Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Ar-Ra'd : 36
وَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَفْرَحُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مِنَ الْاَحْزَابِ مَنْ یُّنْكِرُ بَعْضَهٗ١ؕ قُلْ اِنَّمَاۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰهَ وَ لَاۤ اُشْرِكَ بِهٖ١ؕ اِلَیْهِ اَدْعُوْا وَ اِلَیْهِ مَاٰبِ
وَالَّذِيْنَ
: اور وہ لوگ جو
اٰتَيْنٰهُمُ
: ہم نے انہیں دی
الْكِتٰبَ
: کتاب
يَفْرَحُوْنَ
: وہ خوش ہوتے ہیں
بِمَآ
: اس سے جو
اُنْزِلَ
: نازل کیا گیا
اِلَيْكَ
: تمہاری طرف
وَ
: اور
مِنَ
: بعض
الْاَحْزَابِ
: گروہ
مَنْ
: جو
يُّنْكِرُ
: انکار کرتے ہیں
بَعْضَهٗ
: اس کی بعض
قُلْ
: آپ کہ دیں
اِنَّمَآ
: اس کے سوا نہیں
اُمِرْتُ
: مجھے حکم دیا گیا
اَنْ
: کہ
اَعْبُدَ
: میں عبادت کروں
اللّٰهَ
: اللہ
وَ
: اور
لَآ اُشْرِكَ
: نہ شریک ٹھہراؤں
بِهٖ
: اس کا
اِلَيْهِ
: اس کی طرف
اَدْعُوْا
: میں بلاتا ہوں
وَاِلَيْهِ
: اور اسی کی طرف
مَاٰبِ
: میرا ٹھکانا
اور وہ لوگ جن کو دی ہے ہم نے کتاب خوش ہوتے ہیں اس چیز پر جو اتاری گئی ہے آپ کی طرف ، اور بعض فرقوں میں سے وہ ہیں جو اس کی بعض باتوں سے انکار کرتے ہیں ، آپ کہہ دیجئے ، بیشک مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں عبادت کروں اللہ کی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤں ، اسی کی طرف میں دعوت دیتا ہوں اور اس کی طرف میرا لوٹ کر جانا ہے ۔
(ربط آیات) مکی سورتوں میں زیادہ تر بنیادی حقائق کا ذکر ہے اور جزئیات کم ہیں ، اس سورة میں عقیدے کی اصلاح کا پہلو نمایاں ہے ، ابتدائی آیات میں قرآن کریم کی حقانیت اور صداقت کا ذکر ہوا ۔ درمیان میں کافروں اور مشرکوں کی مذمت بیان ہوئی ، ان کے اوصاف اور ان کا انجام ذکر کیا گیا ، اس کے ساتھ ساتھ اہل ایمان اور نیکی والے لوگوں کا تذکرہ ہوا ، ان کے اوصاف اور انکا انجام بھی بیان ہوا تیسرے رکوع میں یہ آیت کریمہ گزر چکی ہے ۔ (آیت) ” افمن یعلم انما انزل الیک من ربک الحق کمن ھو اعمی “۔ بھلا وہ شخص جو جانتا ہے کہ آپ کی طرف آپ کے رب سے حق نازل کیا گیا ہے وہ اندھے آدمی کی طرح ہو سکتا ہے ؟ بیشک عقلمند لوگ ہی نصیحت پکڑتے ہیں ، یہ بات اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کی حقانیت اور صداقت کے حق میں بیان فرمائی گویا قرآن کریم کو منزل من اللہ تسلیم کرنے والا شخص نور ہدایت پر ہوگا اور اسے نہ تسلیم کرنے والا اندھے کے موافق ہوگا جو نور ایمان اور نور ہدایت سے خالی ہے ۔ (تنزیل کتاب پر خوشی) اب آج کی آیت میں قرآن پاک سے متعلق ہی ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” والذین اتینھم الکتب “۔ وہ لوگ جن کو ہم نے کتاب دی ہے (آیت) ” یفرحون بما انزل الیک “۔ وہ خوش ہوتے ہیں اس چیز پر جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہے ، یہاں پر کتاب سے مراد خود قرآن حکیم بھی ہو سکتا ہے اور پہلی کتب سماویہ ‘ تورات ، انجیل ، وغیرہ بھی ہوسکتی ہیں ، اگر اس کا اطلاق قرآن مجید پر کیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ تنزیل کتاب پر حاملین قرآن خوش ہوتے ہیں اور یہ حضور خاتم النبیین ﷺ کی امت کے لوگ ہیں ان لوگوں کا خوش ہونا فطری امر ہے کہ انہیں قرآن پاک کی صورت میں دین ودنیا کی فلاح کی چابی حاصل ہوگئی ہے ، سورة یونس میں موجود ہے اللہ نے فرمایا اے لوگو ! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے موعظت (آیت) ” وشفآء لما فی الصدور “۔ اور وہ چیز آگئی ہے جو دلوں کی بیماریوں کے لیے شفا ہے آگے فرمایا ، اے پیغمبر ! آپ ان سے کہہ دیں کہ تمہیں یہ چیز اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے حاصل ہوئی ہے (آیت) ” فبذلک فلیفرحوا “ پس اس کے ساتھ خوش ہوجاؤ (آیت) ” ھو خیرمما یجمعون “۔ یہ بہتر ہے اس چیز سے جو یہ دنیا کا مال اکٹھا کرتے ہیں ، مال و دولت تو فانی چیز ہے جب کہ قرآن حکیم باقی رہنے والی چیز ہے ، لہذا اس پر خوشی منانا اہل ایمان کے لیے قدرتی بات ہے ۔ (اہل کتاب کا کردار) اور اگر کتاب سے تورات اور انجیل مراد ہیں تو مطلب یہ ہوگا کہ جن لوگوں کو اللہ نے پہلی کتابوں کا علم عطا فرمایا ہے وہ بھی خوش ہوتے ہیں ، نزول قرآن کے زمانے میں جتنی بھی سابقہ کتب موجود تھیں وہ سب کی سب بگڑ چکی تھیں ، خود ان کتابوں کے ماننے والوں نے اپنی خواہشات کی خاطر کتابوں میں ردوبدل کردیا تھا ، زرتشتیوں کی کتاب کا حلیہ ہی بگاڑ دیا گیا تھا ، باقی صحائف کا بھی بہت برا حال ہوچکا تھا ، البتہ تورات اور انجیل ایسی کتابیں تھیں جن کا بیشتر حصہ اگرچہ تحریف ہوچکا تھا ، تاہم کچھ نہ کچھ اصلیت بھی باقی تھی اور ان کے ماننے والے یہود ونصاری بھی موجود تھے ، خود عیسائی علماء کا بیان ہے کہ گذشتہ صدی تک انجیل میں تین ہزار کے قریب تبدیلیاں آچکی تھیں ، بائیل کے ہر نئے ایڈیشن میں کوئی نہ کوئی نئی تبدیلی آتی ہے ، ابھی پچھلی صدی تک اس میں لفظ فارقلیط موجود تھا ، سریانی زبان کے اس لفظ کا عربی معنی احمد بنتا ہے ، جس کا مطلب ستودہ جہان ہے ، مگر موجودہ انجیل سے یہ لفظ حذف کرکے شفیع اور مددگار کا لفظ شامل کردیا گیا ہے ، اس کی تصدیق قرآن پاک نے بھی کی ہے ، سورة صف میں موجود ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ، اے بنی اسرائیل ! میں تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں اپنے سے پہلی کتاب تورات کا مصدق ہوں (آیت) ” ومبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد “۔ اور میں خوشخبری دینے والا ہوں ایک عظیم الشان رسول کی جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد ہوگا ، آپ نے فرمایا کہ اللہ نے میرے ذمہ دو فرائض لگانے ہیں ، ایک یہ ہے کہ میں تمام بنی اسرائیل کی راہنمائی کے لیے بھیجا گیا ہوں اور دوسرا یہ کہ میں اپنے بعد والے نبی کی بشارت سنانے کے لیے آیا ہوں ۔ (حق پرست اہل کتاب) جس طرح تورات وانجیل کا کچھ نہ کچھ حصہ خود اس کے اپنے پیروکاروں کی دست برد سے ابھی تک محفوظ ہے ، اسی طرح اہل کتاب میں سے کچھ نہ کچھ حق پرست بھی ہر زمانے میں موجود رہے ہیں اگرچہ ان کی غالب اکثریت ہمیشہ ضد اور عناد پر ہی اڑی رہی ہے مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے کہ نزول قرآن کے زمانہ میں مدینہ کے گرد و نواح میں یہودیوں کے دس بڑے بڑے عالم تھے ، حضور ﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ دس آدمی اسلام قبول کرلیں تو آئندہ کوئی یہودی نظر نہیں آئے گا ، مگر ہوا یہ کہ ان دس میں سے صرف ایک شخص عبداللہ بن سلام ؓ کو اللہ نے ایمان کی توفیق بخشی ، باقی سب جانتے بوجھتے ضد پر اڑے رہے اور اسلام کی مخالفت ہی کرتے رہے سورة بقرہ میں اللہ نے ان کو خبردار کیا (آیت) ” ولا تکونوا اول کافر بہ “۔ کہ قرآن کے ساتھ سب سے پہلے انکار کرنے والے نہ بن جانا ، اگر تم نے قرآن کے ساتھ کفر کیا ، تو تمہارے بعد آنے والی نسلیں بھی تمہارے نقش قدم پر چلتے ہوئے انکار ہی کرتی چلی جائیں گی چناچہ ایسا ہی ہوا ، اولین اہل کتاب نے انکار کیا تو آج منکرین کی تعداد اربوں میں ہے ، آج دنیا میں اڑھائی ارب عیسائی موجود ہیں جو چودہ سو سال سے قرآن پاک کی متواتر مخالفت کرتے آرہے ہیں ، یہودی اگرچہ تعداد میں بہت کم یعنی دو کروڑ کے قریب ہوں گے ، مگر اسلام کو نقصان پہنچانے میں انہوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ، ان کے بڑوں نے قرآن کا انکار کیا ، اسلام کو قبول نہ کیا ، تو آج ان کی اولادیں بھی اسی روشن پر چل رہی ہیں مگر جیسا کہ سورة آل عمران میں موجود ہے (آیت) ” لیسوا سوآئ “ سب کے سب برابر نہیں ، مشہور مقولہ ہے کہ پانچوں انگلیاں ایک سی نہیں ہوتیں ، یہود ونصاری میں سے بھی بعض حق پرست ہمیشہ موجود رہے ہیں ، حضور ﷺ کے زمانہ مبارک میں بھی بعض سعادت مند اہل کتاب موجود تھے جنہوں نے بالآکر ایمان قبول کرلیا ، عالموں میں سے عبداللہ بن سلام ؓ اور بعض دوسرے منصف مزاج لوگ ہیں ، بادشاہوں میں نجاشی والی حبشہ کا نام آتا ہے ، اس کے علاوہ 32 دیگر حق طلب عیسائی بھی موجود تھے ، اللہ نے ان کی تعریف بیان کی ہے نجران کے چالیس آدمیوں نے بھی ایمان قبول کیا ، تمیم داری ؓ کا مذہب بھی عیسائیت تھا ، بعد میں ایمان قبول کرلیا ، سلمان فارسی ؓ کا نام بھی اسی فہرست میں آتا ہے ، ایسے لوگ پہلے کتاب کا علم رکھتے تھے اور حق کے طالب تھے ، تو اللہ نے ان کو ہدایت نصیب فرمائی ، ایسے ہی لوگوں کے متعلق ارشاد ہے کہ وہ نزول قرآن پر خوش ہوتے ہیں ، ان کی خوشی کی وجہ یہ ہے کہ جب انہوں نے دیکھا کہ قرآن کریم پہلی کتابوں کا مصدق ہے ، ان میں پیدا کی گئی خرابیوں کی نشاندہی کرتا ہے ، بنیادی حقائق کی تصدیق کرتا ہے اور سارے نبیوں پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے تو ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی ۔ اس زمانے میں بھی کہیں نہ کہیں حق پرست نکل آتے ہیں فرانس کے ایک بڑے سائنسدان نے اسلام قبول کیا ، یہ شخص الجزائریوں سے میل جول کے نتیجے میں مسلمان ہوا ، ملکہ وکٹوریہ کے زمانے میں مسٹر کو یلم بہت بڑا بیرسٹر تھا ، وہ اپنے خاندان کے اسی افراد سمیت مسلمان ہوا ، اس وقت دنیا میں انگریز انتہائی عروج پر تھا ، انہوں نے اس کے ساتھ بڑے جھگڑے کئے مگر وہ تنہا مقابلہ کرتا رہا ۔ اور ایمان پر قائم رہا ، یہودیوں میں سے جرمنی کے رہنے والے محمد اسد کو ایمان کی دولت نصیب ہوئی ، وہ ابھی زندہ ہے ، محمد پکھتال مترجم قرآن ہے یہ شخص ترکوں کے آخری شیخ الاسلام کی مجلس میں سات سال تک بیٹھا رہا ، آخر اللہ نے کایا پلٹ دی اور وہ مسلمان ہوگیا ، ان کا ترجمہ ہم پڑھتے ہیں ، اس نے ترجمہ مکمل کرکے مصری علماء کے سامنے پیش کیا تاکہ اگر کوئی غلطی ہو تو دور ہو سکے اور اب یہ انگریزی ترجمہ ساری دنیا میں شائع ہو رہا ہے ، یہ شخص کچھ عرصہ تک ہندوستان کے صوبہ مدارس میں بھی رہا ، نواب حیدر آباد کے ہاں بھی رہا ، انگریزی اخبار کے ایڈیٹر کے طور پر بھی کام کیا ، اب فوت ہوچکا ہے ، اہل کتاب کے علاوہ ہندوؤں ، سکھوں ، بدھوں اور جینیوں میں سے بھی بعض حق پرست ہوئے مگر کوئی اکا دکا ، یہود ونصاری کے متعلق تو اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر فرمایا ہے کہ ان میں سے کچھ مومن ہیں (آیت) ” واکثرھم الفسقون “۔ (آل عمران) مگر ان کی اکثریت فاسق ہے ۔ (قرآن کا عملی انکار) فرمایا جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے ، وہ خوش ہوتے ہیں اس چیز پر جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہے (آیت) ” ومن الاحزاب من ینکر بعضہ “۔ اور فرقوں میں سے بعض وہ ہیں جو اس کے بعض حصے کا انکار کرتے ہیں ، قرآن پاک کے موافقین اور مخالفین عربوں میں بھی تھے اور یہود ونصاری میں بھی ، آج مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ قرآن پاک کی بہت سی باتوں کا عملی طور پر انکار کر رہے ہیں جب انگریز نے برصغیر میں عنان حکومت سنبھالی تو اس نے لوگوں سے دریافت کیا تھا کہ تم شریعت کا قانون چاہتے ہو یا رسم و رواج پر عمل پیرا ہونا چاہتے ہو ، اس طرح بعض اضلاع کے لوگوں نے رسم و رواج کو شریعت پر ترجیح دی اور ان کے معاملات شریعت کی بجائے رسم و رواج کی بنیاد پر فیصلہ ہونے لگے ، ظاہر ہے کہ ان کو شرعی قانون اس لیے ناپسند تھا کہ وہ ان کی ذاتی خواہشات کے راستے میں حائل تھا ، ایسے ہی لوگ ہیں جو قرآن کے بعض حصے کو مانتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں ، ان کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہ ہے کہ دنیا میں ان کو ذلت ہوگی اور آخرت میں سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے ، جب تک قرآن پاک پر مکمل طور پر عمل نہیں ہوگا ، اس وقت تک مسلمانوں کو اس دنیا میں عزت نصیب نہیں ہو سکتی ۔ (شرک سے برات) آگے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو خطاب کیا ہے قل آپ کہہ دیں (آیت) ” انما امرت ان اعبداللہ “۔ مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کروں (آیت) ” ولا اشرک بہ “۔ اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤں ، مشرکین مکہ کہتے تھے کہ تم ہمارے معبودوں کی برا بھلا کہتا ہے ، اللہ نے فرمایا کہ آپ صاف کہہ دیں کہ یہ بےجان بت نے معنی ہیں میں تو صرف اللہ کی عبادت کرتا ہوں کسی دوسرے کو الہ تسلیم نہیں کرسکتا ۔ عبادت انتہائی درجے کی تعظیم کو کہا جاتا ہے جو اس عقیدے سے اٹھے کہ جس ہستی کی عبادت کر رہا ہوں ، اس کو مافوق الاسباب تمام اشیاء پر کنٹرول حاصل ہے ، وہ علیم کل ، خالق اور مدبر ہے ، اس ذات کی تعظیم قول سے بھی ہوتی ہے ، فعل سے بھی اور عمل سے بھی ، چناچہ سورة انعام میں اللہ نے شرک کی تمام اقسام کی مذمت بیان کی ہے ، سورة کی ابتداء ہی ان الفاظ سے ہوتی ہے کہ تمام تعریفیں اس اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں ، جس نے آسمان اور زمین پیدا کیے (آیت) ” وجعل الظلمت والنور “۔ نیز اندھیروں اور روشنی کو بھی پیدا فرمایا ، یہ ان ثنوی فرقہ والوں کی تردید ہے ، جو اندھیروں اور روشنی کا علیحدہ علیحدہ خالق تسلیم کرتے ہیں ، ان کے نزدیک نیکی اور بدی کے خدا جدا جدا ہیں ، یزدان اور اہرمن دو خدا تسلیم کرنا خدا کی ذات میں شرک کرنا ہے ، اسی طرح خدا کی صفات میں شرک کرنے والے بھی بہت لوگ ہیں ، جو خدا تعالیٰ کی صفات مختصہ ہیں دوسروں کو بھی شریک کرتے ہیں ، ایسے لوگ علیم کل ، قادر مطلق حاضر ناظر ، اور مختار مطلق غیر اللہ کو بھی مانتے ہیں ، وہ خدا کے ساتھ دوسروں کو بھی مدبر مانتے ہیں ، سمجھتے ہیں کہ فلاں بھی ہماری حاجت روائی اور مشکل کشائی ، کرسکتا ہے یا کم از کم ہماری سفارش ہی کرسکتا ہے ، ۔ نذر ونیاز میں شرک ، قبر پرستی ، چڑھاوے چڑھانا اور روشنی کرنا سب اسی قبیل سے ہیں کبھی گنڈے تعویز کے ذریعے غیر اللہ سے مدد مانگی جاتی ہے کبھی مکان کی بنیادوں میں خون گرایا جاتا ہے تاکہ جنات سے پناہ حاصل کی جائے ، بسوں پر ” یا علی مدد “ اور یا غوث الاعظم “ کے کتبے لکھے جاتے ہیں ، کبھی جبرائیل اور میکائیل کو مدد کے لیے پکارا جاتا ہے اور کبھی اولیاء اللہ سے حاجت روائی کی امید رکھی جاتی ہے یہ سب شرک کی مختلف صورتیں ہیں جو آج بھی مسلمانوں میں رائج ہیں اللہ کے سارے نبی اللہ کی عبادت کی دعوت دیتے آئے ہیں ۔ (آیت) ” یقوم اعبدوا اللہ مالک من الہ غیرہ “۔ (ہود) اے میری قوم کے لوگو ! صرف اللہ کی عبادت کرو کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی زبان سے بھی یہی کہلوایا ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤں ۔ (دعوت الی اللہ) فرمایا ، اے پیغمبر ! آپ یہ بھی کہہ دیں (آیت) ” الیہ ادعوا “ میں اسی ایک اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں جس کا کوئی شریک نہیں ، نہ عبادت میں ، نہ صفت میں اور نہ حقوق میں ، سورة یوسف میں بھی گزر چکا ہے اللہ نے حضور ﷺ کی زبان سے کہلوایا کہ یہ میرا راستہ ہے ۔ (آیت) ” ادعوا الی اللہ “ میں اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں ۔ (آیت) ” علی بصیرۃ انا ومن اتبعنی “۔ میں بھی بصیرت کی دعوت ہے ، کفر ، شرک اور برائی کی دعوت ظلمت ہے ، ایمان کی دعوت نور ہے جس سے انسان کے قلب میں بصیرت پیدا ہوتی ہے ، مجھے اور میرے پیروکاروں کو دین کی کسی بات میں شبہ نہیں ہے ۔ تمام انبیاء کی بات ہمیشہ واضح ہوتی ہے ، حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا تھا ، لوگو ! میری دعوت کو خوب اچھی طرح سمجھ لو میرا بھروسہ اللہ تعالیٰ پر ہے ، تمام شرکاء کو بھی جمع کرلو ، (آیت) ” ثم لایکن امرکم علیکم غمۃ “۔ پھر تمہیں کسی بات میں شبہ نہیں رہنا چاہئے ، میں واضح طریقے پر بات کر رہا ہوں ، میں خدا تعالیٰ کی طرف دعوت دیتا ہوں (آیت) ” والیہ ماب “ اور اسی کی طرف میرا ٹھکانا ہے ، مجھے بہرحال اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔ (قرآن در عربی زبان) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” وکذلک انزلنہ حکما عربیا “۔ اور اسی طریقے سے ہم نے اس قرآن کو ایک فیصلے کے طور پر اتارا ہے عربی زبان میں ، ” کذلک “ کی تشبیہ سابقہ کتب سماویہ کی طرف ہے کہ جس طرح ہم سابقہ ادوار میں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام پر وحی بھیجتے رہے ہیں ، اسی طرح ہم نے آپ کی طرف قرآن نازل کیا ہے ، اور یہ عربی زبان میں ہے قرآن پاک میں یہ اصول بیان کردیا گیا ہے (آیت) ” وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ “ (ابراہیم) ہم نے ہر رسول اس کی قوم کی زبان میں بھیجا ہے ، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سریانی یا عبرانی زبان بولتے تھے تو تورات عبرانی میں نازل ہوئی ، دیگر صحائف بھی ہر نبی کی قومی زبان میں نازل ہوئے ، پھر سب سے آخر میں اللہ نے اپنے آخری نبی کو عربوں میں پیدا کیا ، تو قرآن پاک بھی عربی زبان میں نازل ہوا ۔ عربی زبان کی ترقی نزول قرآن سے سولہ سترہ سو سال پہلے شروع ہوئی اور حضور ﷺ کے زمانہ تک یہ زبان انتہائی عروج پر پہنچ چکی تھی ، برصغیر میں اردو زبان کی ترویج خواجہ فریدالدین گنج شکر (رح) کے زمانے سے شروع ہوئی اور اب تک یہ ترقی کی انتہائی بلندیوں تک پہنچ چکی ہے سائنس فلسفہ ، تاریخ ، معاشیات ، سیاسیات وغیرہ اس زبان میں منتقل ہوچکے ہیں ، انگریزی زبان کی ترقی انگریزوں کے دو سوسالہ عروج کی مرہون منت ہے ، اسی طرح حضور کے زمانہ مبارک تک عربی زبان کو بڑی ترقی حاصل ہوچکی تھی ، عربوں میں بڑے بڑے شعراء اور خطیب تھے ، بڑے بڑے نفیس اور باریک بین متکلم موجود تھے مگر عربوں کو تسلیم کرنا پڑا کہ وہ قرآن کی فصاحت وبلاغت کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں ، مسیلمہ کذاب نے قرآن کے مقابلے میں اول فول کلام پیش کرنے کی کوشش کی تھی مگر حضرت عمرو ابن العاص ؓ کا اگرچہ اس کے ساتھ دوستانہ تھا اور وہ ابھی اسلام بھی نہیں لائے تھے ، مگر کہنے لگے ، یہ تیرے بس کا روگ نہیں ، آپ نے اس کے منہ پر تھوک دیا تھا ۔ امام شاہ ولی اللہ محدت دہلوی (رح) اور امام ابوبکر جصاص (رح) فرماتے ہیں کہ قرآن کا مقابلہ صرف زبان کے لحاظ سے نہیں بلکہ نظام کے لحاظ سے بھی ہے اگر قرآن کا چیلنج صرف زبان کے لحاظ سے ہوتا تو صرف عربوں کو خطاب ہوتا ، مگر اس کے مخاطب تو تمام بنی نوع انسان ہیں ، سورة اعراف میں اللہ کا ارشاد ہے کہ اے پیغمبر ! آپ تمام لوگوں سے کہہ دیں (آیت) ” انی رسول اللہ الیکم جمیعا “ میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ، میں کسی خاص قوم ، یا خطے یا خاص زمانے کے لیے نہیں آیا بلکہ روئے زمین کے تمام بنی نوع انسان کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ، اور یہ میری ڈیوٹی ہے ، کہ میں بھی خبردار کر دوں اور ان سب لوگوں کو متبہ کر دوں جہاں تک یہ قرآن پہنچے ، بہرحال اس کے اولین مخاطبین اہل عرب ہیں اور پھر وہ تمام لوگ جہاں تک یہ پیغام الہی پہنچے ۔ (وعید عامہ) فرمایا (آیت) ” ولئن اتبعت اھوآء ھم بعد ما جآء ک من العلم “۔ اگر آپ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی بعد اس کے کہ آپ کے پاس علم آچکا ہے تو یاد رکھیں (آیت) ” مالک من اللہ من ولی ولا واق “۔ آپ کے لیے اللہ کے سامنے نہ کوئی حمائتی ہوگا اور نہ کوئی بچانے والا ، اس آیت کریمہ میں مخاطب اگرچہ حضور ﷺ کی ذات مبارکہ ہے مگر اس سے مراد آپ کی قوم کو بات سمجھانا ہے کہ لوگو ! اچھی طرح سن لو کہ قانون اور ضابطہ آجانے کے بعد اس کی پیروی کی بجائے اگر خواہشات نفسانیہ پرچلو گے ، رسم و رواج کو اپناؤ گے یا برادری اور قبیلے کی بات پر عمل کرو گے تو پھر خدا کی گرفت میں آؤ گے اور اس سے بچ نہیں سکوگے علم کی عدم موجودگی میں تو انسان ایک حد تک مجبور ہوتا ہے مگر قرآن کے ذریعے علم آگیا تو اب کوئی حیلہ قابل قبول نہیں ہوگا ، اب صرف اور صرف قرآن کے پروگرام پر عمل کرنا ہوگا اسلام کی جگہ اب کوئی ازم قابل قبول نہیں ہوگا ، اگر اب بھی اسلام کے نظام کو نہیں اپناؤ گے تو پکڑے جاؤ گے ۔
Top