Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 23
ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْا وَ اللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِیْنَ
ثُمَّ : پھر لَمْ تَكُنْ : نہ ہوگی۔ نہ رہی فِتْنَتُهُمْ : ان کی شرارت اِلَّآ : سوائے اَنْ : کہ قَالُوْا : وہ کہیں وَاللّٰهِ : قسم اللہ کی رَبِّنَا : ہمارا رب مَا كُنَّا : نہ تھے ہم مُشْرِكِيْنَ : شرک کرنے والے
تو ان سے کچھ عذر نہ بن پڑے گا (اور) بجز اس کے (کچھ چارہ نہ ہوگا) کہ کہیں خدا کی قسم جو ہمارا پروردگار ہے ہم شریک نہیں بناتے تھے
ثم لم تکن فتنتہم پھر ان کے شرک کا انجام اور کچھ نہ ہوگا۔ لفظ ثمبتا رہا ہے کہ مدت تک تامل کرنے کے بعد وہ جواب دیں گے۔ فتنہ سے مراد کفر ہے یعنی انجام کفر یہ ہوگا کہ طویل تامل و ندامت کے بعد وہ کہیں گے۔ حضرت ابن عباس ؓ اور قتادہ ؓ نے فتنہ کا ترجمہ عذر کیا ہے ان کا عذر ان کے لئے فتنہ ہوگا کیونکہ وہ معذرت کو رہائی اور بچاؤ کا ذریعہ سمجھ رہے ہوں گے حالانکہ اس جواب سے ان کو رہائی نہ ہو سکے گی۔ فتنت الذہب میں نے سونے کو میل کچیل سے الگ کردیا۔ عربی کا محاورہ ہے۔ یا فتنۃ سے مراد ہے جواب۔ جواب چونکہ جھوٹا ہوگا اس لئے اس کو فتنہ فرمایا۔ بعض علماء نے فتنہ کا ترجمہ تجربہ کیا ہے چونکہ سوال ان کے اندرونی خیال کو ظاہر کرانے کا ایک تجربہ ہوگا اس لئے جواب کو تجربہ فرمایا۔ زجاج نے کہا یہ لفظ اس جگہ ایک لطیف معنی کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ بعض محب محبوب پر شیفتہ فریفتہ ہوتے ہیں۔ لیکن جب اس شیفتگی اور عشق میں ان پر مصائب آتے ہیں تو وہ محبوب سے بیزار ہوجاتے ہیں۔ اس وقت ان سے کہا جاتا ہے تمہارا عشق بس یہ ہوا (کہ دکھ پڑا تو عشق کو بھول گئے) قیامت کے دن بتوں کی محبت سے بھی کافر اسی طرح بیزار ہوجائیں گے۔ میں کہتا ہوں بتوں کی محبت ہی کیا اسلاف کی تقلید سے بھی اظہار نفرت کریں گے۔ الا ان قالوا واللّٰہ ربنا ما کنا مشرکین سوائے اس کے کہ وہ کہیں گے اللہ کی قسم جو ہمارا رب ہے ہم تو مشرک نہیں تھے۔ ایک آیت میں آیا ہے ولا یکتمون اللّٰہ حدیثًااللّٰہسے وہ کوئی بات نہیں چھپائیں گے اور اس آیت میں ہے واللّٰہ ربنا ما کنا مشرکین دونوں آیات کا مضمون باہم مخالف ہے۔ حسب روایت بخاری حضرت ابن عباس ؓ نے (اس تضاد کو دور کرنے کے لئے) فرمایا قیامت کے دن جب کفار دیکھیں گے کہ اللہ مسلمانوں کے گناہ تو معاف فرما رہا ہے اور شرک کو معاف نہیں فرماتا تو وہ مشرک ہونے سے انکار کردیں گے اور کہیں گے واللہ ہم مشرک نہیں تھے اس وقت اللہ ان کے منہ پر مہر لگا دے گا اور ان کے ہاتھ پاؤں ان کے اعمال کی شہادت دیں گے ایسی حالت میں ان کو تمنا ہوگی کاش ہم زمین کا پیوند ہوجاتے خاک کے ساتھ خاک بن جاتے اس وقت وہ اللہ سے کوئی بات نہیں چھپا سکیں گے (حضرت ابن عباس ؓ کی توضیح کا خلاصہ یہ ہے کہ ابتدائی حالت میں وہ شرک کا انکار کریں گے اور جب دست و پاکی شہادت کے بعد حقیقت کھل جائے گی تو پھر کوئی بات چھپا نہ سکیں گے)
Top