے فرمایا تھا (ھذا وضوء من لا یقبل اللہ لہ صلوٰۃ الابہ۔ (a) تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر ہم یہ بات قبول کرلیتے اور اس کے ساتھ یہ کہتے کہ لفظ اس طریقے سے وضو کی ادائیگی کے وجوب کا مقتضی ہے جس کی طرف معترض نے اشارہ کیا ہے یعنی ترتیب کے بغیر، لیکن ہم نے ایک دلالت کی بنا پر جو معترض کے سوال کو ساقط کردیتی ہے وضو کی ترتیب کے ساتھ ادائیگی کو جائز قرار دیا، تو بھی ہماری بات درست ہوتی۔ لیکن ہم تو یہاں یہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کے اس قول (ھذا وضوء) (a) میں اشارہ اعضائے وضو دھونے کی طرف ہے نہ کہ ترتیب کی طرف۔ اس بنا پر اس میں ترتیب کو کوئی دخل نہیں ہے۔ اگر یہ حضرات اس روایت سے استدلال کریں جس میں منقول ہے کہ حضور ﷺ نے کوہ صفا پر چڑم کر فرمایا (نبدأ بما بدء اللہ بہ (a) ، ہم بھی اسی جگہ سے سعی کی ابتدا کریں گے جہاں سے اللہ تعالیٰ نے ابتدا کی ہے) اس میں حکم اور لفظ دونوں کی ترتیب کا عموم ہے تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ حرف وائو ترتیب کا موجب نہیں ہے اس لئے کہ اگر یہ ترتیب کا موجب ہوتا تو حضور ﷺ کو حاضرین سے اسے بیان کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی جبکہ وہ سب اہل زبان تھے۔ اس حدیث کے الفاظ میں صفا اور مروہ کے درمیان ترتیب پر کوئی دلالت نہیں ہے تو دوسری باتوں میں ترتیب پر اس کی کس طرح دلالت ہوسکتی ہے کیونکہ حدیث میں زیادہ سے زیادہ جو بات ہے وہ یہ ہے کہ آپ نے اس کام کی خبر دی ہے جو آپ کرنا چاہتے تھے یعنی صفا سے سعی کی ابتداء اور جو کام آپ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے اس کی خبر دینا وجوب کا مقتضی نہیں ہوتا۔ جس طرح آپ کا کوئی کام کرلینا وجوب کا مقتضی نہیں ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں اگر آپ کا یہ ارشاد وجوب کا مقتضی ہوتا تو اس ایجاب کا دائرہ صرف اس کام تک محدود ہوتا جس کی آپ نے خبر دی اور پھر اسے سرانجام دے دیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ کا ارشاد (نبدا بما یدا اللہ بہ) (a) دراصل اس بات کی اطلاع ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لفظاً جس امر کے ساتھ ابتدا کی ہے معنی کے لحاظ سے بھی اس کے ساتھ ہی ابتدا ہوئی ہے اس لئے کہ اگر بات اس طرح نہ ہوتی تو آپ یہ نہ فرماتے کہ (نبدا بما یدا اللہ بہ) (a) آپ نے یہ کہہ کر صفا سے سعی کی ابتدا مراد لی ہے۔ یہ چیز اس امر کو متضمن ہے کہ آپ نے دراصل یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حکم کے اندر بھی اسی طریقے سے ابتدا کی ہے جس طریقے سے الفاظ یعنی قول باری (ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ (a) بیشک صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں) میں کی ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ بات اس طرح نہیں ہے جس طرح معترض نے خیال کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں پھر آپ فرماتے : ” نبدا بالفعل فیما بدا اللہ بہ فی اللفظ (a) جس چیز کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے لفظاً ابتدا کی ہے ہم فعلاً اس کے ساتھ ابتدا کرتے ہیں) اس صورت میں یہ کلام درست اور مفید مطلب قرار دیا جاتا۔ نیز ہمارے نزدیک اس میں کوئی امتناع نہیں کہ آپ نے لفظ کی ترتیب کے ذریعے فعل کی ترتیب کا ارادہ کیا ہو لیکن اس سے کسی دلالت کے بغیر ترتیب کے ایجاب کا مفہوم لینا درست نہیں ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ حرف ثم کے حقیقی معنی تراخی کے ہیں لیکن بعض دفعہ کلام کے اندر یہ حرف وائو کے معنی بھی ادا کرجاتا ہے مثلاً قول باری ہے (ثم کان من الذین اٰمنوا۔ (a) پھر وہ شخص ایمان لانے والوں میں سے ہو) یہاں معنی ہیں ” اور وہ شخ ایمان لانے والوں میں سے ہو۔ “ اسی طرح قول باری ہے (ثم اللہ شھید (a) پھر اللہ گواہ ہے) یہاں معنی ہیں۔ اور اللہ گواہ ہے۔ “ جس طرح حرف ’ او ‘ (a) کبھی حرف وائو کے معنوں میں آتا ہے۔ مثلاً قول باری ہے۔ (ان یکن غنیاً اوفقیراً اگر وہ دولت مند یا فقیر ہو) اس کے معنی ہیں۔ ” اگر وہ دولت مند اور فقیر ہو) اسی طرح زیر بحث آیت میں حرف وائو سے ترتیب کے معنی مراد لینے میں کوئی امتناع نہیں لیکن اس صورت میں حرف وائو مجاز ہوگا اور اسے کسی دلالت کے بغیر اس معنی پر محمول کرنا درست نہیں ہوگا۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت ابن عباس ؓ سے ایک مرتبہ یہ پوچھا گیا کہ آپ حج سے پہلے عمرہ کرلینے کا کیسے حکم دیتے ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (واتموا الحج والعمرۃ للہ (a) اللہ کے لئے حج اور عمرہ پورا کرو) اس کے جواب میں حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : ” تم لوگ آیت میراث میں کس طرح قرأت کرتے ہو۔ وصیت کو دین سے پہلے یا دین کو وصیت سے پہلے۔ “ لوگوں نے کہا کہ قرات میں وصیت کو پہلے پڑھتے ہیں۔ آپ نے پوچھا : پھر عملی طور پر تم کس چیز سے ابتدا کرتے ہو۔ “ لوگوں نے کہا ” دین سے “۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا : یہی تمہارے سوال کا جواب ہے۔ “ اگر اہل عرب کی زبان میں فعل کے اندر وہی ترتیب نہ ہوتی جو لفظ کے اندر ہے تو لوگ حضرت ابن عباس سے یہ سوال نہ کرتے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس سائل کے قول سے کس طرح استدلال درست کیا جاسکتا ہے جب کہ وہ اس آیت سے ناواقف نظر آتا ہے جس میں ترتیب موجود ہے اور اس کے متعلق اہل لغت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں وہ آیت یہ قول باری ہے (فمن تمتع بالعمرۃ الی الحج (a) جو شخص حج کی آمد تک عمرہ ادا کرن کا فائدہ اٹھالے) یہ الفاظ لامحالہ عمرہ پر حج کی ادائیگی کی ترتیب اور حج پر عمرہ کی تقدیم کو واجب کرتے ہیں۔ جو شخص اس بات سے جاہل ہو تو قول باری (واتموا الحج والعمرۃ للہ) (a) میں الفاظ کے حکم کے متعلق اس کی جہالت کا کوئی شکوہ نہیں کیا جاسکتا۔ پھر معترض کو یہ کہاں سے معلوم ہوگیا کہ سائل اہل زبان تھا، ہوسکتا ہے کہ وہ کوئی نو مسلم عجمی ہو اور اہل زبان سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو۔ اب معترض خود ہی فیصلہ کرے کہ کونسی بات اولیٰ ہے حضرت ابن عباس ؓ کا قول کہ لفظ کی ترتیب فعل کی ترتیب کی موجب نہیں ہے یا اس سائل کا قول۔ اگر ترتیب کے قائلین کے قول کو ساقط کرنے کے لئے حضرت ابن عباس ؓ کے اس قول کے سوا اور کوئی دلیل نہ ہوتی پھر بھی آپ کا یہ قول ہی اس کے لئے کافی ہوجاتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ سے یہ مروی ہے (ابدوا بما بدأ اللہ بہ (a) جس چیز سے اللہ نے ابتدا کی ہے تم بھی اسی سے ابتدا کرو) اور قول باری ہے (ان علینا جمعہ وقراٰنہ فاذا قرانہ فاتبع قرانہ (a) یہ تو ہمارے ذمہ ہے اس کا جمع کردینا اور اس کا پڑھوانا، اس لئے جب ہم اسے پڑھنے لگیں تو آپ اس کے تابع ہوجایا کیجئے) حضور ﷺ کا ارشاد امر کی صورت میں ہے جو اس چیز سے ابتدا کرنے کا مقتضی ہے جس سے اللہ نے لفظ اور حکم دونوں میں ابتدا کی ہے اور قول باری (فاتبع قراٰنہ) (a) میں اسی ترتیب سے اتباع کے عموم کا لزوم ہے جس ترتیب سے الفاظ کا ورود ہوا ہو۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضور ﷺ کا ارشاد صفا اور مروہ کے باے میں وارد ہوا ہے۔ حاضرین میں سے بعض نے پورا واقعہ درست طریقے سے نقل کردیا اور بعض نے صرف سبب کے ذکر کو یاد رکھا اور حضور ﷺ کے اس ارشاد (بدوا بمابہ اللہ بہ) (a) کو روایت کردینے پر اکتفا کرلیا۔ اب ہمارے لئے یہ جائز نہیں کہ اسے دو الگ الگ روایت قرار دیں اور اسے دو الگ الگ حالتوں کے اندر حضور ﷺ کا قول ثابت کریں الا (a) یہ کہ کوئی دلالت موجود ہو جو اس کی موجب بن رہی ہو۔ نیز ہم بھی اسی چیز سے ابتدا کرتے ہیں جس کے ساتھ اللہ نے ابتدا کی ہے۔ ہمارے اور مخالفین کے درمیان بحث تو اس پر چل رہی ہے کہ الفاظ کے اندر جس چیز کے ساتھ ابتدا کی گئی ہو کیا فعل کے اندر بھی اللہ کی وہی مراد ہوتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم یہ ثابت کردیں کہ حکم کے اندر بھی ترتیب اللہ کی مراد ہے تاکہ ہم بھی اس کے ساتھ ابتدا کریں۔ قول باری (فاتبع قرانہ) (a) کا بھی یہی جواب ہے اس لئے کہ پڑھنے میں اتباع کا مفہوم یہ ہے کہ ہم قرآن کی ابتدا اس کی ترتیب، اس کے نظام اور تسلسل کے مطابق کریں۔ ہم پر یہ واجب ہے کہ ہم قرآن کے حکم کی جمع اور ترتیب وغیرہ کے سلسلے میں اس کی مراد و منشا کے مطابق ابتدا کریں۔ لیکن معترض جب ایسے امور میں ترتیب کو واجب کرتا ہے جن میں قرآن کی مراد ترتیب کی مقتضی نہیں ہوتی تو ایسا کرکے وہ (فاتبع قرانہ) (a) پر عمل پیرا نہیں ہوتا۔ یاد رہے کہ لفظ کی ترتیب فعل کی ترتیب کو واجب نہیں کرتی۔ اگر یہ کہا جائے کہ قرآن تالیف الفاظ اور حکم دونوں کا نام ہے اس لئے ہم پر دونوں باتوں میں اس کی اتباع لازم ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ قرآن دراصل اس چیز کا نام ہے جس کی تلاوت کی جائے خواہ حکم ہو یا خبر اس لئے ہم پر تلاوت کے اندر اس کی اتباع واجب ہے۔ لیکن لفظ کی ترتیب کے مطابق فعل کی ترتیب مراد لینا تو اس کا مرجع دراصل وہ امر ہوتا ہے جو لغت اور زبان کا مقتضیٰ ہو لیکن لغت میں لفظ کی ترتیب کے مطابق اس فعل کی ترتیب کا ایجاب نہیں ہوتا جس کے کرنے کا حکم دیا گیا ہو۔ آپ نہیں دیکھتے کہ قرآن مجید کا ایک بڑا حصہ احکام لے کر نازل ہوا پھر اس کے بعد دوسرے احکام بھی نازل ہوئے۔ لیکن تلاوت کی تقدیم نازل شدہ احکامات پر پہلے احکام کی تقدیم کی موجب نہیں بنی اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ نظم قرآن اور سورتوں نیز آیتوں کی ترتیب میں کوئی تغیر و تبدل سرے سے جائز ہی نہیں لیکن یہ چیز ان آیات میں بیان کردہ احکامات میں اس ترتیب کی موجب نہیں ہے جو ترتیب ان آیات کی تلاوت کی ہے۔ اس وضاحت سے معترض کے سوال کا سقوط کھل کر سامنے آگیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ آپ نے حرف وائو کے ذریعے ترتیب کا اثبات کیا ہے اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے ” انت طالق وطالق وطالق (a) (تجھے طلاق، طلاق اور طلاق ہے) جبکہ ابھی دخول نہ ہوا ہو یعنی خلوت صحیحہ کا موقعہ میسر نہ آیا ہو تو اس صورت میں آپ پہلی طلاق کا اثبات کردیتے ہیں اور پھر دوسری اور تیسری طلاق کو واقع نہیں کرتے۔ اس طرح آپ حرف وائو کو لفظ کے حکم کے مطابق مرتب تسلیم کرتے ہیں اسی طرح قول باری (واغسلوا وجوھکم) (a) تا آخر آیت میں ان اعضاء کا نظام تلاوت کی ترتیب کے مطابق ایجاب ترتیب آپ پر لازم آتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ طلاق کے مسئلے میں ہم نے معترض کی ذکر کردہ وجہ کی بنا پر کہ حرف وائو ترتیب کا مقتضی ہے دوسری طلاق سے قبل پہلی واقع نہیں کی۔ ہم نے دوسری طلاق سے قبل پہلی طلاق صرف اس بنا پر واقع کی کہ شوہر ن یہ طلاق کسی شرط کے ساتھ مشروط کئے بغیر اور کسی وقت کی طرف اس کی نسبت کیے بغیر دی تھی۔ اس صورت میں دی گئی طلاق کا حکم یہ ہوتا ہے کہ وہ واقع ہوجاتی ہے اور اس میں کسی اور حالت کا انتظار نہیں کیا جاتا۔ جب پہلی طلاق واقع ہوگئی اور واقع بھی اس وجہ سے ہوئی کہ اس نے الفاظ میں اس کے ساتھ ابتدا کی تھی، پھر دوسری طلاق واقع کردی تو یہ دوسری طلاق اس پر اس وقت واقع ہوئی جب وہ اس کی زوجیت سے نکل چکی تھی، اس لئے یہ دوسری طلاق اس پر اس وقت واقع ہوئی جب وہ اس کی زوجیت سے نکل چکی تھی، اس لئے یہ دوسری طلاق اس پر واقع نہیں ہوئی۔ دوسری طرف قول باری (فاغسلوا وجوھکم) (a) کے ذریعے چہرے کا دھونا بازو دھونے سے قبل واقع نہیں ہوا اور نہ ہی بازو کا دھونا سر کے مسح سے پہلے وجود میں آیا اس لئے کہ اعضائے وضو میں سے بعض کا دھولینا بےفائدہ ہوتا ہے اور تمام اعضاء دھو لینے کے بعد ہی اسے کوئی حکم لاحق ہوتا ہے۔ اس طرح تمام اعضا کا ایک ساتھ دھولینا لفظ کے حکم کے تحت واجب قرار پایا اس لئے لفظ ترتیب کا مقتضی نہیں ہوا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر شوہر پہلی، دوسری اور تیسری طلاق کو کسی شرط کے ساتھ مشروط کرتا اور یوں کہتا : ” انت طالق و طالق وطالق ان دخلت الدار “ (a) (تجھے طلاق، طلاق، طلاق اگر تو گھر میں داخل ہوئی) تو گھر میں داخلے کے بغیر ان میں سے کوئی طلاق واقع نہ ہوتی۔ اس لئے کہ شوہر نے ہر طلاق کے ساتھ دخول کی وہی شرط عائد کی تھی جو دوسری کی ساتھ لگائی تھی جس طر ح اعضائے وضو میں سے ہر عضو کے دھونے کے ساتھ دوسرے اعضاء دھونے کی شرط لگی ہوئی ہے۔ اہل علم کا اس شخص کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے جو اپنی بیوی سے کہے ” ان دخلت ھذہ الدار وھذہ الدارفانت طالق “ (a) (اگر تو اس گھر میں اور اس گھر میں داخل ہوئی تو تجھے طلاق) عورت دوسرے گھر میں داخل ہوئی پھر پہلے گھر میں داخل ہوئی تو اسے طلاق ہوجاء گی اور شوہر کا ھذہ وھذہ (a) کا قول اس بات کا موجب نہیں ہوگا کہ جس شرط کے ساتھ شوہر نے طلاق پڑجانے کو مشروط کیا ہے اسے پورا کرنے کے لئے بیوی کا پہلے گھر میں پہلے داخل ہونا ضروری ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (لا یقبل اللہ صلوٰۃ احدم حتی یسیغ الوضوء فیغسل وجھہ ثم یدیہ ثم یمسح راسہ ثم یغسل رجلیہ۔ (a) اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کی نماز اس قوت تک قبول نہیں کرے گا جب تک وہ پوری طرح وضو نہ کرے، پہلے اپنا چہرہ دھوئے، پھر دونوں بازو پھر سر کا مسح کرے اور پھر پائوں دھوئے) حرف ثم (a) ترتیب کا مقتضی ہے اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس بات کا قائل یا تو جاہل ہے یا جان بوجھ کر کذب بیانی کررہا ہے۔ میرا غالب گمان یہ ہے کہ قائل جان بوجھ کر کذب بیانی سے کام لے رہا ہے اس لئے کہ یہ روایت وہی ہے جسے علی بن یحییٰ بن خلاد نے اپنے والد اور انہوں نے اپنے چچا رفاعہ بن رافع سے نقل کی ہے۔ یہ حدیث کئی اور طرق سے بھی روایت ہوئی ہے لیکن کسی ایک میں بھی معترض کی ذکر کردہ تربیت مذکور نہیں ہے اور نہ ہی اعضائے وضو کو ایک دوسرے پر حرف ثم (a) ذریعے عطف کیا گیا ہے۔ اس روایت میں زیادہ سے زیادہ جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے (یغسل وجھہ ویدیہ ویمسح براسہ ورجلیہ الی الکعبین۔ (a) ایک سند کے واسطے سے روایت کے الفاظ یہ ہیں (حتی یضع الطھور مواضعہ) (a) یہ الفاظ ترک ترتیب کے جواز کے مقتضی ہیں ۔ جہاں تک اعضائے وضو کو حرف ثم (a) کے ذری کے ایک دوسرے پر عطف کرنے کا تعلق ہے تو کسی نے بھی اس کی روایت نہیں کی ہے اور نہ ہی کسی ضعیف یا قوی سند کے واسطے یہ روایت ہوئی ہے۔ علاوہ ازیں اگر حدیث کے ذریعے یہ بات مروی بھی ہوتی تو اسے قرآن کے بالمقابل پیش کرکے اس کے ذریعے نص قرآنی میں اضافہ اور اس کے نسخ کا ایجاب جائزنہ ہوتا اس لئے کہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ قرآن میں ترتیب کا ایجاب نہیں ہے اس لئے خبر واحد کے ذریعے ترتیب کا اثبات ہمارے بیان کردہ اسباب کی بنا پر جائز نہیں ہوگا۔ غسل جنابت کا بیان قول باری (وان کنتم جنباً فاطھروا، (a) اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو اچھی طرح پاک ہوجائو۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جنابت ایک شرعی اسم ہے جو غسل کے بغیر نماز کی ادائیگی، قرآن کی قرأت قرآن کو چھونے اور مسجد میں داخل ہونے سے اجتناب کے لزوم کے معنی ادا کرتا ہے جس شخص کو ان امور سے اجتناب کا حکم مل جائے گا اور غسل پر اس کا خاتمہ موقوف ہوگا اسے جنبی کہا جائے گا جنابت کی حالت اس وقت طاری ہوتی ہے جب مادہ منویہ شہرت کے ساتھ کود کر خارج ہو یا کسی انسانی فرج یا دبر میں عضو تناسل کو داخل کیا گیا ہو ، فاعل اور مفعول دونوں پر جنابت کی حالت طاری ہوجاتی ہے۔ اگرچہ حیض اور نفاس کی وجہ سے بھی ان باتوں کی ممانعت ہوجاتی ہے جن کی جنابت کی وجہ سے ہوتی ہے لیکن جنابت کا حکم اس لحاظ سے حیض اور نفاس کے حکم سے جدا ہوتا ہے کہ ان دونوں حالتوں کی موجودگی میں ہمبستری ممنوع ہوتی ہے اور جب تک یہ دونوں حالتیں موجود ہوں اس وقت تک غسل کرنے کے باوجود طہارت حاصل ہیں ہوتی جبکہ جنبی غسل کرکے پاک ہوجاتا ہے اور جنابت کی حالت اسے ہمبستری سے بھی نہیں روکتی۔ جنابت کی حالت والے کو جنبی کا نام اس لئے دیا گیا ہے کہ اس پر غسل کرنے تک درج بالا امور سے اجتناب کرنا لازم ہوتا ہے۔ غسل کرنے کا عمل اسے بہرحال پاک کردیتا ہے۔ لفظ جنب اسم ہے اور اس کا اطلاق ایک پر اور جمع پر بھی ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اپنی ساخت کے لحاظ سے مصدر ہے جس طرح لوگ کہتے ہیں ” رجل عدل “ (a) اور ” قوم عدل “ (a) نیز ” رجل زور “ (a) اور ” قوم زور “ (a) جبکہ یہ لفظ زیارت سے ماخوذ ہے اس طرح لفظ جنب ہے یہ افعال ماخوذ ہیں۔ ” اجنب الرجل، وتجنب واجتنب “ (a) (آدمی دور ہوگیا، اس نے پہلو بچایا، اس نے اجتناب کیا) اس کا مصدر ” الجنابۃ “ (a) اور ” الاجتناب “ (a) ہے آیت میں جس جنابت کا ذکر ہے اس سے دوری اور اجتناب مراد ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے۔ قول باری ہے (والجارذی القربیٰ والجار الجنب، (a) اور پڑوسی رشتہ دار سے اور اجنبی ہمسایہ سے) یعنی ایسا ہمسایہ جو نسب کے لحاظ سے بعید ہو۔ اس طرح شریعت میں جنابت مذکورہ بالا امور سے اجتناب کے لزوم کے لئے اسم بن گیا جبکہ اس کے اصل معنی کسی چیز سے دور رہنے کے ہیں یہ صوم کے لفظ کی طرح ہے جو شریعت میں چند امور سے رکے رہنے کے لئے اسم بن گیا ہے۔ جبکہ لغت میں اس کے اصل معنی صرف امساک یعنی رکے رہنے کے ہیں لیکن شریعت میں یہ لفظ اور اس کے نظائر دوسرے اسماء شرعی جنہیں لغوی معنوں سے شرعی معنوں کی طرف منتقل کردیا گیا ہے ان امور کے ساتھ مختص ہیں جن پر ان کا اطلاق سب کے علم میں ہے۔ اس لئے ان اسماء سے وہی معانی سمجھ میں آتے ہیں جن پر شریعت میں ان کے احکام کا استقرار عمل میں آچکا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر طہارت واجب کردی ہے جس کے اندر جنابت کی علامت کا وجوب ہوجائے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے (وان کنتم جنباً فاطھروا) (a) ایک دوسری آیت میں ارشاد ہوا۔ (لا تقربوا الصلوٰۃ وانتم سکاریٰ حتی تعلموا ماتقولون ولا جنبا الا عابری سبیل حتی تغتسلو، (a) جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جائو۔ نماز اس وقت پڑھنی چاہیے جب تم جانو کہ کیا کہہ رہے ہو اور اسی طرح جنابت کی حالت میں بھی نماز کے قریب نہ جائو جب تک کہ غسل نہ کرلو الا (a) یہ کہ راستے سے گزرتے ہو) ۔ نیز فرمایا (وینزل علیکم ماء ینظھرکم بہ ویذھب عنکم رجزا الشیطان، (a) اور تم پر پانی اتارتا ہے تاکہ اس کے ذریعے تمہیں پاک کردے اور تم سے شیطان کی گندگی دورکردے) ۔ روایت ہے کہ لوگوں کو جنابت لاحق ہوگئی اللہ تعالیٰ نے بارش برسائی جس کے ذریعے انہوں نے احتلام کے اثر کو دور کردیا۔ غسل جنابت میں جسم کے ہر اس حصے تک پانی پہنچانا فرض ہے جسے تطہیر کا حکم لاحق ہوتا ہے اس لئے کہ قول باری (فاطھروا) (a) میں عموم ہے۔ حضور ﷺ نے مسنون غسل کی کیفیت بیان فرمادی ہے۔ اس کی روایت ہمیں عبدالباقی بن قانع نے کی ہے۔ انہیں علی بن محمد بن عبدالملک نے، انہیں محمد بن مسدد نے، انہیں عبداللہ بن دائود نے اپنی خالہ حضرت میمونہ ؓ سے وہ کہتی ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کے لئے غسل جنابت کی خاطر پانی رکھا آپ نے اپنے دائیں ہاتھ پر برتن کو ٹیڑھا کیا اور دو یا تین دفعہ اسے دھویا۔ پھر بائیں ہاتھ سے اپنی شرمگاہ پر پانی ڈالا پھر زمین پر رگڑ کر دھولیا، پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور اپنا چہرہ اور دونوں ہاتھ دھوئے۔ پھر اپنے سر اور جسم پر پانی بہایا، پھر اس جگہ سے ہٹ کر اپنے پیر دھولئے میں نے آپ کو تولیہ پکڑایا، آپ نے تولیہ نہیں لیا اور جسم سے پانی جھاڑنا شروع کردیا۔ ہمارے اصحاب کے نزدیک بھی غسل جنابت کی یہی کیفیت ہے غسل جنابت میں وضو فرض نہیں ہے۔ اس لئے کہ قول باری ہے (وان کنتم جنبا فاطھروا) (a) جب جنابت والا شخص غسل کرلیتا ہے تو پاک ہوجاتا ہے اور آیت کے حکم سے بھی عہدہ برا ہوجاتا ہے۔ ارشاد باری ہے (الا تقربوا الصلوٰۃ وانتم سکاریٰ ) (a) تا قول باری (ولا جنبا الا عابری سبیل حتیٰ تغتسلوا) (a) اللہ تعالیٰ نے وضو کے بغیر غسل کی اباحت کردی۔ اس لئے جو شخص غسل کے باوجود اس کی صحت کے لئے وضو کی شرط عائد کرے گا وہ آیت کے اندر ایسی بات کا اضافہ کردے گا جو آیت کی جز نہیں ہے اور یہ بات کسی طرح بھی درست نہیں ہوتی جیسا کہ ہم اس پر کئی مقامات میں روشنی ڈال آئے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد ہے (واذا قمتم الی الصلوٰۃ فاغسلوا وجوھکم ) (a) تا آخر آیت۔ اس میں ان تمام لوگوں کے لئے عموم ہے جو نماز کے لئے اٹھیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جنابت والا انسان جب اپنا سارا جسم دھولے گا تو وہ اعضائے وضو کو بھی دھونے والا شمار ہوگا اور آیت کے حکم سے عہدہ برا ہوجائے گا۔ وہ وضو کرنے والا نیز غسل کرنے والا کہلائے گا۔ اگر اس نے غسل سے پہلے الگ سے وضو نہ بھی کیا تو غسل کے اندر اس کا وضو بھی ہوگیا اس لئے غسل کی صورت وضو سے زیادہ عام ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور ﷺ نے غسل سے پہلے وضو فرمایا تھا تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ آپ کا عمل استحباب پر دلالت کرتا ہے اور اس کی ترغیب دی گئی ہے اس لئے کہ آپ کا ظاہر فعل ایجاب کا مقتضی نہیں ہوتا۔ غسل جنابت میں کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کی فرضیت کے بارے میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد ، زفر، لیث بن سعد اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ اس غسل میں یہ دونوں باتیں فرض ہیں۔ امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ یہ فرض نہیں ہیں۔ قول باری (وان کنتم جنبا فاطھروا) (a) جسم کے ان تمام حصوں کی تطہیر کے ایجاب کے لئے عموم ہے جنہیں تطہیر کا حکم لاحق ہوتا ہے اس لئے ان میں سے کسی حصے کو چھوڑ دینا جائز نہیں ہوگا۔ اگر یہ کہا جائے گا کہ جو شخص کلی نہ کرے اور نہ ناک میں پانی ڈالے اور اس کے بغیر غسل کرلے وہ طہارت حاصل کرنے والا کہلائے گا اور آیت نے اس پر جو عمل فرض کیا تھا اسے پورا کرنے والا شمار ہوگا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس صورت میں وہ اپنے جسم کے بعض حصوں کو پاک کرلینے والا کہلائے گا پورے جسم کو پاک کرنے والا نہیں شمار ہوگا۔ جبکہ آیت کا عموم پورے جسم کی تطہیر کا مقتضی ہے۔ اس لئے جسم کے بعض حصوں کو پاک کرکے وہ لفظہ کے عموم کے موجب پر عمل کرنے والا نہیں بنے گا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ قول باری (اقتلوا المشرکین، (a) مشرکین کو قتل کرو) تمام مشرکین کے لئے عموم ہے اگرچہ مشرکین کا اسم صرف تین مشرکوں کو شامل ہے اس لئے کہ جمع کے اسم کا اطلاق کم از کم تین پر ہوتا ہے یہی کیفیت قول باری (فاطھروا) (a) کی بھی ہے جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں۔ جس طرح یہ جائز نہیں کہ کوئی شخص مشرکین سے قتال کے سلسلے میں صرف تین مشرکوں سے نبرد آزما ہوجائے اور صرف تین میں ہی آیت کے حکم کو اس بنا پر منحصر سمجھے کہ مشرکین کا اسم جمع صرف تین کو ہی شامل ہوتا ہے۔ یہ اس لئے جائز نہیں کہ عموم تمام مشرکین کو شامل ہے۔ اسی طرح قول باری (فاطھروا) (a) بھی پورے جسم کی طہارت کے لئے عموم ہے اس لئے جسم کے بعض حصوں پر اقتصار کرلینا جائز نہیں ہوگا۔ اگر یہ کہا جائے کہ قول باری (ولا جنبا الا عابری سبیل حتی تغتسلوا) (a) مضمضہ اور استنشاق کے بغیر غسل کے جواز کا مقتضی ہے کیونکہ اس طرح غسل کرنے والے پر مغتسل کے اسم کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ جب قول باری (فاطھروا) (a) منہ اور ناک کے اندرونی حصوں کی تطہیر کا مقتضی ہے تو ہم پر یہ واجب ہے کہ ان دونوں آیتوں پر اس آیت کے تحت عمل پیرا ہوں جس کا حکم زیادہ عام اور جس کا فائدہ زیادہ وسیع ہو۔ یہ بات جائز نہیں کہ ان دونوں پر اس آیت کے تحت عمل کیا جائے جس کا حکم زیادہ خاص ہو اس لئے کہ اس صورت میں کسی دلالت کے بغیر تخصیص لازم آئے گی۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جو شخص کلی کرلے اور ناک میں پانی ڈال لے وہ بھی مغتسل نہا لینے والا کہلائے گا اس لئے پہلی آیت میں اغتسال کے ذکر سے دوسری آیت (وان کنتم جنب فاطھروا (a) کے مقتضی کی نفی نہیں ہوتی۔ سنت کی جہت سے بھی اس پر دلالت ہوتی ہے۔ حارث بن وجیہ نے مالک بن دینار سے روایت کی ہے انہوں نے محمد بن سیرین سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (تحت کل شعرۃ جنابۃ فبلوا الشعروانقوا البشرۃ (a) ہر بال کے نیچے ناپاکی ہے اس لئے بالوں کو تر کروا ور جلد کی سطح کو صاف کرو) ۔ حماد بن سلمہ نے عطا بن السائب سے روایت کی ہے۔ انہوں نے زاذان سے ، انہوں نے حضرت علی ؓ سے کہ حضور ﷺ نے فرمایا (من ترک موضع شعرۃ من جنابۃ لم یغسلھا فعل بھا کذا وکذا من الثار، (a) جس شخص نے غسل جنابت کے اندر بال بھر جگہ بھی دھوئے بغیر چھوڑ دی ہو جہنم کی آگ میں اس جگہ کو فلاں فلاں سزا دی جائے گی حضرت علی ؓ فرماتے ہیں : ” یہی وجہ ہے کہ مجھے اپنے بالوں سے دشمنی ہوگئی ہے۔ “ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں احمد بن النضر بن بحر اور احمد بن عبداللہ بن سابور العمری نے ، ان سب کو برکۃ بن محمد الحلبی نے ، انہیں یوسف بن اسباط نے سفیان ثوری سے ، انہوں نے خالد الحذاء سے، انہوں نے ابن سیرین سے ، انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ حضور ﷺ نے جنبی کے لئے تین مرتب کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا فرض قرار دیا۔ حضور ﷺ کا ارشاد (تحت کل شعرۃ جنابۃ فبلوا الشعر وانقوا البشرۃ، (a) دو وجوہ سے ہمارے قول پر دلالت کررہا ہے۔ ایک تو یہ کہ ناک میں بال بھی ہوتے ہیں اور جلد بھی جبکہ منہ میں صرف جلد ہوتی ہے اس لئے حدیث ناک اور منہ کے اندرونی حصوں کو دھونے کے وجوب کی مقتضی ہے۔ حضرت علی ؓ کی روایت بھی ناک کے اندرونی حصے کے دھونے کو واجب کرتی ہے اس لئے کہ ناک کے اندر بال ہوتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ آنکھ میں بھی تو بال ہوتے ہیں تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ایسا شاذو نادر ہوتا ہے جبکہ حکم کا تعلق ان باتوں کے ساتھ ہوتا ہے جو زیادہ عام اور اکثر پیش آنے والی ہوں شاذو نادر چیزوں کے ساتھ حکم کا تعلق نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں ہم نے اس حکم سے اجماع کی بنا پر آنکھوں کی تخصیص کردی ہے۔ تاہم تخصیص کی وجہ دلالت پر بحث کرنا دراصل زیر بحث مسئلے سے باہر نکل جانے کے مترادف ہے۔ دوسری طرف جب تک تخصیص کی دلالت قائم نہیں ہوجاتی اس وقت تک حکم کا عموم اپنی جگہ محفوظ رہے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت ابن عمر ؓ غسل جنابت کرتے وقت اپنی آنکھوں میں پانی ڈالا کرتے تھے تو اس کے جو ابب میں کہا جائے گا کہ آپ کا فعل وجوب کے طور پر نہیں ہوتا تھا۔ طہارت کے معاملے میں تکلیفیں جھیلنے کے عادی تھے مثلاً آپ ہر نماز کے لئے وضو کرتے تھے اور اسی طرح احتیاطاً بہت سے دوسرے افعال کرتے ، وجوب کے طور پر نہیں کرتے تھے۔ یوسف بن اسباط کی جس روایت کا ہم نے ذکر کیا ہے وہ مضمضہ اور استنشاق کی فرضیت کے ایجاب پر نص ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس روایت میں مذکور ہے کہ حضور ﷺ نے تین دفعہ کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کو فرض قرار دیا ہے جبکہ آپ اس کے قائل نہیں ہیں تو اس کے جواب میں کہاجائے گا کہ ظاہر حدیث تین دفعہ کی فرضیت کا مقتضی ہے لیکن دو دفعہ کی فرضیت کے سقوط پر دلالت قائم ہوچکی ہے اور لفظ کا حکم صرف ایک مرتبہ کے لئے باقی رہ گیا ہے۔ نظر اور قیاس کی جہت سے بھی اس پر اس طرح دلالت ہورہی ہے کہ غسل جنابت میں جسم کے ان ظاہر و باطن حصوں کو دھونا فرض ہے جنہیں تطہیر کا حکم لاحق ہوتا ہے۔ اس کی وجہ وہ دلالت ہے جو اس بات کی مقتضی ہے کہ نہانے والے پر اپنے بالوں کی جڑوں میں پانی پہنچانا فرض ہے اس لئے کہ نجاست لگنے کی صورت میں انہیں بھی تطہیر کا حکم لاحق ہوتا ہے۔ اس علت کی بنا پر منہ اور ناک کے داخلی حصوں کی تطہیر بھی نہانے والے پر لازم ہوگی۔ اگر یہ کہاجائے کہ اس علت کی بنا پر آنکھوں کے اندرونی حصے کی تطہیر بھی ضروری ہوگی تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر آنکھوں کے اندرونی حصے کو نجاست لگ جائے تو اس کی تطہیر لازم نہیں ہوتی۔ ابو الحسن اسی طرح کہا کرتے تھے نیز آنکھوں کے داخلی حصے میں بشرہ یعنی چمڑی اور جلد نہیں ہوتی جبکہ جنابت میں جلد کی تطہیر ضروری ہوتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب آنکھوں کا داخلی حصہ آنکھوں کا باطن ہے اور غسل جنابت میں اس کی تطہیر ضروری نہیں ہوتی تو اس سے یہ لازم ہوگیا کہ منہ اور ناک کے اندرونی حصوں کی تطہیر بھی ضروری اور فرض قرار نہ دی جائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آنکھوں کا باطن کہاں سے بن گیا۔ اگر معترض باطن سے وہ حصہ مراد لیتا ہو جس پر دو پلکیں بند ہوتی ہیں تو یہ بات بغلوں کی صورت میں بھی پائی جاتی ہے اسی لئے بغل کا حصہ وہ ہوتا ہے جس پر بازو جسم کے بالمقابل حصے سے چپکا ہوا ہوتا ہے اور غسل جنابت میں ان کی تطہیر کے لزوم میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ ہم نے غسل جنابت میں مضمضہ اور استنشاق کو واجب قرار دیا ہے۔ اس سے ہم پر وضو میں بھی ان کے ایجاب کا لزوم عائد نہیں ہوتا اس کی وجہ یہ ہے کہ ایجاب وضو کی آیت صرف چہرہ دھونے کی مقتضی ہے اور چہرہ اس حصے کو کہتے ہیں جو تمہارے سامنے آتا ہو اس لئے چہرہ دھونے کا حکم منہ اور ناک کے اندرونی حصوں کو شامل نہیں ہے۔ جبکہ غسل جنابت کی آیت نے پورے جسم کی تطہیر لازم کردی ہے اور اس میں کوئی تخصیص نہیں کی ہے اس لئے ہم نے ان دونوں آیتوں پر اسی طرح عمل کیا جس طرح یہ وارد ہوئی تھیں۔ نظر اور قیاس کی جہت سے ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ وضو میں ظاہر کا دھونا فرض ہے۔ باطن کا نہیں اس کی دلالت یہ ہے کہ وضو میں ہم پر بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچانا لازم نہیں ہوتا اس لئے منہ اور ناک کے اندرونی حصوں کی تطہیر لازم نہیں۔ جبکہ جنابت میں بشرہ یعنی چمڑی اور جلد کے باطن کی تطہیر بھی ضروری ہوتی ہے اس کی بنیاد اس دلالت پر ہے کہ اس پر بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچانا لازم ہوتا ہے۔ اس بنیاد پر ہم حضور ﷺ کے اس قول (عشر من الفطرۃ خمس فی الراس وخمس فی البدن، (a) دس باتیں سنت میں سے ہیں، پانچ سر میں اور بقیہ پانچ پورے جسم میں ہیں) کی تاویل کرتے ہیں آپ نے سر والی پانچ باتوں میں مضمضہ اور استنشاق کا ذکر کیا ہے۔ ہم اس قول کو طہارت صغریٰ یعنی وضو میں اس پر محمول کرتے ہیں کہ یہ مسنون ہیں اور وضو اور غسل جنابت کے درمیان اسی بنا پر فرق کرتے ہیں۔ واللہ اعلم۔ تیمم کا بیان قول باری ہے (وان کنتم مرضی او علیٰ سفر اوجآء احد منکم من الغائط اولمستم النساء فلم تجدوا ماء فتیمموا صعیداً طیباً ، (a) اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی رفع حاجت سے آیا ہو تم نے عورتوں کا لمس کیا ہو تو پاک مٹی سے تیمم کرلو) ۔ یہ آیت اس مریض کے حکم پر جسے پانی استعمال کرنے کی صورت میں نقصان کا اندیشہ ہو اور اس مسافر کے حکم پر مشتمل ہے جسے پانی نہ ملے اور جنابت یا حدث لاحق ہوجائے۔ اس لئے کہ قول باری (اوجآء احد منکم من الغائط) (a) میں حدث کے حکم کا بیان ہے کیونکہ غائط پست زمین کا نام ہے جہاں لوگ رفع حاجت کے لئے جاتے تھے۔ اس لئے یہ لفظ حدث سے کنایہ ہوگا اور قول باری (اولمتم النسآء) (a) پانی نہ ملنے کی صورت میں جنابت کے حکم کو بیان کرتا ہے انشاء اللہ ہم اس استدلال پر مزید روشنی ڈالیں گے۔ ظاہر قول باری (ان کنتم مرضیٰ ) (a) اپنے عموم کی بنا پر تمام مریضوں کے لئے تیمم کی اباحت پر دلالت کرتا اگر بعض مریض مراد لینے پر دلالت قائم نہ ہوجاتی چناچہ حضرت ابن عباس ؓ اور تابعین کی ایک جماعت سے مروی ہے کہ اس سے چیچک میں مبتلا مریض اور ایسے مریض مراد ہیں جن کے لئے پانی کا استعمال نقصان دہ ہوتا ہے۔ تاہم اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جس مریض کو پانی کا استعمال نقصان نہ پہنچائے پانی کی موجودگی میں اس کے لئیح تیمم مباح اور جائز نہیں ہے مریض کے لئے تیمم کی اباحت اس مفہوم کو متضمن نہیں ہے کہ پانی موجود نہ ہو بلکہ اس مفہوم کو متضمن ہے کہ پانی کے استعمال سے اسے ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کردیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ (وان کنتم مرضیٰ او علیٰ سفر اوجآء احد منکم من الغائط اولمستم النساء فلم تجدوا مآء فتیمموا) ۔ (a) اللہ تعالیٰ نے پانی کی عدم موجودگی کی شرط لگائے بغیر مریض کے لئے تیمم کی اباحت کردی۔ پانی کی عدم موجودگی دراصل مسافر کے لئے شرط ہے مریض کے لئے نہیں۔ اس لئے کہ اگر پانی کی عدم موجودگی کو مریض کے لئے تیمم کی اباحت کی شرط قرار دی جائے تو اس کے نتیجے میں مریض کے ذکر کا فائدہ ساقط ہوجائے گا اس لئے کہ اگر پانی کی عدم موجودگی مریض اور مسافر کے لئے تیمم کی اباحت اور نماز کے جواز کی علت ہوتی تو پانی کی عدم موجودگی کے ذکر کے ساتھ مریض کے ذکر کا کوئی فائدہ نہ ہوتا کیونکہ تیمم کی اباحت اور اس کی ممانعت کے سلسلے میں بیماری کو کوئی دخل نہ ہوتا اس لئے کہ تیمم کی اباحت کا حکم اس صورت میں پانی کی غیر موجودگی کے ساتھ متعلق ہوتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب پانی کی عدم موجودگی کے ساتھ سفر کی حالت کا ذکر جائز ہوگیا اگرچہ تیمم کے حکم کا تعلق سفر کے ساتھ نہیں بلکہ پانی کی عدم موجودگی کے ساتھ ہے اس لئے کہ مسافر کو پانی ملنے کی صورت میں تیمم کرنا جائز نہیں ہوتا تو اس میں پھر کوئی امتناع نہیں کہ مریض کے لئے تیمم کی اباحت پانی کی عدم موجودگی کی حالت پر موقوف کردی جائے گی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا مسافر کا صرف اس لئے ذکر ہوا کہ عام حالات اور اکثر اوقات کے اندر سفر میں پانی معدوم ہوتا ہے۔ اس لئے سفر کا ذکر دراصل اس حالت کا اظہار ہے جس میں اکثر اوقات اور عام حالات میں پانی موجود نہیں ہوتا۔ جس طرح حضور ﷺ کا یہ ارشاد ہے (لاقطع فی الثمر حتی یاویہ الجرین۔ (a) جب تک درخت کا پھل کھلیان میں نہ پہنچ جائے اس وقت تک اسے چرانے پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ آپ کے ارشاد کا مقصد یہ نہیں ہے کہ اگر یہی پھل کسی کوٹھڑی یا مکان کے احاطے میں رکھ دیئے جائیں تو ان کا حکم بھی یہی ہوگا۔ بلکہ آپ کا مقصد یہ ہے کہ درخت میں لگے ہوئے پھل پختگی کی حالت کو پہنچ جائیں۔ کھانے کے قابل ہوجائیں اور جلد خراب نہ ہوسکتے ہوں اور پھر وہ محفوظ مقام پر پہنچا دیئے جائیں۔ کھلیان ان کے لئے محفوظ مقام ہوتا ہے اس لئے آپ نے اس کا ذکر کردیا۔ یا جس طرح آپ کا یہ ارشاد ہے (فی خمس وعشرین بنت مخاض (a) پچیس اونٹوں کی زکوٰۃ میں ایک بنت مخاض دی جائے گی) آپ کی اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ اونٹنی کا جو مادہ بچہ زکوٰۃ میں دیا جائے اس کی ماں کو درد زہ ہو اور وہ بچہ جننے والی ہو بلکہ اس سے آپ کی مراد یہ ہے کہ اس مادہ بچے کا ایک سال پورا ہوچکا ہو اور اس وقت وہ دوسرے سال میں ہو۔ چونکہ عام حالات میں دوسرے سال کے دوران اس بچے کی ماں دوسرا بچہ جننے والی ہوتی ہے اس لئے آپ نے بنت مخاض کے لفظ سے اس کی تعبیر کی۔ اسی طرح زیر بحث آیت میں پانی کی غیر موجودگی کے ساتھ مسافر کے ذکر کا وہ فائدہ ہے جس کی طرف ہم نے درج بالا سطور میں اشارہ کیا ہے۔ مریض کے ساتھ یہ بات نہیں ہوتی کیونکہ پانی کی عدم موجودگی کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس لئے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ اس سے مراد وہ ضرر اور نقصان ہے جو پانی کے استعمال کی وجہ سے مریض کو پہنچ سکتا ہے۔ آیت کے لفظ کا عموم مریض کے لئے ہر حالت میں تیمم کے جواز کا مقتضی ہوتا۔ اگر سلف سے یہ مروی نہ ہوتا اور اس پر فقہاء کا اختلاف نہ ہوتا کہ ایسی بیماری جس کے ہوتے ہوئے پانی کا استعمال نقصان دہ نہیں ہوتا۔ اس میں مریض کے لئے تیمم جائز نہیں ہوتا ہے اسی بنا پر امام ابو خنیفہ اور امام محمد کا قول ہے کہ جس شخص کو غسل کرنے کی صورت میں ٹھنڈ لگ جانے کا خدشہ ہو اسے تیمم کرلینا جائز ہے۔ کیونکہ ایسے شخص کو ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ حضرت عمرو بن العاص ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے پانی موجود ہونے کے باوجود ٹھنڈ لگ جانے کے خدشے کے پیش نظر تیمم کرلیا تھا۔ حضور ﷺ نے بھی ان کے اس فعل کو جائز قرار دیا تھا اور اس کی تردید نہیں فرمائی تھی۔ فقہاء اس پر متفق ہیں کہ سفر کی حالت میں ٹھنڈ لگ جانے کے اندیشے کے پیش نظر پانی موجود ہونے کے باوجود مسافر کو تیمم کرلینے کی اجازت ہے۔ اس لئے قیام کی حالت میں بھی اسی حکم کا ہونا واجب ہے کیونکہ اس حالت میں بھی وہ علت موجود ہوتی ہے جو سفر کی حالت میں تیمم کی اباحت کا سبب بنتی ہے اور جس طرح سفر ار حضر کے اندر بیماری کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہوتا اسی طرح ٹھنڈ کی وجہ سے پانی کے استعمال کی صورت میں ضرر پہنچنے کے اندیشے کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے۔ قول باری (او جآء احدکم من الغائط) (a) میں حرف اوحرف وائو کے معنوں میں ہے۔ عبارت کی ترتیب کچھ اس طرح ہوگی ” وان کنتم مرضی او علی سفر وجاء احدمنکم من الغائط “ (a) (اور اگر تم بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو اور تم میں سے کوئی رفع حاجت کرکے آیا ہو) یہ بات مریض اور مسافر کی طرف راجع ہوگی جس وقت انہیں حدث لاحق ہوگیا ہو اور نماز کا وقت بھی آپہنچا ہو۔ ہم نے قول باری (اوجآء احدکم من الغائط) (a) میں حرف آئو کو حرف وائو کے معنوں میں اس لئے لیا ہے کہ اگر یہ معنی نہ لیے جائیں تو رفع حاجت سے آنے والا شخص مریض اور مسافر کے علاوہ تیسرا شخص ہوگا۔ اس صورت میں مریض اور مسافر پر وجوب طہارت کا تعلق حدث نہیں ہوگا جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ مریض اور مسافر کو تیمم کا حکم صرف اس وقت ملتا ہے جب انہیں حدث لاحق ہوچکا ہو۔ اس بنا پر یہ ضروری ہے کہ قول باری (اوجآء) (a) ” وجاء احدمنکم “ (a) کے معنی میں لے لیا جائے جس طرح یہ قول باری ہے (وارسلنٰہ الی ما ئۃ الف او یزیدون، (a) اور ہم نے اسے ایک لاکھ یا اس سے زائد کی طرف رسول بناکر بھیجا) یہاں لفظ او حرف وائو کے معنوں میں ہے یعنی ” ویزیدون “۔ (a) اسی طرح قول باری ہے (ان یکن غنیا او فقیرا فاللہ اولی بھما، (a) اگر وہ غنی یا فقیر ہو تو اللہ ان کا تم سے بڑھ کر خیال رکھنے والا ہے) اس کے معنی ہیں ” غنیا وفقیرا “ (a) ۔ قول باری ہے (اولمستم النسآء فلم تجدوا مآء فتیممو صعیداً طیباً ) (a) آیت میں ذکر شدہ لفظ ملامست کے معنی کے تعین میں سلف کے درمیان اختلاف رائے ہے حضرت علی ؓ ، حضرت ابن عباس ؓ ، حضرت ابو موسیٰ ؓ ، حسن بصری، عبیدہ اور شعبی کا قول ہے کہ یہ لفظ جماع اور ہمبستری سے کنایہ ہے۔ یہ حضرات اس شخص پر وضو لازم نہیں کرتے جو اپنی بیوی کو لمس کرلیتا ہے۔ حضرت عمر ؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ کے نزدیک اس سے لمس بالید یعنی ہاتھ لگانا مراد ہے یہ دونوں حضرات عورت کو ہاتھ لگانے پر وضو واجب کردیتے تھے اور جنبی کے لئے تیمم کے قائل نہیں تھے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ صحابہ میں سے جو حضرات ملامست سے جماع مراد لیتے ہیں وہ عورت کو ہاتھ لگانے پر وضو واجب نہیں کرتے اور جو حضرات اس سے ہاتھ لگانا مراد لیتے ہیں وہ عورت کو ہاتھ لگانے پر وضو واجب کردیتے ہیں اور جنابت کی حالت میں تیمم کے قائل نہیں ہیں۔ اس بارے میں فقہاء کے درمیان بھی اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ ، امام ابو یوسف ، امام محمد ، زفر، سفیان ثوری اور اوزاعی کا قول ہے کہ مس مراۃ یعنی عورت کو ہاتھ لگانے پر وضو واجب نہیں ہوتا خواہ شہوت کے تحت ہاتھ لگایا گیا ہو یا شہوت کے بغیر۔ امام مالک کا قول ہے کہ شہوت کے تحت لذت اندوزی کی خاطر ہاتھ لگانے پر وضو واجب ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر بیوی سے یہ کہے گا کہ تیرے بالوں کو طلاق تو بیوی پر طلاق واقع ہوجائے گی۔ حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر کسی نے شہوت میں آکر اپنی بیوی کا بوسہ لے لیا تو اس پر وضو واجب ہوگا۔ اگر اس نے شہوت کے بغیر ایسا کیا ہو تو اس پر وضو لازم نہیں ہوگا لیث بن سعد کا قول ہے اگر شوہر نے لذت اندوزی کی خاطر کپڑوں کے اوپر سے بھی بیوی کو مس کرلیا ہو تو اس پر وضو کرنا لازم ہوگا۔ امام شافعی کا قول ہے کہ اگر کسی نے عورت کے جسم کو ہاتھ لگادیا ہو تو اس پر وضو لازم ہوجائے گا خواہ اس نے یہ کام شہوت میں آکر کیا ہو یا شہوت کے بغیر کیا ہو۔ اس بات کی دلیل کہ عورت کو ہاتھ لگانا خواہ جس صورت میں بھی ہو حدث کا موجب نہیں ہوتا۔ وہ روایت ہے جس کی راوی حضرت عائشہ ؓ ہیں اور مختلف طرق سے یہ روایت منقول ہے کہ حضور ﷺ نے اپنی بعض ازواج کی تقبیل کی پھر وضو کئے بغیر نماز ادا کرلی جس طرح یہ مروی ہے کہ آپ روزے کی حالت میں بھی ازواج مطہرات کی تقبیل کرلیتے تھے۔ یہ دونوں باتیں ایک ہی روایت میں منقول ہیں اس لئے اسے اس معنی پر محمول کرنا درست نہیں ہے کہ آپ اپنی بعض ازواج کی دو پٹے یا لباس کے اوپر سے تقبیل کرلیتے تھے ۔ اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ دلالت کے بغیر لفظ کو مجازی معنی پر محمول کرنا جائز نہیں ہوتا اس لئے کہ اس لفظ کے حقیقی معنی تو یہ ہیں کہ جب آپ نے تقبیل کی ہوگی تو جلد سے مس ہوا ہوگا۔ (آیت نمبر 6 کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں)
Top