Tafseer-e-Mazhari - An-Najm : 39
وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰىۙ
وَاَنْ لَّيْسَ : اور یہ کہ نہیں لِلْاِنْسَانِ : انسان کے لیے اِلَّا مَا سَعٰى : مگر جو اس نے کوشش کی
اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے
وان لیس للانسان الا ماسعٰی . اور یہ کہ (ایمان کے بارے میں) انسان کو صرف اپنی ہی کمائی ملے گی۔ وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاَنْسَانِ..... یعنی ہر انسان کو اس کی کوشش کا معاوضہ ملے گا۔ نہ دوسرے کے گناہ کی سزا اس کو ملے گی ‘ نہ دوسرے کی نیکی کا ثواب اس کو حاصل ہوگا۔ امام شافعی (رح) نے فرمایا : ” کسی کو دوسرے کی کی ہوئی نیکی کا ثواب نہیں ملے گا ‘ اس قول کی دلیل یہی آیت ہے۔ “ امام ابوحنیفہ ‘ امام مالک ‘ امام احمد اور تمام علمائے سلف و خلف (رحمہم اللہ تعالیٰ ) کا قول امام شافعی کے قول کے خلاف ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ‘ آیت : وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاَنْسَانِ..... دوسری آیت : اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتُھُمْ ذُرِّیَّتُھُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَابِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ.... سے منسوخ ہے۔ عکرمہ کا قول ہے کہ آیت مذکورہ کا حکم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ کی امتوں کے لیے مخصوص تھا۔ امت اسلامیہ کو تو اپنے کئے ہوئے نیک اعمال کا بھی ثواب ملے گا اور ان نیکیوں کا بھی جو انکے لیے دوسرے کریں۔ ربیع بن انس نے کہا : آیت میں انسان سے مراد کافر انسان ہے ‘ یہ قول غلط ہے۔ کافر کو تو (آخرت میں) اپنی کی ہوئی نیکیوں کا ثواب بھی نہیں ملیگا۔ بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ لِلْاَنْسَان میں لام بمعنی علیٰ ہے۔ یعنی انسان کے لیے صرف اسی کا برا عمل ضرر رساں ہوگا۔ اس مطلب پر یہ آیت سابق آیت کی تفسیر ہوجائے گی اور عطف تفسیری ہوگا۔ جمہور کے نزدیک دوسروں کے اچھے اعمال کا ثواب بھی انسان کو پہنچ سکتا ہے۔ اس کی دلیل اجماع امت بھی ہے اور مندرجہ ذیل احادیث بھی۔ ابو نعیم نے لکھا ہے کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ نے فرمایا : میں نے خود رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا تھا کہ اللہ جب اپنے مؤمن بندے کی روح قبض کرلیتا ہے تو دو فرشتے اس کو آسمان تک چڑھا کرلے جاتے ہیں اور عرض کرتے ہیں : اے ہمارے ربّ ! تو نے ہم کو اس مؤمن کے اعمال لکھنے کا ذمہ دار بنایا تھا۔ اب تو نے اس کو اپنے پاس بلا لیا۔ ہم کو اجازت عطا فرما کہ ہم زمین میں جا کر رہیں۔ اللہ فرماتا ہے : میری زمین تو میری مخلوق سے بھری پڑی ہے جو میری پاکی بیان کرتی ہے۔ اب تم دونوں جا کر میرے (اس) بندے کی قبر پر قیام کرو اور میری تسبیح و تہلیل اور تکبیر میں قیامت تک مشغول رہو اور اس کا ثواب میرے (اس) بندے کے لیے لکھ دو ۔ مسلم نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے ‘ مگر تین چیزیں (ہیں کہ ان کا سلسلہ جاری رہتا ہے) صدقہ جاریہ۔ وہ علم جس سے نفع حاصل کیا جائے (مثلاً دینیات کا درس ‘ تصنیفات وغیرہ) یا صالح اولاد جو اس (میت) کے لیے دعا کرے۔ اسی طرح امام احمد نے حضرت ابو امامہ کی روایت سے بھی یہ حدیث نقل کی ہے۔ صدقۂ جاریہ اور علم نافع اگرچہ انسان کی اپنی کوشش کا نتیجہ ہوتا ہے لیکن نیک اولاد کی دعا میں انسان کے اپنے عمل کو کوئی دخل نہیں اس کے باوجود اس دعا کا نتیجہ اس کو ملتا ہے۔ طبرانی (رح) نے حضرت ابوہریرہ ؓ اور حضرت ابوسعید ؓ کی مرفوع روایت بیان کی ہے کہ اللہ جنت کے اندر نیک بندے کے درجہ کو اونچا کر دے گا۔ بندہ عرض کرے گا : اے میرے ربّ ! میرے اس درجہ کی بلندی کیسے ہوئی ؟ اللہ فرمائے گا : تیرے بیٹے نے تیرے لیے مغفرت کی دعا کی تھی۔ (اس کی وجہ سے) تیرا درجہ بلند کردیا گیا۔ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قبر کے اندر مردہ ایسا ہوتا ہے جیسا کوئی ڈوبتا آدمی ہوتا ہے۔ باپ یا ماں یا اولاد یا کسی معتمد دوست کی دعا کا انتظار کرتا رہتا ہے کہ کسی کی دعا اس کو پہنچ جائے۔ جب دعا اس کو پہنچ جاتی ہے تو وہ دنیا ومافیہا سے اس کو زیادہ پیاری ہوتی ہے اور زمین کے باشندوں کی دعا سے اللہ قبر والوں کے لیے پہاڑوں جیسا (ثواب) قبروں کے اندر پہنچا دیتا ہے۔ مردوں کے لیے زندوں کا ہدیہ استغفار ہے۔ (رواہ البیہقی والدیلمی) طبرانی نے الاوسط میں مرفوع حدیث بیان کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : میری امت ‘ مرحومہ امت ہے۔ گناہ اپنے ساتھ لے کر قبروں میں جائے گی اور قبروں سے بےگناہ ہو کر نکلے گی ‘ مؤمن اس کے لیے دعائے مغفرت کریں گے۔ جس کی وجہ سے وہ گناہوں سے خالص (پاک) ہوجائے گی۔ سیوطی کا قول ہے کہ متعدد لوگوں نے اس بات پر اجماع کا ہونا بیان کیا ہے کہ (زندوں کی) دعا سے مردوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ اس کی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے ‘ اللہ نے فرمایا ہے : وَالَّذِیْنَ جَآءُ وْا مِنْ بَعْدِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا باِلْاِیْمَانِ ۔ مَیں کہتا ہوں ‘ یہ امر ظاہر ہے کہ زندوں کی دعا سے مردوں اور زندوں ‘ دونوں کو فائدہ پہنچتا ہے اور یہ بات صرف اسی امت کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ حضرت نوح ( علیہ السلام) نے دعا کی تھی : رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مَؤْمِنًا وَّ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے آذر سے فرمایا تھا : سَاَسْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیْٓاِنَّہٗ کَانَ بِیْ حَفِیًّا۔ حضرت یوسف ( علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں سے فرمایا تھا : لاَ تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللہ لَکُمْ ۔ حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے بھائیوں نے اپنے باپ سے درخواست کی تھی : یٰٓاَ اَبَتِ اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا اِنَّا کُنَّا خَاطِءِیْنَ. قَالَ سَوْفَ اَسْتَغْفِرُلَکُمْ رَبِّیْ اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ۔ حضرت موسیٰ نے کہا تھا : رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَلِاَخِیْ وَاَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِکَ ۔ صحیح قول یہ ہے کہ صحف ابراہیم و موسیٰ میں جو لَّیْسَ لِلْاَنْسَان الاَّ مَا سَعٰی کا حکم تھا ‘ اس سے مراد یہ ہے کہ نماز ‘ روزہ ‘ صدقہ ‘ حج اور تمام نیکیوں کا ثواب صرف کرنے والے کو ملے گا ‘ دوسرے کو نہیں پہنچے گا۔ لیکن یہ حکم امت موسیٰ و ابراہیم کے لیے مخصوص تھا ‘ امت اسلامیہ مرحومہ کے لیے اس حکم کو منسوخ کردیا گیا اور آیت : اَلْحَقْنَابِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ اس کی ناسخ ہے۔ حضرت عائشہ ؓ راوی ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ﷺ میری ماں بغیر کچھ وصیت کیے اچانک مرگئی اور میرا غالب خیال ہے کہ اور وہ بات کرسکتی تو کچھ خیرات کرتی ‘ اب اگر میں اس کی طرف سے کچھ خیرات کروں تو کیا اس کو ثواب پہنچے گا ؟ فرمایا : ” ہاں “۔ (متفق علیہ) حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ کی غیر حاضری میں ان کی ماں کا انتقال ہوگیا۔ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! ﷺ میری ماں کا انتقال ہوگیا۔ میں موجود نہ تھا اگر اس کی طرف سے میں کچھ خیرات کر دوں تو کیا اس کو کچھ فائدہ پہنچے گا ؟ فرمایا : ہاں۔ سعد ؓ نے عرض کیا : تو میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میرا باغ میری ماں کی طرف سے خیرات ہے۔ (رواہ البخاری) امام احمد (رح) اور چاروں اصحاب السنن نے لکھا ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ ؓ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ﷺ ‘ میری والدہ کا انتقال ہوگیا ‘ اب اس کے لیے کونسی خیرات سب سے بہتر ہوگی ؟ فرمایا : پانی ........ یہ فرمان سن کر حضرت سعد ؓ نے ایک کنواں کھدوایا اور کہا : یہ سعد کی ماں کے لیے ہے۔ طبرانی نے صحیح سند سے حضرت انس کی روایت سے بھی ایسی ہی حدیث نقل کی ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اگر تم میں سے کوئی شخص کوئی نفلی خیرات کرے تو ماں ‘ باپ کی طرف سے کرے ‘ اس خیرات کا ثواب اس کے ماں ‘ باپ کو ملے گا اور خود اس کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔ دیلمی نے حضرت معاویہ بن جندب کی روایت سے بھی ایسی ہی حدیث نقل کی ہے۔ حضرت انس کا بیان ہے ‘ میں نے خود رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ جس گھر میں کوئی مرجائے۔ پھر گھر والے اس کے لیے کچھ خیرات کریں تو جبرئیل ( علیہ السلام) نور کے ایک طباق میں اس کو لے کر میت کی قبر کے کنارے کھڑے ہو کر کہتے ہیں : اے گہری قبر والے ! یہ تحفہ ہے جو تیرے گھر والوں نے تجھے بھیجا ہے۔ اس کو لے ‘ لے۔ اس طرح وہ مردہ وہ تحفہ لے کر قبر میں جاتا ہے اور خوش ہوتا ہے لیکن اس کے برابر قبر والے جن کو کچھ نہیں بھیجا جاتا وہ غمگین ہوتے ہیں۔ (رواہ طبرانی فی الاوسط) حضرت ابن عمر ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص اپنے ماں ‘ باپ کی طرف سے حج کرتا ہے۔ اللہ دوزخ سے آزادی اس کے والدین کے لیے لکھ دیتا ہے اور ان کے لیے حج کامل ہوجاتا ہے لیکن حج کرنے والے کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہیں آتی۔ یہ بھی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : سب سے بڑھ کر صلۂ رحمی یہ ہے کہ ایک رشتہ دار کے مرنے کے بعد (حج کر کے اس) حج (کا ثواب) اس کو قبر میں پہنچائے۔ بیہقی اور اصبہانی نے یہ حدیث نقل کی ہے لیکن اس کی سند میں دو راوی مجہول ہیں۔ ابو عبداللہ ثقفی نے حضرت زید ؓ بن ارقم کی روایت سے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ جس کے ماں ‘ باپ نے حج نہ کر پایا ہو اور وہ ماں ‘ باپ کے لیے حج کرلے تو کیا حکم ہے ؟ فرمایا : اس کے ماں ‘ باپ آزاد ہوجائیں گے اور آسمان میں ان کی روحوں کو بشارت دی جائے گی اور اللہ کے ہاں اس کو (ماں ‘ باپ کے ساتھ) نیکی لکھا جائے گا۔ حضرت عقبہ بن عامر راوی ہیں کہ ایک عورت نے حاضر خدمت ہو کر عرض کیا : میری ماں مرچکی ہے ‘ کیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں ؟ حضور ﷺ نے فرمایا : یہ بتا کہ اگر تیری ماں پر کچھ قرض ہو اور تو (اس کی طرف سے) ادا کرے تو کیا اد اہو جائے گا ؟ عورت نے عرض کیا : کیوں نہیں ‘ حضور ﷺ نے اس کو ماں کے لیے حج کرنے کا حکم دے دیا۔ (رواہ الطبرانی) حضرت انس کی روایت ہے کہ ایک شخص نے خدمت گرامی میں حاضر ہو کر عرض کیا : میرا باپ مرگیا اور حج اسلام (یعنی فرض حج) نہ کر پایا (کیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتا ہوں ؟ ) فرمایا : یہ بتا کہ اگر تیرے باپ پر قرض ہو (اور وہ ادا نہ کرسکا ہو تو) کیا تو اس کی طرف سے ادا کر دے گا ؟ اس نے کہا : جی ہاں ! فرمایا : تو یہ بھی اس پر قرض تھا تو ادا کر دے۔ (رواہ البزار والطبرانی بسند حسن) حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی میت کی طرف سے حج کرے گا اس کو بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا میت کو ملے گا (یا میت کو بھی اتنا ہی ثواب پہنچ جائے گا جتنا کرنے والے کو ملے گا) ۔ (رواہ الطبرانی فی الاوسط) عطاء اور زید بن اسلم کی مرسل روایت ہے کہ ایک شخص نے خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ ! ﷺ میرا باپ مرچکا ہے ‘ میں (اس کو ثواب پہنچانے کے لیے) اس کی طرف سے غلام آزاد کر دوں ؟ فرمایا : ہاں۔ ابن ابی شیبہ نے یہ دونوں حدیثیں بیان کی ہیں۔ حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سنا ایک شخص کہہ رہا تھا : لبیک عن شبرمۃ (یعنی اس نے احرام حج شبرمہ کیلئے یا شبرمہ کی طرف سے باندھا تھا) فرمایا : شبرمہ کون ؟ اس شخص نے جواب دیا : میرا بھائی یا میرا عزیز ‘ فرمایا : کیا تو اپنا حج کرچکا ہے ؟ اس نے عرض کیا : نہیں ‘ فرمایا : تو پہلے اپنا حج کر پھر شبرمہ کے لیے۔ (رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ والدارقطنی والبیہقی) بیہقی نے اسکی سند کو صحیح کہا ہے۔ ابو الشیخ کا بیان ہے کہ حضرت عمرو ؓ بن عاص نے خدمت گرامی میں عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! عاص نے وصیت کی تھی کہ اسکی طرف سے کوئی بردہ آزاد کیا جائے۔ چناچہ ہشام نے اسکے نام پر پچاس بردے آزاد کردیئے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : نہیں ! مسلمانوں کیلئے خیرات کی جاتی ہے اور حج کیا جاتا ہے اور بردے آزاد کیے جاتے ہیں (یعنی کافر کو نہ خیرات کا ثواب پہنچتا ہے ‘ نہ حج کا ‘ نہ غلام آزاد کرنے کا) ۔ حضرت حجاج بن دینار کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : نیکی بالائے نیکی (یعنی دوہری نیکی) یہ ہے کہ تو اپنی نماز کے ساتھ ماں ‘ باپ کے لیے بھی نماز پڑھے اور اپنے روزے کے ساتھ ان کے لیے بھی روزہ رکھے اور اپنے لیے خیرات کرنے کے ساتھ ان کے لیے بھی خیرات کرے۔ (رواہ ابن ابی شیبہ) حضرت بریدہ ؓ کی حدیث ہے کہ ایک عورت نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ﷺ اگر میری ماں پر دو ماہ کے روزے ہوں (اور وہ مرجائے) اور میں اس کی طرف سے رکھ لوں ‘ تو کیا کافی ہوجائے گا ؟ فرمایا : ہاں۔ اس عورت نے عرض کیا : میری ماں نے کبھی حج نہیں کیا ‘ کیا میں اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں ؟ فرمایا : ہاں۔ (رواہ مسلم) حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص مرجائے اور اس پر روزے ہوں تو اس کا ولی ‘ اس کی طرف سے روزے رکھ لے۔ (متفق علیہ) حضرت علی ؓ کی مرفوع حدیث ہے کہ جو شخص قبرستان سے گزرے اور قل ھو اللہ احد گیارہ بار پڑھ کر اس کا ثواب مردوں کو بخش دے ‘ اللہ اس قبرستان کے (تمام) مردوں کی تعداد کے موافق اس کو ثواب عطا فرمائے گا۔ (رواہ ابومحمد السمرقندی) حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص قبرستان میں داخل ہو ‘ پھر سورة فاتحہ اور قل ھو اللہ احد اور الہاکم التکاثر پڑھ کر کہے : میں نے جو تیرا کلام پڑھا ‘ اس کا ثواب اس قبرستان کے مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو بخش دیاتو اللہ کی بارگاہ میں وہ مردے اس کی شفاعت کریں گے۔ (رواہ ابو القاسم و سعد بن علی) حضرت انس کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص قبرستان میں جائے ‘ پھر سورة یٰسین پڑھے تو اللہ ان مردوں سے عذاب ہلکا کر دے گا اور اس قبرستان کے مردوں کی تعداد کے موافق اس شخص کے لیے نیکیاں لکھ دی جائیں گی۔ ( اخرجہ عبدالعزیز صاحب الخلال بسندہٖ ) سیوطی نے لکھا ہے : دفن کے وقت میت کے سرہانے سورة فاتحہ اور پاؤں کی طرف سورة بقرہ کی آخری آیات پڑھنا وارد ہوا ہے۔ حضرت ابن عمر کی مرفوع روایت میں آیا ہے لیکن حضرت علاء بن الجلاح کی مرفوع روایت میں پاؤں کی طرف سورة بقرہ کی ابتدائی اور آخری آیات کا پڑھنا آیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے اپنے مردوں پر سورة یٰسین پڑھو۔ قرطبی نے کہا : جمہور کے نزدیک اس کا مطلب ہے مرنے کے وقت سورة یٰسین کا پڑھنا۔ عبدالواحد مقدسی نے کہا : اس کا مطلب ہے قبرستان میں داخل ہونے کے وقت سورة یٰسین پڑھنا۔ محب طبری نے کہا : دونوں حالتوں میں پڑھنا مراد ہے۔ ابن ابی شیبہ نے عطاء کا قول نقل کیا ہے کہ آدمی کے مرنے کے بعد (اس کے متعلقین کی طرف سے اس کے لیے) غلاموں کو آزاد کرنا اور حج کرنا اور خیرات کرنا ‘ اس کے پیچھے پہنچ جاتا ہے۔ ابن سعد نے قاسم بن محمد کی روایت سے بیان کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے اپنے بھائی عبدالرحمن کے لیے ان کے موروثی غلاموں میں سے ایک غلام کو آزاد کیا۔ آپ کو امید تھی کہ اس کا فائدہ حضرت عبدالرحمن کو مرنے کے بعد پہنچے گا۔ حافظ شمس الدین بن عبدالواحد نے کہا : لوگ ہمیشہ سے ہر شہر میں جمع ہو کر اپنے مردوں کے لیے قرآن پڑھتے رہے ہیں اور کسی نے اس کو ناجائز نہیں قرار دیا تو گویا اس پر اجماع ہوگیا۔ خلالی نے شعبی کی روایت سے بیان کیا ہے کہ انصار میں جب کوئی شخص مرجاتا تھا تو لوگ اس کی قبر پر آتے جاتے ‘ قرآن پڑھا کرتے تھے۔ احیاء العلوم میں امام احمد بن حنبل کی روایت سے آیا ہے کہ جب تم قبرستان میں داخل ہو تو سورة فاتحہ اور معوذتین اور قل ھو اللہ احد پڑھا کرو اور اس کا ثواب اس قبرستان کے مردوں کو بخش دیا کرو ‘ تمہارا پڑھنا (یعنی پڑھنے کا ثواب) ان کو پہنچ جائے گا۔ آیت کی توجیہ میں بیضاوی نے لکھا ہے کہ جو شخص حج اور خیرات کرنے کی نیت رکھتا ہو (اور بغیر کیے مرجائے تو وہ توبہ کرنے والے کی طرح ہوتا ہے ‘ متعلقین کا اس کے لیے حج اور خیرات کرنا گویا ایسا ہی ہوجاتا ہے جیسے اس نے خود کیا ہو) بعض علماء نے آیت کی تاویل اس طرح کی ہے کہ مؤمن کا دوسرے کی سعی سے فائدہ اندوز ہونا اس کے ایمان پر مبنی ہے اور ایمان اس کا اپنا فعل ہے ‘ لہٰذا اس کے لیے دوسروں کا کوئی عمل خیر کرنا خود اس کی اپنی سعی کے تابع ہوا۔
Top