Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 22
وَ یَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَكُوْۤا اَیْنَ شُرَكَآؤُكُمُ الَّذِیْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ
وَيَوْمَ : اور جس دن نَحْشُرُهُمْ : ان کو جمع کریں گے جَمِيْعًا : سب ثُمَّ : پھر نَقُوْلُ : ہم کہیں گے لِلَّذِيْنَ : ان کو جنہوں نے اَشْرَكُوْٓا : شرک کیا (مشرکوں) اَيْنَ : کہاں شُرَكَآؤُكُمُ : تمہارے شریک الَّذِيْنَ : جن کا كُنْتُمْ : تم تھے تَزْعُمُوْنَ : دعوی کرتے
اور جس دن ہم سب لوگوں کو جمع کریں گے پھر مشرکوں سے پوچھیں گے کہ (آج) وہ تمہارے شریک کہاں ہیں جن کو تمہیں دعویٰ تھا
و یوم نحشرہم جمیعا اور جس روز ہم ان سب کو جمع کریں گے۔ یعنی کافروں کو اور ان کے معبودوں کو (بتوں وغیرہ کو) یوممفعول فیہ ہے اس کا فعل محذوف ہے یعنی یاد کرو اس دن کو جب ایسا ایسا ہوگا۔ یا یوں کہا جائے کہ کوئی معین فعل ذکر نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ روز قیامت کے تمام خطرات اور شدائد و مصائب کی طرف ذہن کا انتقال ہوجائے (اور ہر قسم کی ہیبت ناکیاں نظر کے سامنے آجائیں اگر کوئی معین فعل ذکر کیا جاتا تو صرف اسی فعل کا تصور ہوتا اور دوسرے شدائد کی طرف ذہن کا انتقال نہ ہوتا) گویا یوں فرمایا کہ جس روز ہم سب کو جمع کریں گے اس روز سب پر ایسی دہشت طاری ہوجائے گی کہ ناقابل بیان ہے الفاظ کی حدود کے اندر نہیں آسکتی سورج قریب آجائے گا۔ پسینہ کی لگام لگ جائے گی یعنی منہ تک لوگ پسینہ میں غرق ہوں گے پسینہ بہ کر ستر ہاتھ زمین میں گھس جائے گا وغیرہ وغیرہ جیسا کہ صحیح احادیث میں آیا ہے۔ ثم نقول للذین اشرکوا پھر (سرزنش کرنے کے لئے) ہم مشرکوں سے کہیں گے۔ نقول کا عطف نحشر پر ہے۔ ثمکا لفظ بتارہا ہے کہ حشر کے بعد مدت تک لوگ سوال کے منتظر رہیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس وقت کیا حال ہوگا جب تم کو اللہ پچاس ہزار برس تک جمع کر رکھے گا جیسے تیر دان کے اندر تیر اکٹھے کئے جاتے ہیں (اس مدت میں) تمہاری طرف نظر بھی نہیں کرے گا۔ حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے اور بیہقی نے حضرت ابن عمر ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا قیامت کے دن تاریکی میں ہزار برس تک تم کو روک رکھا جائے گا کہ بات بھی نہ کرسکو گے۔ رواہ البیہقی عن ابن عمر ؓ ۔ این شرکآؤ کم الذین کنتم تزعمون تمہارے وہ شرکاء جن کے معبود ہونے کا تم دعویٰ کرتے تھے کہاں گئے۔ شرکاء سے مراد ہیں وہ معبود جن کو مشرک ‘ اللہ کے ساتھ عبادت میں شریک قرار دیتے تھے۔ تزعمونکا مطلب یہ ہے کہ تم استحقاق معبودیت میں شریک قرار دیتے تھے یا ان کو بارگاہ خداوندی میں اپنا سفارشی سمجھتے تھے۔
Top