Mazhar-ul-Quran - Al-Qalam : 17
اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَاۤ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ١ۚ اِذْ اَقْسَمُوْا لَیَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِیْنَۙ
اِنَّا : بیشک ہم نے بَلَوْنٰهُمْ : آزمائش میں ڈالا ہم نے ان کو كَمَا بَلَوْنَآ : جیسا کہ آزمایا ہم نے اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ : باغ والوں کو اِذْ اَقْسَمُوْا : جب انہوں نے قسم کھائی لَيَصْرِمُنَّهَا : البتہ ضرور کاٹ لیں گے اس کو مُصْبِحِيْنَ : صبح سویرے
بیشک4 ہم نے انہیں (قحط اور بھوک سے) آزمایا جیسا کہ ہم نے اس باغ والوں کو آزمایا تھا۔ جبکہ ان لوگوں نے قسم کھائی کہ اس باغ کے پھل ضرور صبح ہوتے ہی توڑ لیں گے (تاکہ مسکینوں کو خبر نہ ہو) ۔
(ف 4) اہل مکہ جب اپنے مال ومتاع پر بہت اترائے اور اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی، اور نبی ﷺ سے طرح طرح کی سرش کی انہوں نے شروع کی تو نبی ﷺ نے ان کے حق میں دعا فرمائی کہ یارب ، انہیں ایسی قحط سالی میں مبتلا کر جیسی حضرت یوسف کے زمانہ میں ہوئی تھی چناچہ اہل مکہ قحط کی مصیبت میں ایسے مبتلا ہوگئے کہ وہ بھوک کی شدت میں مردار اور ہڈیاں تک کھاگئے اور اس طرح آزمائش میں ڈالے گئے ، آخرنبی ﷺ سے رفع قحط کی دعا کرنے کی التجا کی اورآ پکی دعا سے قحط رفع ہوا۔ اس لیے اوپر کی ایتوں میں ولید بن مغیرہ کا خاص طور پر ذکر فرما کر سب کو قحط کا قصہ یاد دلا اور فرمایا کہ ان لوگوں کی نافرمانی کے سبب سے ان پر قحط کی آفت اسی طرح آئی تھی جیسے باغ والوں پر ان کے باغ کے اجڑنے کے وقت آئی تھی۔ غرباء اور مستحقین کی امداد نہ کرنے کا انجام اور توبہ کی فضیلت۔ اس قصہ کا حاصل یہ ہے کہ یمن کے ملک میں ایک کا ایک باغ تھا وہ شخص نیک نیت تھا باغ کے میوے کثرت سے فقراء کو دیتا تھا جب باغ میں جا تو فقراء کو بلالیتا، تمام گرپڑے میوے فقراء لے لیتے اور باغ میں بستر بچھادیے جاتے جب میوتے توڑ جاتے تو میوے بستروں پر گرتے وہ بھی فقراء کو دیدیے جاتے ، اور جو خالص اپنا حصہ ہوتا اس میں دسواں حصہ فقراء کودے دیتا۔ اسی طرح کھیتی کاٹنے کے وقت بھی اس نے فقراء کے حقوق بہت زیادہ مقرر کیے تھے اس کی وفات کے بعد اس کے تین بیٹے وارث ہوئے انہوں نے باہم مشورہ کیا کہک مال قلیل ہے کنبہ بہت ہے اگر والد کی طرح ہم بھی خیرات جاری رکھیں گے تو تنگ دست ہوجائیں گے آپس میں مل کر قسمیں کھائیں کہ صبح سویرے لوگوں کے اٹھنے سے پہلے باغ چل کر میوے توڑ کر گھر لے آئیں فقراء جائیں تو وہاں کچھ نہ پائیں گے اور اپنی اس تدبیر پر ایسا یقین جمایا کہ انشاء اللہ بھی نہ کہا انہوں نے اپنی ناشکری کا یہ پھل پایا کہ وہاں رات کو اللہ کے حکم آگ لگ گئی اور ساراباغ جل کر خاک سیاہ ہوگیا۔ جب یہ لوگ باغ تک پہنچے تو اس کی حالت دیکھ کر ان کو خیال ہوا کہ شاید اندھیرے کی وجہ سے ہم راستہ بھول گئے اور کہیں اور آگئے ، پھر جب جگہ پہچان گئے تو اپنی ناشکری کی نیت پر بڑا افسوس کیا، منجھلابھائی ان میں زیادہ ہوشیار تھا اس نے مشورہ کے وقت متنبہ کیا تھا کہ اللہ کو مت بھولویہ سب اسی کا انعام سمجھو، محتاج کی خدمت سے دریغ نہ کرو، جب کسی نے اس کی بات پر کان نہ دھراچپ رہا اور انہی کا شریک حال ہوگیا۔ اب یہ تباہی دیکھ کر اس نے وہ پہلی بات یاد دلائی اور اب اپنی تقصیر کا اعتراف کرکے رب کی طرف رجوع ہوئے اور آخر میں سب مل کر کہنے لگے کہ واقعی ہماری سب کی زیادتی تھی کہ ہم نے فقیروں اور محتاجوں کا حق مارنا چاہا، اور حرص وطمع میں آکر اصل بھی کھوسبیٹھے یہ جو کچھ کھوبیٹھے یہ جو کچھ خرا بھی آئی اس مین ہم ہی قصوروار ہیں مگر اب بھی ہم اپنے رب سے ناامید نہیں کیا عجیب ہے وہ اپنی رحمت سے پہلے باغ سے بہتر باغ عطا فرمائے ، ان لوگوں نے صدق واخلاص سے توبہ کی تو اللہ نے انہیں اس کے عوض اس سے بہتر باغ عطافرمائے اورس میں کثرت پیداوار اور لطافت وآب ہواکایہ عالم تھا کہ اس کے انگوروں کا ایک خوشہ گدھے پر بار کیا جاتا تھا آخر آیت میں قریش کو ہوشیار کیا کہ دیکھو خدا کی نافرمانی اور اس کی نعمتوں کی ناشکری سے دنیا میں بھی خدا کی آفتیں یوں آیا کرتی ہیں اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ چند روزہ دنیا ہی کیا اور اس کی چلتی پھرتی آفت ہی کیا، یہ تو دنیا کے عذاب کا ایک چھوٹا سانمونہ ہے جسے کوئی ٹال نہ سکا۔ آخرت کی آفت بڑی آفت ہے جس کی مدت کا کچھ ٹھکانہ نہیں۔
Top