Tafseer-e-Mazhari - Al-A'raaf : 135
فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الرِّجْزَ اِلٰۤى اَجَلٍ هُمْ بٰلِغُوْهُ اِذَا هُمْ یَنْكُثُوْنَ
فَلَمَّا : پھر جب كَشَفْنَا : ہم نے کھول دیا (اٹھا لیا) عَنْهُمُ : ان سے الرِّجْزَ : عذاب اِلٰٓي اَجَلٍ : ایک مدت تک هُمْ : انہیں بٰلِغُوْهُ : اس تک پہنچنا تھا اِذَا : اس وقت هُمْ : وہ يَنْكُثُوْنَ : (عہد) توڑدیتے
پھر جب ہم ایک مدت کے لیے جس تک ان کو پہنچنا تھا ان سے عذاب دور کردیتے تو وہ عہد کو توڑ ڈالتے
فلما کشفنا عنہم الرجز الی اجل ہم بلغوہ اذا ہم ینکثون : پھر جب ہم ان سے اس عذاب کو ایک وقت خاص تک کہ اس تک ان کو پہنچنا تھا ہٹا دیتے تو وہ فوراً ہی وعدہ کے خلاف کرنے لگتے۔ ولما وقع علیہم الرجز اور جب ان پر عذاب مذکور (یعنی طوفان وغیرہ نازل ہوگیا۔ سعید بن جبیر کے نزدیک رجز سے مراد طاعون ہے پانچ آیات کے ظہور کے بعد یہ چھٹی آیت عذاب تھی جس سے ایک دن میں ستّر ہزار آدمی مرگئے اور باہم دفن کرتے کرتے ان کو شام ہوگئی بخاری و مسلم نے صحیحین میں اور ترمذی و بغوی نے حضرت اسامہ ؓ بن زید کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا طاعون ایک عذاب ہے جو اللہ نے بنی اسرائیل پر اور تم سے پہلی قوموں پر بھیجا تھا اس لئے اگر کسی جگہ طاعون ہو تو خود وہاں نہ جاؤ اور اگر وہاں پیدا ہوجائے جہاں تم ہو تو وہاں سے مت بھاگو۔ امام احمد اور بخاری نے حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ سول اللہ ﷺ نے فرمایا طاعون ایک عذاب ہے جس پر چاہتا ہے اللہ بھیج دیتا ہے مگر مؤمنوں کے لئے اللہ نے اس کو رحمت بنا دیا ہے۔ اگر کسی بستی میں طاعون پڑا ہو اور کوئی (مسلمان) وہاں بامید ثواب صبر کے ساتھ رکا رہے اور یہ یقین رکھتا ہو کہ اللہ نے جو کچھ لکھ دیا ہے وہی اس کو پہنچے گا (اور طاعون میں مبتلا ہو کر مرجائے) تو اس کو شہید کی طرح ثواب ملے گا۔ میں کہتا ہوں یہ دونوں حدیثیں بتارہی ہیں کہ طاعون بنی اسرائیل پر بھیجا گیا تھا قبطیوں پر بصورت عذاب آنا ان حدیثوں سے نہیں معلوم ہوتا۔ شاید فرعون کے بعد بنی اسرائیل پر طاعون کا عذاب آیا ہو۔ اگر سعید بن جبیر کا قول صحیح مان لیا جائے تو عصا اور ید بیضاء کے بعد تیسرا معجزہ کال اور پھلوں کی بربادی قرار پائے گا۔ کال دیہات والوں کے لئے اور پھلوں کی تباہی شہریوں کے لئے اس کے بعد طوفان سے رجز تک چھ معجزات ہوں گے آیت (ولقد اتینا موسیٰ تسعآیات) میں یہی نو نشانیاں مراد ہیں۔ قالوا یعنی فرعون اور اس کے ساتھیوں نے کہا۔ بما عہد عندک یعنی اس وعدہ کے مطابق جو اللہ نے آپ سے کیا ہے اگر ہم ایمان لے آئیں گے تو اللہ عذاب دور کر دے گا۔ عطاء کے نزدیک بما عند عندک سے مراد ہے نبوت۔ بعض کے نزدیک ما عہد عندک سے مراد ہے موسیٰ ( علیہ السلام) کی دعا کے قبول ہونے کا وعدہ۔ بہرحال بما کا تعلق اُدْعُسے ہے یا ادع کی ضمیر سے حال ہے یعنی اپنی نبوت یا قبول دعا کے وعدہ کا سہارا لے کر دعا کرو یا فعل محذوف سے تعلق ہے یعنی ہماری درخواست بحق نبوت قبول کیجئے یا بِمَا عہد میں ب قسمیہ ہے جس کا جواب لئن کشفت ہے یعنی ہم اس عہد کی قسم کھاتے ہیں جو اللہ نے آپ سے کیا ہے کہ اگر آپ عذاب دور کروا دیں گے تو ہم ایمان لے آئیں گے۔ ولنرسلن اور ہم ملک شام کو آپ کے ساتھ بنی اسرائیل کو جانے دیں گے۔ فلما کشفنا یعنی جب موسیٰ کی دعا سے ہم نے دور کردیا۔ الی اجل یعنی اس وقت تک کے لئے جس میں ان پر عذاب کا آنا یا ہلاک ہونا مقدر تھا یعنی غرق ہونے یا مرنے کے وقت تک کے لئے۔ بعض کے نزدیک الی اجل سے وہ وقت مراد ہے جو انہوں نے اپنے ایمان کے لئے مقرر کر رکھا تھا۔ اذا ہم ینکثون یہ لَمَّا کا جواب ہے یعنی جب ہم نے عذاب دور کردیا تو وہ فوراً بلا توقف عہد سے پھرگئے اور کفر پر جمے رہے۔
Top