Tafseer-e-Mazhari - An-Najm : 62
فَاسْجُدُوْا لِلّٰهِ وَ اعْبُدُوْا۠۩  ۞   ۧ
فَاسْجُدُوْا : پس سجدہ کرو لِلّٰهِ : اللہ کے لیے وَاعْبُدُوْا : اور عبادت کرو
تو خدا کے آگے سجدہ کرو اور (اسی کی) عبادت کرو
فاسجدوا اللہ واعبدوا . ” سو اللہ کی اطاعت کرو اور اسی کی عبادت کرو۔ “ یعنی خشوع و فروتنی کے ساتھ اور اللہ کے وعدۂ ثواب اور وعید عذاب پر یقین رکھتے ہوئے اسی کو سجدہ کرو اور اسی کی عبادت کرو۔ حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ سورة النجم کے آخر میں رسول اللہ ﷺ نے اور آپ ﷺ کے ساتھ مسلمانوں نے ‘ مشرکوں نے اور جن و انس نے سجدہ کیا۔ (رواہ البخاری) حضرت ابن مسعود ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے والنجم پڑھی اور اس میں سجدہ کیا اور جو لوگ آپ ﷺ کے ساتھ تھے ‘ انہوں نے بھی سجدہ کیا مگر قریش کے ایک بوڑھے شخص نے (سجدہ نہیں کیا بلکہ) ایک ہاتھ میں پتھریاں یا مٹی اٹھا کر پیشانی تک لے گیا اور بولا : میرے لیے یہی کافی ہے۔ حضرت عبداللہ ؓ نے فرمایا : میں نے دیکھا کہ اس واقعہ کے بعد وہ کفر کی حالت میں مارا گیا۔ (متفق علیہ) بخاری کی روایت میں اتنا زائد ہے کہ وہ امیّہ بن خلف تھا۔ بخاری کے الفاظ یہ ہیں کہ اوّل ترین سورة جس میں (آیت) سجدہ کا نزول ہوا ‘ والنجم ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس میں سجدہ کیا۔ (الحدیث) حضرت زید بن ثابت کا بیان ہے ‘ میں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے والنجم پڑھی اور آپ ﷺ نے اس میں سجدہ نہیں کیا۔ جو لوگ سجدۂ تلاوت کو واجب نہیں قرار دیتے (بلکہ سنت کہتے ہیں) وہ اسی حدیث سے استدلال کرتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے اس وقت حضور ﷺ کا وضو نہ ہو (اس لیے سننے کے باوجود سجدہ نہیں کیا) یا سجدہ کرنے سے کوئی رکاوٹ ہو۔ حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضور ﷺ نے (بعد کو بھی) کبھی (یہ) سجدہ نہیں کیا لیکن یہ جواب کمزور ہے کیونکہ اگر کسی عذر کی وجہ سے حضور ﷺ نے اس وقت سجدہ نہ کیا ہوتا تو آپ ﷺ ظاہر فرما دیتے۔ اس کے علاوہ حضرت عمر کا قول ہے کہ اللہ نے یہ سجدۂ تلاوت ہم پر لازم نہیں کیا ‘ مگر ہم چاہیں (تو کرلیں) سجدۂ تلاوت کی تفصیل سورة الانشقاق میں کردی گئی ہے۔ الحمد اللہ کہ سورة والنجم کی تفسیر کا اردو ترجمہ ختم ہوا
Top