Tafseer-e-Mazhari - At-Tawba : 43
عَفَا اللّٰهُ عَنْكَ١ۚ لِمَ اَذِنْتَ لَهُمْ حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ تَعْلَمَ الْكٰذِبِیْنَ
عَفَا : معاف کرے اللّٰهُ : اللہ عَنْكَ : تمہیں لِمَ : کیوں اَذِنْتَ : تم نے اجازت دی لَهُمْ : انہیں حَتّٰي : یہاں تک کہ يَتَبَيَّنَ : ظاہر ہوجائے لَكَ : آپ پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو صَدَقُوْا : سچے وَتَعْلَمَ : اور آپ جان لیتے الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
خدا تمہیں معاف کرے۔ تم نے پیشتر اس کے کہ تم پر وہ لوگ بھی ظاہر ہو جاتے ہیں جو سچے ہیں اور وہ بھی تمہیں معلوم ہو جاتے جو جھوٹے ہیں اُن کو اجازت کیوں دی
عفا اللہ عنک لم اذنت لھم سفیان بن عیینہ نے کہا : رسول اللہ ﷺ پر مہربانی فرمانے اور عزت بخشنے کیلئے اظہار قصور سے پہلے اعلان عفو فرما دیا (یعنی قصور کا اظہار لِمَ اَذِنْتَمیں کیا اور لِمَ اَذِنْتَسے پہلے عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ فرما دیا) میں کہتا ہوں : اگر اظہار عتاب پہلے کیا جاتا تو رسول اللہ ﷺ کے وفات پا جانے کا اندیشہ تھا کیونکہ اللہ کا خوف اور اس سے خثیہ رسول اللہ ﷺ کو انتہائی درجہ کا تھا ‘ اس اندیشہ سے بچاؤ کیلئے اظہار عفو پہلے کردیا) ۔ بعض نے کہا : یہ کلمہ (یعنی عفا اللّٰہُ عَنْکَ ) دعائیہ ہے (خبر نہیں ہے) جیسے کسی کی نظر میں اپنے کسی دوست کی عزت ہو تو وہ اپنے دوست سے کہتا ہے : اللہ تجھے معاف کرے ‘ تو نے میرے کام کے سلسلہ میں کیا کیا۔ اللہ تجھ سے راضی ہو ‘ تو تو ملاقات کو بھی نہیں آیا۔ بعض نے کہا : عَفَا اللّٰہُ عَنْکَ کا مطلب ہے اللہ تیرے لئے ہمیشہ معافی قائم رکھے۔ (1) [ قاضی عیاض نے شفاء میں لکھا ہے : اس جگہ عفو کے معنی مغفرت نہیں ہیں (بلکہ درگذر کرنے اور لازم نہ کرنے کے ہیں) جیسے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : عفا اللہ لکم عن صدقۃ الخیل والرقیقا اللہ نے گھوڑوں اور باندی غلاموں کی زکوٰۃ ادا کرنے سے تم کو معاف رکھا ‘ یعنی ان کی زکوٰۃ واجب نہیں کی۔ قشیری کا قول بھی اسی طرح منقول ہے۔ قاضی عیاض نے لکھا ہے : گناہ معاف کردینے کا قائل اس آیت میں وہی ہوسکتا ہے جو عربی کلام سے ناواقف ہو۔ آیت میں مراد تو یہ ہے کہ اللہ نے تمہارے لئے اس فعل کو گناہ نہیں قرار دیا اور بات بھی یہی تھی۔ اللہ کی طرف سے عذر کو قبول کرنے کی کوئی ممانعت بھی نہیں آئی تھی کہ اس کے خلاف کرنے کو گناہ قرار دیا جائے ‘ نہ اللہ نے اس کو گناہ قرار دیا بلکہ اہل علم نے تو اس کو عتاب بھی نہیں کہا۔ جس شخص نے اس کو گناہ یا عتاب کہا ہے ‘ اس نے غلطی کی۔ نفطویہ نے کہا : رسول اللہ ﷺ کو عذر قبول کرنے نہ کرنے میں سے ہر بات کا اللہ کی طرف سے اختیار تھا ‘ اللہ نے آپ کو مخالفت اور گناہ سے محفوظ رکھا۔] لِمَ اَذِنْتَ لَھُمْ سے یہ مراد ہے کہ آپ نے توقف کیوں نہیں کیا ‘ جب انہوں نے جہاد پر نہ جانے کی آپ سے اجازت طلب کی تو آپ نے فوراً اجازت کیوں دے دی۔ حتی یتبین لک الذین صدقوا و تعلم الکذبین۔ کہ آپ پر کھل جاتے وہ لوگ جنہوں نے سچ کہا (سچی معذرت پیش کی) اور آپ جھوٹوں کو (بھی) جان لیتے (جنہوں نے سچا عذر پیش نہیں کیا) حضرت ابن عباس نے فرمایا : اس وقت تک رسول اللہ ﷺ منافقوں کو پہچانتے نہ تھے۔ ابن جریر نے عمرو بن میمون کا قول نقل کیا ہے کہ دو کام رسول اللہ ﷺ نے ایسے کئے جن کا (منفی یا مثبت) کوئی حکم آپ کو نہیں دیا گیا تھا۔ ایک تو منافقوں کو جہاد میں شریک نہ ہونے کی اجازت ‘ دوسرے بدر کے قیدیوں کا معاوضہ لے لینا اور فدیہ لے کر ان کو چھوڑ دینا (دونوں پر) اللہ نے آپ کو عتاب کیا ‘ جیسا کہ آپ لوگ سن رہے ہیں (یعنی ایک عتاب اس آیت میں اور دوسرا عتاب قبول فدیہ والی آیت میں) ۔
Top