Mualim-ul-Irfan - Ar-Ra'd : 36
وَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَفْرَحُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مِنَ الْاَحْزَابِ مَنْ یُّنْكِرُ بَعْضَهٗ١ؕ قُلْ اِنَّمَاۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰهَ وَ لَاۤ اُشْرِكَ بِهٖ١ؕ اِلَیْهِ اَدْعُوْا وَ اِلَیْهِ مَاٰبِ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰتَيْنٰهُمُ : ہم نے انہیں دی الْكِتٰبَ : کتاب يَفْرَحُوْنَ : وہ خوش ہوتے ہیں بِمَآ : اس سے جو اُنْزِلَ : نازل کیا گیا اِلَيْكَ : تمہاری طرف وَ : اور مِنَ : بعض الْاَحْزَابِ : گروہ مَنْ : جو يُّنْكِرُ : انکار کرتے ہیں بَعْضَهٗ : اس کی بعض قُلْ : آپ کہ دیں اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اُمِرْتُ : مجھے حکم دیا گیا اَنْ : کہ اَعْبُدَ : میں عبادت کروں اللّٰهَ : اللہ وَ : اور لَآ اُشْرِكَ : نہ شریک ٹھہراؤں بِهٖ : اس کا اِلَيْهِ : اس کی طرف اَدْعُوْا : میں بلاتا ہوں وَاِلَيْهِ : اور اسی کی طرف مَاٰبِ : میرا ٹھکانا
اور وہ لوگ جن کو دی ہے ہم نے کتاب خوش ہوتے ہیں اس چیز پر جو اتاری گئی ہے آپ کی طرف ، اور بعض فرقوں میں سے وہ ہیں جو اس کی بعض باتوں سے انکار کرتے ہیں ، آپ کہہ دیجئے ، بیشک مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں عبادت کروں اللہ کی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤں ، اسی کی طرف میں دعوت دیتا ہوں اور اس کی طرف میرا لوٹ کر جانا ہے ۔
(ربط آیات) مکی سورتوں میں زیادہ تر بنیادی حقائق کا ذکر ہے اور جزئیات کم ہیں ، اس سورة میں عقیدے کی اصلاح کا پہلو نمایاں ہے ، ابتدائی آیات میں قرآن کریم کی حقانیت اور صداقت کا ذکر ہوا ۔ درمیان میں کافروں اور مشرکوں کی مذمت بیان ہوئی ، ان کے اوصاف اور ان کا انجام ذکر کیا گیا ، اس کے ساتھ ساتھ اہل ایمان اور نیکی والے لوگوں کا تذکرہ ہوا ، ان کے اوصاف اور انکا انجام بھی بیان ہوا تیسرے رکوع میں یہ آیت کریمہ گزر چکی ہے ۔ (آیت) ” افمن یعلم انما انزل الیک من ربک الحق کمن ھو اعمی “۔ بھلا وہ شخص جو جانتا ہے کہ آپ کی طرف آپ کے رب سے حق نازل کیا گیا ہے وہ اندھے آدمی کی طرح ہو سکتا ہے ؟ بیشک عقلمند لوگ ہی نصیحت پکڑتے ہیں ، یہ بات اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کی حقانیت اور صداقت کے حق میں بیان فرمائی گویا قرآن کریم کو منزل من اللہ تسلیم کرنے والا شخص نور ہدایت پر ہوگا اور اسے نہ تسلیم کرنے والا اندھے کے موافق ہوگا جو نور ایمان اور نور ہدایت سے خالی ہے ۔ (تنزیل کتاب پر خوشی) اب آج کی آیت میں قرآن پاک سے متعلق ہی ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” والذین اتینھم الکتب “۔ وہ لوگ جن کو ہم نے کتاب دی ہے (آیت) ” یفرحون بما انزل الیک “۔ وہ خوش ہوتے ہیں اس چیز پر جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہے ، یہاں پر کتاب سے مراد خود قرآن حکیم بھی ہو سکتا ہے اور پہلی کتب سماویہ ‘ تورات ، انجیل ، وغیرہ بھی ہوسکتی ہیں ، اگر اس کا اطلاق قرآن مجید پر کیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ تنزیل کتاب پر حاملین قرآن خوش ہوتے ہیں اور یہ حضور خاتم النبیین ﷺ کی امت کے لوگ ہیں ان لوگوں کا خوش ہونا فطری امر ہے کہ انہیں قرآن پاک کی صورت میں دین ودنیا کی فلاح کی چابی حاصل ہوگئی ہے ، سورة یونس میں موجود ہے اللہ نے فرمایا اے لوگو ! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے موعظت (آیت) ” وشفآء لما فی الصدور “۔ اور وہ چیز آگئی ہے جو دلوں کی بیماریوں کے لیے شفا ہے آگے فرمایا ، اے پیغمبر ! آپ ان سے کہہ دیں کہ تمہیں یہ چیز اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے حاصل ہوئی ہے (آیت) ” فبذلک فلیفرحوا “ پس اس کے ساتھ خوش ہوجاؤ (آیت) ” ھو خیرمما یجمعون “۔ یہ بہتر ہے اس چیز سے جو یہ دنیا کا مال اکٹھا کرتے ہیں ، مال و دولت تو فانی چیز ہے جب کہ قرآن حکیم باقی رہنے والی چیز ہے ، لہذا اس پر خوشی منانا اہل ایمان کے لیے قدرتی بات ہے ۔ (اہل کتاب کا کردار) اور اگر کتاب سے تورات اور انجیل مراد ہیں تو مطلب یہ ہوگا کہ جن لوگوں کو اللہ نے پہلی کتابوں کا علم عطا فرمایا ہے وہ بھی خوش ہوتے ہیں ، نزول قرآن کے زمانے میں جتنی بھی سابقہ کتب موجود تھیں وہ سب کی سب بگڑ چکی تھیں ، خود ان کتابوں کے ماننے والوں نے اپنی خواہشات کی خاطر کتابوں میں ردوبدل کردیا تھا ، زرتشتیوں کی کتاب کا حلیہ ہی بگاڑ دیا گیا تھا ، باقی صحائف کا بھی بہت برا حال ہوچکا تھا ، البتہ تورات اور انجیل ایسی کتابیں تھیں جن کا بیشتر حصہ اگرچہ تحریف ہوچکا تھا ، تاہم کچھ نہ کچھ اصلیت بھی باقی تھی اور ان کے ماننے والے یہود ونصاری بھی موجود تھے ، خود عیسائی علماء کا بیان ہے کہ گذشتہ صدی تک انجیل میں تین ہزار کے قریب تبدیلیاں آچکی تھیں ، بائیل کے ہر نئے ایڈیشن میں کوئی نہ کوئی نئی تبدیلی آتی ہے ، ابھی پچھلی صدی تک اس میں لفظ فارقلیط موجود تھا ، سریانی زبان کے اس لفظ کا عربی معنی احمد بنتا ہے ، جس کا مطلب ستودہ جہان ہے ، مگر موجودہ انجیل سے یہ لفظ حذف کرکے شفیع اور مددگار کا لفظ شامل کردیا گیا ہے ، اس کی تصدیق قرآن پاک نے بھی کی ہے ، سورة صف میں موجود ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ، اے بنی اسرائیل ! میں تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں اپنے سے پہلی کتاب تورات کا مصدق ہوں (آیت) ” ومبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد “۔ اور میں خوشخبری دینے والا ہوں ایک عظیم الشان رسول کی جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد ہوگا ، آپ نے فرمایا کہ اللہ نے میرے ذمہ دو فرائض لگانے ہیں ، ایک یہ ہے کہ میں تمام بنی اسرائیل کی راہنمائی کے لیے بھیجا گیا ہوں اور دوسرا یہ کہ میں اپنے بعد والے نبی کی بشارت سنانے کے لیے آیا ہوں ۔ (حق پرست اہل کتاب) جس طرح تورات وانجیل کا کچھ نہ کچھ حصہ خود اس کے اپنے پیروکاروں کی دست برد سے ابھی تک محفوظ ہے ، اسی طرح اہل کتاب میں سے کچھ نہ کچھ حق پرست بھی ہر زمانے میں موجود رہے ہیں اگرچہ ان کی غالب اکثریت ہمیشہ ضد اور عناد پر ہی اڑی رہی ہے مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے کہ نزول قرآن کے زمانہ میں مدینہ کے گرد و نواح میں یہودیوں کے دس بڑے بڑے عالم تھے ، حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ دس آدمی اسلام قبول کرلیں تو آئندہ کوئی یہودی نظر نہیں آئے گا ، مگر ہوا یہ کہ ان دس میں سے صرف ایک شخص عبداللہ بن سلام ؓ کو اللہ نے ایمان کی توفیق بخشی ، باقی سب جانتے بوجھتے ضد پر اڑے رہے اور اسلام کی مخالفت ہی کرتے رہے سورة بقرہ میں اللہ نے ان کو خبردار کیا (آیت) ” ولا تکونوا اول کافر بہ “۔ کہ قرآن کے ساتھ سب سے پہلے انکار کرنے والے نہ بن جانا ، اگر تم نے قرآن کے ساتھ کفر کیا ، تو تمہارے بعد آنے والی نسلیں بھی تمہارے نقش قدم پر چلتے ہوئے انکار ہی کرتی چلی جائیں گی چناچہ ایسا ہی ہوا ، اولین اہل کتاب نے انکار کیا تو آج منکرین کی تعداد اربوں میں ہے ، آج دنیا میں اڑھائی ارب عیسائی موجود ہیں جو چودہ سو سال سے قرآن پاک کی متواتر مخالفت کرتے آرہے ہیں ، یہودی اگرچہ تعداد میں بہت کم یعنی دو کروڑ کے قریب ہوں گے ، مگر اسلام کو نقصان پہنچانے میں انہوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ، ان کے بڑوں نے قرآن کا انکار کیا ، اسلام کو قبول نہ کیا ، تو آج ان کی اولادیں بھی اسی روشن پر چل رہی ہیں مگر جیسا کہ سورة آل عمران میں موجود ہے (آیت) ” لیسوا سوآئ “ سب کے سب برابر نہیں ، مشہور مقولہ ہے کہ پانچوں انگلیاں ایک سی نہیں ہوتیں ، یہود ونصاری میں سے بھی بعض حق پرست ہمیشہ موجود رہے ہیں ، حضور ﷺ کے زمانہ مبارک میں بھی بعض سعادت مند اہل کتاب موجود تھے جنہوں نے بالآکر ایمان قبول کرلیا ، عالموں میں سے عبداللہ بن سلام ؓ اور بعض دوسرے منصف مزاج لوگ ہیں ، بادشاہوں میں نجاشی والی حبشہ کا نام آتا ہے ، اس کے علاوہ 32 دیگر حق طلب عیسائی بھی موجود تھے ، اللہ نے ان کی تعریف بیان کی ہے نجران کے چالیس آدمیوں نے بھی ایمان قبول کیا ، تمیم داری ؓ کا مذہب بھی عیسائیت تھا ، بعد میں ایمان قبول کرلیا ، سلمان فارسی ؓ کا نام بھی اسی فہرست میں آتا ہے ، ایسے لوگ پہلے کتاب کا علم رکھتے تھے اور حق کے طالب تھے ، تو اللہ نے ان کو ہدایت نصیب فرمائی ، ایسے ہی لوگوں کے متعلق ارشاد ہے کہ وہ نزول قرآن پر خوش ہوتے ہیں ، ان کی خوشی کی وجہ یہ ہے کہ جب انہوں نے دیکھا کہ قرآن کریم پہلی کتابوں کا مصدق ہے ، ان میں پیدا کی گئی خرابیوں کی نشاندہی کرتا ہے ، بنیادی حقائق کی تصدیق کرتا ہے اور سارے نبیوں پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے تو ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی ۔ اس زمانے میں بھی کہیں نہ کہیں حق پرست نکل آتے ہیں فرانس کے ایک بڑے سائنسدان نے اسلام قبول کیا ، یہ شخص الجزائریوں سے میل جول کے نتیجے میں مسلمان ہوا ، ملکہ وکٹوریہ کے زمانے میں مسٹر کو یلم بہت بڑا بیرسٹر تھا ، وہ اپنے خاندان کے اسی افراد سمیت مسلمان ہوا ، اس وقت دنیا میں انگریز انتہائی عروج پر تھا ، انہوں نے اس کے ساتھ بڑے جھگڑے کئے مگر وہ تنہا مقابلہ کرتا رہا ۔ اور ایمان پر قائم رہا ، یہودیوں میں سے جرمنی کے رہنے والے محمد اسد کو ایمان کی دولت نصیب ہوئی ، وہ ابھی زندہ ہے ، محمد پکھتال مترجم قرآن ہے یہ شخص ترکوں کے آخری شیخ الاسلام کی مجلس میں سات سال تک بیٹھا رہا ، آخر اللہ نے کایا پلٹ دی اور وہ مسلمان ہوگیا ، ان کا ترجمہ ہم پڑھتے ہیں ، اس نے ترجمہ مکمل کرکے مصری علماء کے سامنے پیش کیا تاکہ اگر کوئی غلطی ہو تو دور ہو سکے اور اب یہ انگریزی ترجمہ ساری دنیا میں شائع ہو رہا ہے ، یہ شخص کچھ عرصہ تک ہندوستان کے صوبہ مدارس میں بھی رہا ، نواب حیدر آباد کے ہاں بھی رہا ، انگریزی اخبار کے ایڈیٹر کے طور پر بھی کام کیا ، اب فوت ہوچکا ہے ، اہل کتاب کے علاوہ ہندوؤں ، سکھوں ، بدھوں اور جینیوں میں سے بھی بعض حق پرست ہوئے مگر کوئی اکا دکا ، یہود ونصاری کے متعلق تو اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر فرمایا ہے کہ ان میں سے کچھ مومن ہیں (آیت) ” واکثرھم الفسقون “۔ (آل عمران) مگر ان کی اکثریت فاسق ہے ۔ (قرآن کا عملی انکار) فرمایا جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے ، وہ خوش ہوتے ہیں اس چیز پر جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہے (آیت) ” ومن الاحزاب من ینکر بعضہ “۔ اور فرقوں میں سے بعض وہ ہیں جو اس کے بعض حصے کا انکار کرتے ہیں ، قرآن پاک کے موافقین اور مخالفین عربوں میں بھی تھے اور یہود ونصاری میں بھی ، آج مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ قرآن پاک کی بہت سی باتوں کا عملی طور پر انکار کر رہے ہیں جب انگریز نے برصغیر میں عنان حکومت سنبھالی تو اس نے لوگوں سے دریافت کیا تھا کہ تم شریعت کا قانون چاہتے ہو یا رسم و رواج پر عمل پیرا ہونا چاہتے ہو ، اس طرح بعض اضلاع کے لوگوں نے رسم و رواج کو شریعت پر ترجیح دی اور ان کے معاملات شریعت کی بجائے رسم و رواج کی بنیاد پر فیصلہ ہونے لگے ، ظاہر ہے کہ ان کو شرعی قانون اس لیے ناپسند تھا کہ وہ ان کی ذاتی خواہشات کے راستے میں حائل تھا ، ایسے ہی لوگ ہیں جو قرآن کے بعض حصے کو مانتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں ، ان کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہے کہ دنیا میں ان کو ذلت ہوگی اور آخرت میں سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے ، جب تک قرآن پاک پر مکمل طور پر عمل نہیں ہوگا ، اس وقت تک مسلمانوں کو اس دنیا میں عزت نصیب نہیں ہو سکتی ۔ (شرک سے برات) آگے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو خطاب کیا ہے قل آپ کہہ دیں (آیت) ” انما امرت ان اعبداللہ “۔ مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کروں (آیت) ” ولا اشرک بہ “۔ اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤں ، مشرکین مکہ کہتے تھے کہ تم ہمارے معبودوں کی برا بھلا کہتا ہے ، اللہ نے فرمایا کہ آپ صاف کہہ دیں کہ یہ بےجان بت نے معنی ہیں میں تو صرف اللہ کی عبادت کرتا ہوں کسی دوسرے کو الہ تسلیم نہیں کرسکتا ۔ عبادت انتہائی درجے کی تعظیم کو کہا جاتا ہے جو اس عقیدے سے اٹھے کہ جس ہستی کی عبادت کر رہا ہوں ، اس کو مافوق الاسباب تمام اشیاء پر کنٹرول حاصل ہے ، وہ علیم کل ، خالق اور مدبر ہے ، اس ذات کی تعظیم قول سے بھی ہوتی ہے ، فعل سے بھی اور عمل سے بھی ، چناچہ سورة انعام میں اللہ نے شرک کی تمام اقسام کی مذمت بیان کی ہے ، سورة کی ابتداء ہی ان الفاظ سے ہوتی ہے کہ تمام تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں ، جس نے آسمان اور زمین پیدا کیے (آیت) ” وجعل الظلمت والنور “۔ نیز اندھیروں اور روشنی کو بھی پیدا فرمایا ، یہ ان ثنوی فرقہ والوں کی تردید ہے ، جو اندھیروں اور روشنی کا علیحدہ علیحدہ خالق تسلیم کرتے ہیں ، ان کے نزدیک نیکی اور بدی کے خدا جدا جدا ہیں ، یزدان اور اہرمن دو خدا تسلیم کرنا خدا کی ذات میں شرک کرنا ہے ، اسی طرح خدا کی صفات میں شرک کرنے والے بھی بہت لوگ ہیں ، جو خدا تعالیٰ کی صفات مختصہ ہیں دوسروں کو بھی شریک کرتے ہیں ، ایسے لوگ علیم کل ، قادر مطلق حاضر ناظر ، اور مختار مطلق غیر اللہ کو بھی مانتے ہیں ، وہ خدا کے ساتھ دوسروں کو بھی مدبر مانتے ہیں ، سمجھتے ہیں کہ فلاں بھی ہماری حاجت روائی اور مشکل کشائی ، کرسکتا ہے یا کم از کم ہماری سفارش ہی کرسکتا ہے ، ۔ نذر ونیاز میں شرک ، قبر پرستی ، چڑھاوے چڑھانا اور روشنی کرنا سب اسی قبیل سے ہیں کبھی گنڈے تعویز کے ذریعے غیر اللہ سے مدد مانگی جاتی ہے کبھی مکان کی بنیادوں میں خون گرایا جاتا ہے تاکہ جنات سے پناہ حاصل کی جائے ، بسوں پر ” یا علی مدد “ اور یا غوث الاعظم “ کے کتبے لکھے جاتے ہیں ، کبھی جبرائیل اور میکائیل کو مدد کے لیے پکارا جاتا ہے اور کبھی اولیاء اللہ سے حاجت روائی کی امید رکھی جاتی ہے یہ سب شرک کی مختلف صورتیں ہیں جو آج بھی مسلمانوں میں رائج ہیں اللہ کے سارے نبی اللہ کی عبادت کی دعوت دیتے آئے ہیں ۔ (آیت) ” یقوم اعبدوا اللہ مالک من الہ غیرہ “۔ (ہود) اے میری قوم کے لوگو ! صرف اللہ کی عبادت کرو کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی زبان سے بھی یہی کہلوایا ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤں ۔ (دعوت الی اللہ) فرمایا ، اے پیغمبر ! آپ یہ بھی کہہ دیں (آیت) ” الیہ ادعوا “ میں اسی ایک اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں جس کا کوئی شریک نہیں ، نہ عبادت میں ، نہ صفت میں اور نہ حقوق میں ، سورة یوسف میں بھی گزر چکا ہے اللہ نے حضور ﷺ کی زبان سے کہلوایا کہ یہ میرا راستہ ہے ۔ (آیت) ” ادعوا الی اللہ “ میں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں ۔ (آیت) ” علی بصیرۃ انا ومن اتبعنی “۔ میں بھی بصیرت کی دعوت ہے ، کفر ، شرک اور برائی کی دعوت ظلمت ہے ، ایمان کی دعوت نور ہے جس سے انسان کے قلب میں بصیرت پیدا ہوتی ہے ، مجھے اور میرے پیروکاروں کو دین کی کسی بات میں شبہ نہیں ہے ۔ تمام انبیاء کی بات ہمیشہ واضح ہوتی ہے ، حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا تھا ، لوگو ! میری دعوت کو خوب اچھی طرح سمجھ لو میرا بھروسہ اللہ تعالیٰ پر ہے ، تمام شرکاء کو بھی جمع کرلو ، (آیت) ” ثم لایکن امرکم علیکم غمۃ “۔ پھر تمہیں کسی بات میں شبہ نہیں رہنا چاہئے ، میں واضح طریقے پر بات کر رہا ہوں ، میں خدا تعالیٰ کی طرف دعوت دیتا ہوں (آیت) ” والیہ ماب “ اور اسی کی طرف میرا ٹھکانا ہے ، مجھے بہرحال اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔ (قرآن در عربی زبان) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” وکذلک انزلنہ حکما عربیا “۔ اور اسی طریقے سے ہم نے اس قرآن کو ایک فیصلے کے طور پر اتارا ہے عربی زبان میں ، ” کذلک “ کی تشبیہ سابقہ کتب سماویہ کی طرف ہے کہ جس طرح ہم سابقہ ادوار میں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام پر وحی بھیجتے رہے ہیں ، اسی طرح ہم نے آپ کی طرف قرآن نازل کیا ہے ، اور یہ عربی زبان میں ہے قرآن پاک میں یہ اصول بیان کردیا گیا ہے (آیت) ” وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ “ (ابراہیم) ہم نے ہر رسول اس کی قوم کی زبان میں بھیجا ہے ، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سریانی یا عبرانی زبان بولتے تھے تو تورات عبرانی میں نازل ہوئی ، دیگر صحائف بھی ہر نبی کی قومی زبان میں نازل ہوئے ، پھر سب سے آخر میں اللہ نے اپنے آخری نبی کو عربوں میں پیدا کیا ، تو قرآن پاک بھی عربی زبان میں نازل ہوا ۔ عربی زبان کی ترقی نزول قرآن سے سولہ سترہ سو سال پہلے شروع ہوئی اور حضور ﷺ کے زمانہ تک یہ زبان انتہائی عروج پر پہنچ چکی تھی ، برصغیر میں اردو زبان کی ترویج خواجہ فریدالدین گنج شکر (رح) کے زمانے سے شروع ہوئی اور اب تک یہ ترقی کی انتہائی بلندیوں تک پہنچ چکی ہے سائنس فلسفہ ، تاریخ ، معاشیات ، سیاسیات وغیرہ اس زبان میں منتقل ہوچکے ہیں ، انگریزی زبان کی ترقی انگریزوں کے دو سوسالہ عروج کی مرہون منت ہے ، اسی طرح حضور کے زمانہ مبارک تک عربی زبان کو بڑی ترقی حاصل ہوچکی تھی ، عربوں میں بڑے بڑے شعراء اور خطیب تھے ، بڑے بڑے نفیس اور باریک بین متکلم موجود تھے مگر عربوں کو تسلیم کرنا پڑا کہ وہ قرآن کی فصاحت وبلاغت کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں ، مسیلمہ کذاب نے قرآن کے مقابلے میں اول فول کلام پیش کرنے کی کوشش کی تھی مگر حضرت عمرو ابن العاص ؓ کا اگرچہ اس کے ساتھ دوستانہ تھا اور وہ ابھی اسلام بھی نہیں لائے تھے ، مگر کہنے لگے ، یہ تیرے بس کا روگ نہیں ، آپ نے اس کے منہ پر تھوک دیا تھا ۔ امام شاہ ولی اللہ محدت دہلوی (رح) اور امام ابوبکر جصاص (رح) فرماتے ہیں کہ قرآن کا مقابلہ صرف زبان کے لحاظ سے نہیں بلکہ نظام کے لحاظ سے بھی ہے اگر قرآن کا چیلنج صرف زبان کے لحاظ سے ہوتا تو صرف عربوں کو خطاب ہوتا ، مگر اس کے مخاطب تو تمام بنی نوع انسان ہیں ، سورة اعراف میں اللہ کا ارشاد ہے کہ اے پیغمبر ! آپ تمام لوگوں سے کہہ دیں (آیت) ” انی رسول اللہ الیکم جمیعا “ میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ، میں کسی خاص قوم ، یا خطے یا خاص زمانے کے لیے نہیں آیا بلکہ روئے زمین کے تمام بنی نوع انسان کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ، اور یہ میری ڈیوٹی ہے ، کہ میں بھی خبردار کر دوں اور ان سب لوگوں کو متبہ کر دوں جہاں تک یہ قرآن پہنچے ، بہرحال اس کے اولین مخاطبین اہل عرب ہیں اور پھر وہ تمام لوگ جہاں تک یہ پیغام الہی پہنچے ۔ (وعید عامہ) فرمایا (آیت) ” ولئن اتبعت اھوآء ھم بعد ما جآء ک من العلم “۔ اگر آپ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی بعد اس کے کہ آپ کے پاس علم آچکا ہے تو یاد رکھیں (آیت) ” مالک من اللہ من ولی ولا واق “۔ آپ کے لیے اللہ کے سامنے نہ کوئی حمائتی ہوگا اور نہ کوئی بچانے والا ، اس آیت کریمہ میں مخاطب اگرچہ حضور ﷺ کی ذات مبارکہ ہے مگر اس سے مراد آپ کی قوم کو بات سمجھانا ہے کہ لوگو ! اچھی طرح سن لو کہ قانون اور ضابطہ آجانے کے بعد اس کی پیروی کی بجائے اگر خواہشات نفسانیہ پرچلو گے ، رسم و رواج کو اپناؤ گے یا برادری اور قبیلے کی بات پر عمل کرو گے تو پھر خدا کی گرفت میں آؤ گے اور اس سے بچ نہیں سکوگے علم کی عدم موجودگی میں تو انسان ایک حد تک مجبور ہوتا ہے مگر قرآن کے ذریعے علم آگیا تو اب کوئی حیلہ قابل قبول نہیں ہوگا ، اب صرف اور صرف قرآن کے پروگرام پر عمل کرنا ہوگا اسلام کی جگہ اب کوئی ازم قابل قبول نہیں ہوگا ، اگر اب بھی اسلام کے نظام کو نہیں اپناؤ گے تو پکڑے جاؤ گے ۔
Top