Mualim-ul-Irfan - Al-Ghaashiya : 10
وَ اِذْ نَادٰى رَبُّكَ مُوْسٰۤى اَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَۙ
وَاِذْ : اور جب نَادٰي : پکارا (فرمایا) رَبُّكَ : تمہارا رب مُوْسٰٓي : موسیٰ اَنِ ائْتِ : کہ تو جا الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم لوگ
( اس واقعہ کو یاد کرو) جب کہ پکارا تیرے پروردگار نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ( اور فرمایا) جائو ظالم قوم کے پاس
فرعون کو دعوت توحید سورۃ کی ابتدائی آیات میں قرآن کریم کی حقانیت اور تسلی کے مضمون کو اجمالی طور پر بیان کیا گیا تھا۔ اب یہاں سے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کیا ہے جس سے اصل مقصود اصول دین توحید اور ایمان کی دعوت دنیا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے ابتدائی واقعات تو سورة قصص اور بعض دیگر سورتوں میں بھی بیان ہوئے ہیں تا ہم یہاں پر مضمون کی ابتداء وتبلیغ حق سے ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کو نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا اور پھر ان کو تبلیغ کے لیے فرعون اور اس کی ظالم قوم کے پاس بھیجا ۔ ارشاد ہوتا ہے ، وہ بات قابل ذکر ہے واذ نادی ربک موسیٰ جب کہ تیرے پروردگار نے موسیٰ (علیہ السلام) کو پکارا اور کہا ان ائت القوم الظلمین کہ تم ظالم قوم کے پاس تبلیغ کے لیے جائو ، قوم فرعون جو کہ فرعون کی قوم ہے۔ اللہ نے ساری قوم فرعون کو ظالم کا حساب دیا ہے۔ اگرچہ اصل ظالم فرعون تھا مگر اس کے امیر وزیر ، حواری ، موالی ، دوست احباب ، عزیز و اقربا ، سب اس کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے ، اس لیے سب کو ظالم کہا گیا ہے ۔ ان میں کوئی بھی انسانیت کے دائرے میں نہیں رہا تھا۔ اس قسم کی مثالیں بعض دوسری قوم کے متعلق بھی ملتی ہیں مثلاً نوح (علیہ السلام) کی قوم کے متعلق اللہ نے فرمایا انھم کانوا قوما عمین ( الاعراف : 46) بیشک وہ ساری کی ساری قوم اندھی تھی ۔ پوری قوم فرعون میں بعض استثناء کا ثبوت بھی ملتا ہے ، مثلاً کے سورة مومن میں آتا ہے وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌق صلے مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَکْتُمُ اِیْمَانَہٗٓ کہ فرعون کی قوم میں ایک ایماندار آدمی بھی تھا جو اپنے ایمان کو چھپاتا تھا۔ اس طرح فرعون کی بیوی آسیہ ؓ بھی صاحب ایمان تھی ۔ بہر حال چند ایک کو چھوڑ کر ساری قوم ظالم تھی ، اسی لیے پوری قوم کے لیے ظالم کا لفظ استعمال کیا گیا ۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ ظالم قوم کے پاس جائو ۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو مدین سے واپسی پر دوران سفر ہی نبوت عطاء ہوئی تھی اور وہیں حکم ہوا تھا کہ فرعون کے پاس جا کر تبلیغ حل کرو ۔ فرمایا کہ اس قوم کو جا کر کہو الا یتقون ، کیا وہ خدا کی ناراضگی اور غصے سے ڈرتے نہیں ؟ موسیٰ کا عذر اللہ تعالیٰ کا حکم سن کر موسیٰ (علیہ السلام) نے بعض رکاوٹوں اور کمزوریوں کا ذکر کیا جو انہیں راہ حق میں نظر آ رہی تھیں ، چناچہ بارگاہ رب العزت میں عرض کیا وقال رب انی اخاف ان یکذبون پروردگار ! میں خوف کھاتا ہوں کہ فرعون اور اس کی قوم مجھے جھٹلا دیں گے ۔ وہ لوگ نہ میری نبوت و رسالت کو تسلیم کریں گے اور نہ میری بات کو مانیں گے۔ موسیٰ (علیہ السلام) اسی قوم میں پیدا ہوئے تھے ۔ اسی ماحول میں پل کر جوان ہوئے لہٰذا وہ امن کی نفسیات اور ان کے اخلاق واطوار سے خوب واقف تھے۔ اسی بناء پر انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ وہ لوگ میری بات نہیں سنیں گے ، انہوں نے یہ بھی عرض کیا ویضیق صدری اور میرا دل تنگ ہوتا ہے۔ ولا ینظلق لسانی اور میری زبان بھی اچھے طریقے سے نہیں چلتی ۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان میں قدرے لکنت تھی اس لیے عرض کیا فارسل الی ھرون پروردگار میرے بھائی ہارون (علیہ السلام) کی طرف بھی پیغام بھیج تا کہ وہ میرے کام میں میرا معاون بن جائے سورة طہٰ میں واضح طور پر عرض کیا واجعل لی وزیرا من اھل ھرون اخی ( آیت 92 ، 03) میرے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو میرا وزیر یعنی معاون بنا دے تا کہ ہم دونوں مل کر تبلیغ کا کام بشریق احسن انجام دے سکیں ۔ سورة تصص میں اپنے مقصد کی وضاحت اس طرح فرمائی ہے کہ ہارون (علیہ السلام) میرا بھائی ہے ھو افصح منی لسانا وہ مجھ سے زبان میں زیادہ فصیح ہے۔ مدعا کی بچنے طریقے سے واضاحت کرسکتا ہے فارسلہ معی ردا یصدقنی ( آیت : 43) اے میرے ساتھ بھیج دے جو کہ میری پشت پناہی اور تصدیق کریگا میں جو بات کروں گا ۔ ہارون (علیہ السلام) اس کی تصدیق و تائید کرے گا تو بات چل نکلے گی۔ سورة طہٰ میں ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کی بارگاہ میں یہ دعا بھی کی قال رب اشرح لی صدری و یسرلی امری واحلل عقدۃ من لسانی یفقھوا قولی ( آیت : 52 تا 82) اے پروردگار ! میرا سینہ کھول دے ، میرے کام کو آسان کر دے۔ میری زبان کی گرہ کھول دے تا کہ لوگ میری بات کو سمجھنے لگیں ۔ جواب میں اللہ نے فرمایا قال قد اوتیت سولک یموسیٰ ( آیت : 63) اے موسیٰ ! ہم نے تمہاری درخواست قبول کرلی ، چناچہ اللہ نے زبان کو کھول دیا ۔ اور ہارون (علیہ السلام) کو وزیر یعنی معاون بھی بنا دیا اور اس طرح آپ کے کام کو آسان بنا دیا ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے پروردگار کے سامنے ایک اور عذر بھی پیش کیا ۔ ولھم علی ذنب فرعونیوں کا مجھ پر ایک گناہ بھی ہے۔ فاخاف ان یقتلون لہٰذا مجھے خوف ہے کہ کہیں وہ مجھے قتل ہی نہ کر ڈالیں ۔ وہ الزام یہی تھا کہ میں نے ان کا ایک آدمی قتل کردیا تھا ، اگرچہ وہ قتل عمد نہیں تھا مگر ان کا آدمی تو بہر حال میرے ہاتھوں سے مارا گیا تھا اور اسی وجہ سے میں مصر چھوڑ کر اس دس سال تک مدین میں مقیم رہا ۔ اب اگر ان کے پاس دو بارہ جائوں گا ۔ تو وہ مجھے سابقہ جرم میں گرفتار کرلیں گے۔ اللہ کی طرف سے ہدایات ان معروضات کے جواب میں قال اللہ نے فرمایا کلا ایسا ہرگز نہیں ہوگا کہ فرعونی تجھے قتل کردیں اور تم میرا پیغام ہی ان تک نہ پہنچا سکو فرمایا فکر نہ کرو فاذھبا بایتنا بلکہ ہماری نشانیاں لے کر تم دونوں جائو ۔ نشانیوں سے مراد عصا اور ید بیضا جیسے دو واضح معجزات ہیں کہ یہ معجزات لے کر ان کے پاس جائو انا معکم مستمعون ہم تمہارے ساتھ ہیں اور سننے والے ہیں ۔ تمام معاملات اور ان کا حسن و قبیح ہمارے علم میں ہے تم گھبرائو نہیں فاتیا فرعون پس دونوں فرعون کے پاس جائو فقولا انا رسول رب العالمین اور دونوں کہو کہ ہم پروردگار عالم کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں ۔ یعنی ہم از خود تمہارے پاس نہیں آئے بلکہ تمام جہانوں کے رب کی طرف سے پیغام لیکر آئے ہیں ۔ اس مقام پر زیادہ تفصیلات ذکر نہیں کی گئیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ قرآن پاک میں مختلف مقامات پر چھیالیں مرتبہ سے زیادہ بیان کیا گیا ہے کہیں اجمال ہے اور کہیں تفصیل ، کہیں واقعہ کا ایک پہلو بیان کیا گیا ہے تو کہیں دوسرا ، اس مقام پر موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کے درمیان ہونیوالے مذاکرات کی زیادہ وضاحت نہیں کی گئی ۔ البتہ بعض دوسرے مقامات میں کچھ مزید باتیں بھی ذکر کی گئی ہیں مثلاً سورة طہٰ میں اللہ نے اپنے دونوں انبیاء سے فرمایا کہ تم دونوں بھائی فرعون کے پاس جائو کہ اس نے سر کشی اختیار کر کھی ہے فقولالا قولا لینا لعلہ یتذکر اویخشی ( آیت : 44) پس تم دونوں اس کے ساتھ نرمی سے بات کرنا شاید کہ وہ نصیحت پکڑے یا ڈر جائے ، اور تمہاری بات اس کے ذہن میں اثر کر جائے ۔ گویا اللہ تعالیٰ نے تبلیغ دین کے سلسلے میں ایک کلمہ بتا دیا کہ تبلیغ کے وقت ہمیشہ نرم لہجہ اختیار کرو کہ یہ موثر ہوتا ہے ، سخت کلامی سے بات بگڑ جاتی ہے ۔ اسی طرح سورة النزعات میں یہ بات بھی آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا کہ تم فرعون کے پاس جائو ۔ کیونکہ اس نے سرکشی اختیار کرلی ہے فقل ھل لک الی ان تزکی ( آیت : 81) اور اس سے یوں کہو کیا تم میں پاک ہونے کی کوئی خواہش ہے ؟ تا کہ میں تمہاری رہنمائی کروں اور تمہیں کفر ، شرک کی گندگی سے طہارت حاصل ہوجائے بہر حال اس مقام پر صرف اسی قدر ذکر ہے کہ تم دونوں فرعون کے پاس جائو اور اس سے کہو کہ ہم دونوں جہاں کے پروردگار کے فرستادہ ہیں۔ بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ اللہ نے فرمایا کہ تم دونوں جا کر پہلے فرعون کی دعوت توحید دو اور پھر اس سے یہ مطالبہ کرو ان ارسل معنا بنی اسرائیل کہ بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے۔ بنی اسرائیل کا اصل وظن شام اور فلسطین تھا ۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانے میں آپ کے خاندان کے کم و بیش بہتر افراد مصر میں آ کر آباد ہوئے تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ تک ساڑھے چار سو پانچ سو سال کا عرصہ گزرچکا تھا ۔ اس دوران میں بنی اسرائیل کی تعداد بہت بڑھ چکی تھی ۔ چناچہ جب وہ مصر سے نکلے تھے تو ان کی تعداد چھ لاکھ ستر ہزار تک پہنچ چکی تھی ۔ اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ تھا کہ انہیں ان کے اصلی وطن میں دوبارہ آباد کیا جائے اور اس مقصد کے لیے فرعون کی غلامی سے آزادی کی ضرورت تھی ۔ اللہ نے یہی مطالبہ دے کر موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کو فرعون کے پاس جانے کا حکم دیا ۔ فرعون کا احسان جتلانا جب فرعون نے اللہ کے نبیوں کی یہ باتیں سنیں تو سخت برہم ہوا ۔ اسے یہ گمان نہیں تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) جیسا اس کا اپنا پروردہ اس کے سامنے یوں جرأت کے ساتھ بات کرسکے گا ۔ چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) پر اپنا احسان جتلانا شروع کیا ۔ قال الم نربک فینا ولیدا کہنے لگا کیا ہم نے تمہیں اپنے درمیان بچپن میں نہیں پالا تھا ؟ تمہاری ماں نے تمہیں صندوق میں بند کر کے پانی میں بہا دیا تھا۔ ہم نے تجھے نکال لیا اور پھر تمہاری پرورش کی ۔ اب تم ہمیں ہی آنکھیں دکھانے لگے ہو اس نے یہ بھی کہا ولبثت فینا من عمرک سینن تم اپنی عمر کے کئی سال ہمارے درمان ٹھہرے۔ ظاہر ہے کہ تقریباً تیس 03 سال کی عمر میں موسیٰ (علیہ السلام) مدین چلے گئے ۔ دس سال تک وہاں رہے ، اور پھر واپسی کے سفر میں آپ کو نبوت عطا ہوئی جب کہ آپ کی عمر چالیس 04 سال ہوچکی تھی ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ابتدائی دور کا ذکر سورة قصص میں موجود ہے۔ فرعون نے کہا کہ تو اپنی عمر کے کئی سال ہمارے ساتھ رہا وفعلت فعلتک التی فعلت اور پھر تو نے وہ کام کیا جو تو نے کیا ۔ یعنی تو نے ہمارے ایک آدمی کو قتل کردیا ۔ ہم نے تو تمہیں پالا پوسا تمہاری جان بچائی اور تو نے یہ صلہ دیا کہ ایک قبطی کو قتل کر کے مدین چلا گیا ۔ وانت من الکفرین تو تو ناشکرگزاروں میں سے نکلا تو نے ہمارے احسان کا بدلہ احسان فراموشی کے ساتھ دیا ۔ ان واقعات کا تفصیلی ذکر سورة قصص اور دیگرسورتوں میں موجود ہے ۔ موسیٰ (علیہ السلام) کا جواب فرعون کی بات کے جواب میں قال موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا فعلتھا اذا وانا من الضالین میں نے دو کامر ( قبطی کا قتل) اس وقت کیا جب کہ میں بیخبر وں میں سے تھا۔ ہم نے یہاں پر ضال کا معنی بیخبر کیا ہے جب کہ اس کا معنی گمراہ بھی ہوتا ہے ، مگر یہ معنی یہاں پر مناسب حال نہیں۔ اس لفظ کا معنی بیخبر کے علاوہ حیران ، سرگردان اور پریشان بھی ہوتا ہے ، چناچہ ووجدک ضالا فھدی ( الضحیٰ : 7) کا بھی یہی معنی ہے کہ ہم نے آپ کو سرگرداں پایا ، پس رہنمائی فرمائی ۔ بعض ضال کا معنی خطا کرنے والا کرتے ہیں ۔ مولانا شیخ الہند چوکنے والا کہتے ہیں کہ مجھ سے خطاب ہوئی ۔ اکثر مفسرین اس کا ترجمہ لیے خبر کرتے ہیں اور یہ زیادہ درست ہے ، کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) نے قبطی کو قتل کے ارادے سے مکہ نہیں مارا تھا ۔ اور قتل عمدنیت اور ارادے سے ہوتا ہے موسیٰ (علیہ السلام) کا مقصد تو ایک مظلوم اسرائیلی کو ظالم قبطی سے نجات دلانا تھا مگر وہ ایک مکہ برداشت نہ کرسکا اور مر گیا ۔ بہر حال موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو یہ جواب دیا کہ ان سے قبطی کا قتل بیخبر ی میں غیر ارادی طور پر ہوگیا تھا۔ آپ نے یہ بھی وضاحت کی کہ قبطی کے قتل کے بعد خود میری جان کو خطرہ لا حق ہوگیا تھا۔ مجھے گرفتار کرنے کے منصوبے بن رہے تھے ، جس کی اطلاع مجھے میرے ایک خیر خواہ نے دی ففر رت منکم پس میں تم سے بھاگ گیا لما خفتکم جب کہ میں نے تمہاری طرف سے خوف محسوس کیا ، پھر اللہ نے مجھ پر مہربانی فرمائی فوھب لی ربی حکما کہ اس نے مجھے حکم یعنی علم عطا کیا جعلنی من المرسلین اور مجھے رسولوں میں سے بنایا یعنی میرے سر پر تاج نبوت رکھا۔ نبوت و رسالت کا تذکرہ بھی مختلف سورتوں میں بیان ہوا ہے پہلے اللہ تعالیٰ نے دوران سفر موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت سے سرفراز فرمایا ۔ پھر آپ کی فرمائش پر آپ کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو بھی نبی بنایا ۔ البتہ موسیٰ (علیہ السلام) اعظم المرتبت رسول تھے اور کتاب تورات بھی آپ ہی پر نازل ہوئی ۔ تو موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون سے کہا کہ میں اللہ کا رسول بن کر تمہارے پاس آیا ہوں ۔ البتہ جہاں تک تم نے میری پرورش کا مجھ پر احسان جتلاتا ہے وتلک نعمۃ تمنھا علی تو یہ ایک احسان ہے جو تو مجھ پر کھتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ میری پرورش بھی تیرے ہاں ظلم کی وجہ سے ہی ہوتی تھی تو نے بنی اسرائیل پر ظلم و ستم کے پہاڑ تو ڑ رکھے تھے ۔ ان کے بچوں کو پیدا ہوتے ہی قتل کروا دیتا تھا۔ تیرے اس ظلم کے ڈر سے ہی میری والدہ نے مجھے صندوق میں بند کر کے دریا میں بہا دیا ۔ اللہ کو اسی طرح منظور تھا ، وہ صندوق تمہارے محل میں پہنچ گیا اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق والقیت علیک محبۃ منی ( طہٰ : 93) اللہ نے مجھ پر ایسی محبت ڈال دی کہ جو بھی دیکھتا تھا گرویدہ ہوجاتا تھا۔ جب فرعون نے دیکھا تو وہ بھی میری زندگی بچانے پر مجبور ہوگیا ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے زندہ رکھنا تھا اور بڑا کام لینا تھا ، اس لیے اس نے ایسے اسباب پیدا کردیئے کہ میری زندگی بچ گئی ۔ مقصد یہ کہ میری پرورش میں تیرا کوئی احسان نہیں ہے بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ نے اپنی سکیم کو کامیاب بنایا کہ تیرے دل میں میری محبت پیدا کردی گویا تیرے ہاتھوں سے میری پرورش بھی کسی احسان کی وجہ سے نہیں بلکہ تیرے ظلم کی وجہ سے ہوئی تھی ۔ فرمایا : تیرے ظلم و ستم کی داستان تو یہ ہے جسے تو احسان بتلا رہا ہے۔ کیا یہی تیرا احسان ہے ان عبدت بنی اسرائیل کہ تو نے ساری قوم بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنا رکھا ہے ؟ ایک فرد کی پرورش کر کے لاکھوں افراد کو غلام بنانا اور ان سے مشقت لینا کہاں کا انصاف ہے ؟ بنی اسرائیل نے فرعون کے ہاتھوں واقعی بڑے مظالم برداشت کئے تھے ۔ آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی قوم کو ہلاک کیا اور بنی اسرائیل کو آزادی نصیب ہوئی تو موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون سے یہی مطالبہ کیا کہ بنی اسرائیل کو آزاد کر کے ہمارے ساتھ بھیج دے تا کہ وہ اپنے اصلی وطن پہنچ کر آزادی کے ساتھ خدا تعالیٰ کی عبادت کرسکیں۔
Top