Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 136
فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَاَغْرَقْنٰهُمْ فِی الْیَمِّ بِاَنَّهُمْ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ كَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِیْنَ
فَانْتَقَمْنَا : پھر ہم نے انتقام لیا مِنْهُمْ : ان سے فَاَغْرَقْنٰهُمْ : پس انہیں غرق کردیا فِي الْيَمِّ : دریا میں بِاَنَّهُمْ : کیونکہ انہوں نے كَذَّبُوْا : جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیتوں کو وَكَانُوْا : اور وہ تھے عَنْهَا : ان سے غٰفِلِيْنَ : غافل (جمع)
تو ہم نے ان سے بدلہ لے کر ہی چھوڑا کہ ان کو دریا میں ڈبو دیا اس لیے کہ وہ ہماری آیتوں کو جھٹلاتے اور ان سے بےپروائی کرتے تھے
فانتقمنا منہم فاغرقنہم فی الیم بانہم کذبوا باتینا وکانوا عنہا غفلین۔ پھر ہم نے ان سے بدلہ لے لیا یعنی دریا میں ان کو غرق کردیا کیونکہ وہ ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے اور ان سے بالکل ہی بےتوجہی کرتے تھے۔ فانتقمنا یعنی ہم نے ان کو عذاب میں پکڑا لقمۃٌ عذاب فی الیم اتہاہ سمندر میں ہم نے ان کو ڈبو دیا یم سے مراد ہے بحر شور کا کنڈ اور وسطی گہرا حصہ یم کا لفظ تیمم سے ماخوذ ہے تیمم کا معنی ہے قصد کرنا۔ سمندر سے فائدہ اٹھانے والے سمندر کا سفر بالارادہ کرتے ہیں۔ بانہم میں باء سببیہ ہے اور عنہا کی ضمیر آیات کی طرف راجع ہے وہ ہماری آیات سے غافل تھے یعنی آیات پر انہوں نے کبھی غور نہیں کیا تو گویا غافلوں کی طرح تھے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ عنہا کی ضمیر لقمۃٌ کی طرف راجع ہے جس پر فانتقمنا کا لفظ دلالت کر رہا ہے۔
Top