Urwatul-Wusqaa - Al-Maaida : 8
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰهِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِ١٘ وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤى اَلَّا تَعْدِلُوْا١ؕ اِعْدِلُوْا١۫ هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى١٘ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) كُوْنُوْا : ہوجاؤ قَوّٰمِيْنَ : کھڑے ہونے والے لِلّٰهِ : اللہ کے لیے شُهَدَآءَ : گواہ بِالْقِسْطِ : انصاف کے ساتھ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ : اور تمہیں نہ ابھارے شَنَاٰنُ : دشمنی قَوْمٍ : کسی قوم عَلٰٓي : پر اَلَّا تَعْدِلُوْا : کہ انصاف نہ کرو اِعْدِلُوْا : تم انصاف کرو هُوَ : وہ (یہ) اَقْرَبُ : زیادہ قریب لِلتَّقْوٰى : تقوی کے وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ خَبِيْرٌ : خوب باخبر بِمَا : جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
اے مسلمانو ! ایسے ہوجاؤ کہ اللہ کے لیے مضبوطی سے قائم رہنے والے اور انصاف کے لیے گواہی دینے والے ہو اور ایسا کبھی نہ ہو کہ کسی گروہ کی دشمنی تمہیں اس بات کے لیے ابھار دے کہ انصاف نہ کرو ، انصاف کرو کہ یہی تقویٰ سے لگتی ہوئی ہات ہے اور اللہ سے ڈرو ، تم جو کچھ کرتے ہو وہ اس کی خبر رکھنے والا ہے
پچھلا سبق یاد ہے تو ” چشم ماروشن دل ماشاد “ ورنہ ورق گردانی کرو : 54: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰهِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِٞ تک آیت حصہ پیچھے گذر چکا ہے ۔ تفسیر دیکھنا مطلوب ہو تو عروۃ الوثقیٰ جلد دوم تفسیر سورة النساء آیت 135 دیکھ لو۔ یہ بات قبل ازیں کئی دفعہ عرض کی گئی ہے کہ کسی ایک آیت کا بار بار نزول بےمقصد اور اضاعت نہیں بلکہ حالات کو ساتھ ساتھ مطلع کرنا مقصود تھا ۔ اب مسلمانوں کی حالت بدل چکی ہے اور ان کے جان و مال کے نہایت ظالم اور بےرحم دشمن ان کے سامنے پیش آنے والے ہیں ایسے وقت میں ان کی اس آیت میں دوبارہ راہنمائی فرمادی کہ کہیں تم جوش غضب میں زیادتی کرنے والوں پر زیادتی نہ شروع کردو اگر ایسا کیا تو کیا فق رہا ان میں اور تم میں ؟ ایسے حالات میں اپنے آپ کو قابو میں رکھنا ہر فرد وبشر کا کام نہیں اس لئے ان ٹائم ان کو یاد دلایا کہ کہیں بتایا ہوا سبق بھول نہ چکے ہوں۔ اس لئے فرمایا کہ ” اللہ کے حکم کے لئے مضبوطی سے قائم رہنے والے اور انصاف کے لئے گواہی دینے والے بن جاؤ ۔ حق وعدل کی راہ میں سب سے بڑا فتنہ وہی ہے جس کو انتقامی کا رروائی کہا جاتا ہے : 55: فرمایا کہ کسی قوم کی دشمنی اور اس کا غلط سے غلط رویہ بھی تم کو اس حق و عدل سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ شیطان نے راہ حق سے گمراہ کرنے کے لئے سب سے زیادہ جس حربے سے کام لیا ہے وہ یہی ہے۔ نبی اسرائیل نے محض بنی اسماعیل کی دشمنی میں تمام عہد و پیمان کو خال میں ملا دیا جس کے وہ گواہ اور ذمہ دار بنائے گئے تھے اس وجہ سے مسلمانوں سے یہ عہد لیا گیا کہ وہ شیطان کے اس فتنے سے بچ کر رہیں اور دوستوں اور دشمنوں دونوں کے لئے ان کے پاس ایک ہی بات اور ایک ہی ترازو رہے۔ آیت کا یہ ٹکڑا اس سورت کی آیت نمبر 2 میں بھی گزر چکا ہے اگر چاہوں تو اس مقام کو بھی ملاحظہ کرلو اور یہ بات بھی نظر میں رکھو کہ ہمارے مذہبی راہنماؤں نے اس سوال کو کہاں تک یا درکھا ہے اور اس سے کیا سبق حاصل کیا ہے ؟ سیاست کا مرکز ثقل تو ویسے ہی مذہب سے الگ قرار دے لیا گیا ہے اس لئے وہ ان پابندیوں سے آزاد ہے جب موجودہ سیاست دانوں میں انسانیت ہی موجود نہیں تو مذہب تو بہر حال انسانوں کے لئے ہے خواہ وہ کوئی مذہب ہی کیوں نہ ہو۔ عدل و انصاف سے کام لینے کی تاکید مزید کے ساتھ تقویٰ اختیار کرنے کا حکم : 56: خبردار ! کسی قیمت پر بھی عدل و انصاف کا دامن تمہارے ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے اور حقیقت یہ ہے کہ کوئی قوم حکومت اور تحت سلطنت کی مستحق اس وقت تک ہی رہتی ہے جب تک وہ صفت عدل سے متصف ہو جس قوم نے ظلم پر کمر باندھ لی وہ آج نہیں تو کل ضرور اس نعمت سے محرور کردی جائے گی۔ اس وقت دنیا میں ہر طرف ظلم ہی ظلم ہے اور ظلم کیوں ہے ؟ اس لئے کہ ہر طرف ظالم ہی ظالم موجود ہیں تاہم سارے طالموں سے بڑھ کر ظالم اور سارے ظلموں سے بڑھ کر ظلم وہ ہے جو مذہب کا نام لے کر اپنے ہی مذہب پر ظلم کرے اور قوم کا نام لے کر اپنی ہی قوم پر ظلم کا مرتکب ہو۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے کا قریبی راستہ یہ ہے کہ انسان عدل و انصاف کو اپنا شعار بنائے رکھے۔ امام رازی ؓ فرماتے ہیں کہ جب کفار کے ساتھ عدل کرنے کا یہ تاکیدی حکم ہے تو مسلمانوں کے ساتھ عدل کرنے کی اہمیت محتاج بیان نہیں ہو سکتی ۔ جہاں عدل اٹھ گیا تو تقویٰ کا وہاں کیا کام ؟
Top