Aasan Quran - Ar-Ra'd : 36
وَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَفْرَحُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مِنَ الْاَحْزَابِ مَنْ یُّنْكِرُ بَعْضَهٗ١ؕ قُلْ اِنَّمَاۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰهَ وَ لَاۤ اُشْرِكَ بِهٖ١ؕ اِلَیْهِ اَدْعُوْا وَ اِلَیْهِ مَاٰبِ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اٰتَيْنٰهُمُ : ہم نے انہیں دی الْكِتٰبَ : کتاب يَفْرَحُوْنَ : وہ خوش ہوتے ہیں بِمَآ : اس سے جو اُنْزِلَ : نازل کیا گیا اِلَيْكَ : تمہاری طرف وَ : اور مِنَ : بعض الْاَحْزَابِ : گروہ مَنْ : جو يُّنْكِرُ : انکار کرتے ہیں بَعْضَهٗ : اس کی بعض قُلْ : آپ کہ دیں اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں اُمِرْتُ : مجھے حکم دیا گیا اَنْ : کہ اَعْبُدَ : میں عبادت کروں اللّٰهَ : اللہ وَ : اور لَآ اُشْرِكَ : نہ شریک ٹھہراؤں بِهٖ : اس کا اِلَيْهِ : اس کی طرف اَدْعُوْا : میں بلاتا ہوں وَاِلَيْهِ : اور اسی کی طرف مَاٰبِ : میرا ٹھکانا
اور (اے پیغمبر) جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ اس کلام سے خوش ہوتے ہیں جو تم پر نازل کیا گیا ہے، اور انہی گروہوں میں وہ بھی ہیں جو اس کی بعض باتوں کا ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ (33) کہہ دو کہ : مجھے تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں، اور اس کے ساتھ کسی کو خدائی میں شریک نہ مانوں، اسی بات کی میں دعوت دیتا ہوں، اور اسی (اللہ) کی طرف مجھے لوٹ کر جانا ہے، (34
33: اس آیت میں یہودیوں اور عیسائیوں کے مختلف گروہوں کا ذکر فرمایا گیا ہے، ان میں سے کچھ وہ ہیں جو قرآن کریم کی آیات سن کر خوش ہوتے ہیں کہ یہ وہی اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے جس کی پیشینگوئی پچھلی کتابوں میں کی گئی تھی، ، چنانچہ اس گروہ کے بہت سے افراد آنحضرت ﷺ پر ایمان لے آئے تھے، عیسائیوں میں سے بھی اور یہودیوں میں سے بھی، یہ حقیقت ذکر فرما کر ایک طرف تو کفار مکہ کو شرم دلائی گئی ہے کہ جن لوگوں کے پاس آسمانی ہدایت موجود ہے، وہ تو ایمان لارہے ہیں اور جن لوگوں کے پاس نہ کوئی کتاب ہے نہ کوئی اور آسمانی ہدایت، وہ ایمان لانے سے کترا رہے ہیں، اور دوسری طرف آنحضرت ﷺ اور دوسرے مسلمانوں کو تسلی بھی دی گئی ہے کہ جہاں اسلام کے دشمن موجود ہیں، وہاں بہت سے لوگ اس پیغام ہدایت کو قبول بھی کررہے ہیں، یہودیوں اور عیسائیوں میں دوسرا گروہ وہ کافروں کا ہے ان کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ وہ قرآن کریم کے بعض حصوں کا انکار کرتے ہیں بعض حصوں کا ذکر کرکے اشارہ کیا گیا ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں میں سے جو لوگ ایمان نہیں لائے وہ بھی قرآن کریم کی ساری باتوں کا انکار نہیں کرسکتے ؛ کیونکہ اس کی بہت سی باتیں وہ ہیں جو توارت یا انجیل میں بھی موجود ہیں، مثلاً توحید پچھلے انبیاء کرام پر ایمان اور ان کے واقعات آخرت کا عقیدہ وغیرہ، اس کا تقاضا یہ تھا کہ وہ سوچتے کہ آنحضرت ﷺ کو ان باتوں کے معلوم ہونے کا کوئی ذریعہ آپ کے پاس نہیں ہے، اس لئے یہ بات ظاہر ہے کہ آپ کو یہ باتیں وحی سے معلوم ہوئی ہیں اس صورت میں آپ کی رسالت کو تسلیم کرنا چاہیے۔ 34: اس آیت میں اسلام کے تین بنیادی عقائد توحید رسالت اور آخرت کا بیان فرمایا گیا ہے۔ پہلا فقرہ توحید کے اعلان پر مشتمل ہے دوسرے فقرے میں فرمایا گیا ہے کہ اسی بات کی میں دعوت دیتا ہوں۔ اس سے آنحضرت ﷺ کے رسول ہونے کا اثبات کیا گیا ہے۔ اور آخری فقرہ یعنی اسی کی طرف مجھے لوٹ کر جانا ہے۔ آخرت کے عقیدے کو ظاہر کرتا ہے۔ کہنا یہ مقصود ہے کہ یہ تینوں عقائد پچھلی کتابوں میں بھی ہوئے ہیں۔ پھر قرآن کریم کے انکار کا کیا جواز ہے۔
Top