Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Kahf : 79
اَمَّا السَّفِیْنَةُ فَكَانَتْ لِمَسٰكِیْنَ یَعْمَلُوْنَ فِی الْبَحْرِ فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِیْبَهَا وَ كَانَ وَرَآءَهُمْ مَّلِكٌ یَّاْخُذُ كُلَّ سَفِیْنَةٍ غَصْبًا
اَمَّا
: رہی
السَّفِيْنَةُ
: کشتی
فَكَانَتْ
: سو وہ تھی
لِمَسٰكِيْنَ
: غریب لوگوں کی
يَعْمَلُوْنَ
: وہ کام کرتے تھے
فِي الْبَحْرِ
: دریا میں
فَاَرَدْتُّ
: سو میں نے چاہا
اَنْ
: کہ
اَعِيْبَهَا
: میں اسے عیب دار کردوں
وَكَانَ
: اور تھا
وَرَآءَهُمْ
: ان کے آگے
مَّلِكٌ
: ایک بادشاہ
يَّاْخُذُ
: وہ پکڑ لیتا
كُلَّ سَفِيْنَةٍ
: ہر کشتی
غَصْبًا
: زبردستی
اور بہرحال کشی ، پس وہ تھی چند محتاجوں کی جو دریا میں کام کرتے تھے پس میں نے ارادہ کیا کہ میں اس کشتی کو عیب ناک بنا دوں ، اور تھا ان کے آگے ایک بادشاہ جو پکڑ لیتا تھا ہر (صحیح) کشتی کو بزور۔
ربط آیات : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور خضر (علیہ السلام) کا جو واقعہ بیان ہورہا ہے اس سے موسیٰ (علیہ السلام) کی تربیت مطلوب تھی ، اللہ تعالیٰ نے ان کی لغزش پر انہیں آزمائش میں ڈال دیا ، انہیں لمبا چوڑا سفر اختیار کرنا پڑا ، پھر خضر (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی تو بعض شرائط کے تھت ان کی رفاقت منظور ہوئی ، مگر موسیٰ (علیہ السلام) ان شرائط پر قائم نہ رہ سکے ، خضر (علیہ السلام) کی معیت میں تین واقعات پیش آئے تو موسیٰ (علیہ السلام) وعدہ کے مطابق خاموش نہ رہ سکے انہوں نے پہلا اعتراض بھول کر کیا تھا پر دوسرا اعتراض پر خود پیش کش کی کہ اس بار درگزر کیا جائے اور اگر آئندہ اعتراض کروں تو بیشک مجھے الگ کردیا جائے ، چناچہ تیسرے اعتراض پر خضر (علیہ السلام) نے صاف کہہ دیا کہ اب میرا اور تمہارا راستہ جدا جدا ہے البتہ میں ان تین چیزوں کی حقیقت واضح کیے دیتا ہوں جن پر آپ صبر نہیں کرسکے آج کے درس میں کشتی والے واقعہ کی حقیقت سے آگاہ کیا گیا ہے جب کہ باقی دو واقعات کے متعلق حقیقت اگلے درس میں بیان کی جائے گی ۔ (واقعہ کشتی کی حیات موسیٰ سے مناسبت) گذشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) اور خضر (علیہ السلام) نے کشتی کا سفر شروع کیا تو خضر (علیہ السلام) نے اچانک کشتی کا ایک تختہ اکھاڑ دیا جس سے کشتی کے مسافروں کی جانیں خطرہ میں پڑگئیں موسیٰ (علیہ السلام) اس پر صبر نہ کرسکے اور کہنے لگے (آیت) ” اخرقتھا لتغرق اھلھا “۔ کیا آپ نے کشتی کو اس لیے توڑ دیا ہے کہ اس کے مسافر غرق ہوجائیں ؟ اس وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) خود اپنے ذاتی واقعہ کو بھول گئے جو انہیں ابتدائی زندگی میں پیش آیا تھا اگر آپ اس واقعہ کو یاد کرلیتے تو پھر اس کشتی کے واقعہ پر بھی صبر کا دامن نہ چھوڑتے جس زمانے میں موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش ہوئی اس دور میں فرعون بنی اسرائیل کے نوزائیدہ بچوں کو قتل کرا دیتا تھا کیونکہ اسے انہیں میں سے کسی کے ہاتھوں اپنی سلطنت کے چھن جانے کا خطرہ تھا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے آپ کے قتل کے خوف سے آپ کو صندوق میں بند کر کے دریا میں بہادیا مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو نہ صرف فرعون کے مظالم سے بچایا بلکہ آبی لہروں کے درمیان بھی آپ کی حفاظت کی ، آپ بڑے ہوئے اور پھر فرعون کے زوال کا باعث بنے تو یہاں پر موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ تنبیہ مقصود تھی کہ آپ کشتی میں سوراخ دیکھ کر پریشان ہوگئے مگر آپ کو اس بات کا دھیان کیوں نہ آیا کہ جو خداوند کریم آپ کو دریار کی لہروں سے بچا سکتا ہے وہ اس کشتی کے سواروں کو بھی دریا سے پار لگانے پر قادر ہے لہذا آپ کو زیادہ فکر مند نہیں ہونا چاہئے ۔ (کشتی توڑنے کی حکمت) خضر (علیہ السلام) نے کشتی کو توڑنے کی حکمت اس طرح بیان کی (آیت) ” اما السفینۃ وکانت لمسکین “۔ بہرحال کشتی چند مسکینوں کی تھی (آیت) ” یعملون فی البحر “ جو دریا میں محنت مزدوری کرکے گزر اوقات کرتے تھے (آیت) ” فاردت ان اعیبھا “ تو میں نے ارادہ کیا کہ اس کو عیب دار بنادوں یعنی اس کو صحیح سلامت نہ رہنے دوں کیونکہ (آیت) ” وکان ورآء ھم ملک “۔ ان کے آگے ایک بادشاہ تھا (آیت) ” یاخذکل سفینۃ غضبا “۔ جو پکڑ لیتا تھا ہر کشتی کو بزور ان سے بیگار لیتا تھا اللہ کی مشیت یہ تھی کہ ان مساکین کی کشتی غصب ہونے سے بچ جائے لہذا خضر (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کشتی میں نقص پیدا کردیا تاکہ بادشاہ اسے نکمی سمجھ کر چھوڑ دے ، کسی دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے غصب کرلینا چوری ، ڈاکے اور خیانت کی طرح حرام ہے ، لہذا کسی مسلمان کے لیے روا نہیں کہ وہ دوسرے آدمی کا مال چھین لے خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو ، ہاں غیر مسلموں کے ساتھ جنگ میں جو مال غنیمت حاصل ہوتا ہے وہ جائز ہے اسی طرح زمانہ امن میں غیر مسلم ذمی یا معاہد سے ان کی جان ومال کی حفاظت کے طور پر جو جزیہ لیا جاتا ہے وہ بھی حلال ہے ۔ (مسکین اور فقیر کی اصطلاحات) قرآن پاک میں فقیر اور مسکین کی ، اصطلاحات اکثر مقامات پر استعمال ہوئی ہیں ، تاہم مفسرین کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ ہر دو قسم کے لوگوں میں سے کون زیادہ محتاج ہے ، بعض فقیر کو زیادہ محتاج سمجھتے اور بعض مسکین کو لفظ مسکین کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے جو بالکل تہی دست ہو سورة البلد میں موجود ہے (آیت) ” اومسکینا ذا متربۃ “۔ یعنی بالکل مٹی میں ملا ہوا جس کے پاس بالکل کچھ نہیں ، دوسری طرف فقیر کا لفظ اس شخص کے لیے بولا جاتا ہے جس کے پاس کچھ نہ کچھ ذریعہ آمدنی موجود ہو مگر وہ اس کی جائز ضروریات کے لیے ناکافی ہو ، بعض مفسرین ان اصطلاحات کے الٹ معنی کرتے ہیں یعنی فقیر وہ ہے جس کے پاس بالکل کچھ نہیں اور مسکین وہ ہے جس کے پاس تھوڑا بہت موجود ہے مگر اس کی گزراوقات نہیں ہوتی ، ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ فقر کا لغوی معنی ریڑھ کی ہڈی ہے ، اگر وہ ٹوٹ جائے تو آدمی بالکل ناکارہ ہوجاتا ہے ، لہذا فقیر وہ شخص ہے جو بالکل بےیارومددگار ہے اور جس کے پاس ایک وقت کا کھانا بھی موجود نہیں ہے بہرحال فقیر اور مسکین دونوں محتاج ہیں اسی لیے سورة توبہ میں جہاں اللہ تعالیٰ نے زکوۃ کے خرچ کی مدات بیان کی ہیں وہاں سب سے پہلے فقیر اور مسکین کو اس کا مستحق قرار دیا ہے (آیت) ” انما الصدقت للفقرآء والمسکین “۔ (آیت ، 6) (کشتی کی ملکیت) بعض مفسرین نے ان مساکین کی تفصیل بھی بیان کی ہے اور وہ اس کشتی کے ذریعے محنت مزدوری کرتے تھے ہو سکتا ہے کہ انہوں نے کسی دوسرے شخص سے کرایہ پر لے رکھی ہو اور آمدن کا کچھ حصہ اصل مالک کو بھی ادا کرتے ہوں ، تاہم بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ کشتی خود انہی کی ملکیت تھی وہ دس بھائی تھے ان میں سے ۔ پانچ تندرست و توانا تھے اور کام کرتے تھے جب کہ پانچ بھائی لولے لنگڑے یعنی معذور تھے اور کام کاج کے قابل نہیں تھے ، لہذا سارے کے سارے بھائیوں کی گزران اسی کشتی کی آمدنی پر تھی ان حالات میں کشتی عیب دار کردینا ان سب بھائیوں سے ذریعہ روز گار چھینے کے مترادف تھا جس کی وجہ سے موسیٰ (علیہ السلام) کو سخت تشویش ہوئی اور انہوں نے فورا اعتراض کردیا ۔ (عیب ناکی کی مصلحت) مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ خضر (علیہ السلام) کا کشتی کو عیب ناک بنادینا اس کو ہزار درستگی سے بہتر تھا کیونکہ مصلحت اسی میں تھی اگر یہ کشتی صحیح سلامت رہتی تو پکڑی جاتی اور وہ مساکین ذریعے آمدنی سے محروم ہوجاتے مفسرین کی روایت کے مطابق جب کشتی پکڑے جانے کی حد سے گزر گئی تو خضر (علیہ السلام) نے خود اپنے ہاتھ سے ٹوٹے ہوئے تختے کو پھر درست حالت میں کردیا ، آپ صاحب معجزہ اور مامور من اللہ تھے لہذا مصلحت خداوندی کے مطابق کشتی کا ٹوٹ جانا اور پھر خضر (علیہ السلام) کے ہاتھوں سے درست ہوجانا کچھ عجیب بات نہیں بعض فرماتے ہیں کہ خضر (علیہ السلام) نے کشتی کا تختہ توڑ کر اس کی جگہ شیشے کا پیوند لگا دیا تھا تاکہ کشتی بظاہر ٹوٹی ہوئی نظر آئے مگر اس میں پانی داخل نہ ہو ، بہرحال کشتی کو عیب دار بنانے کی یہ وجہ تھی ۔ (اسلام اور جدید عصری تقاضے) مولانا سید مناظر احسن گیلانی (رح) ہمارے زمانے میں ذہین وفطین عالم گزرے ہیں آپ صوبہ بہار کے ایک گاؤں گیلان کے رہنے والے تھے اور بیس پچیس سال قبل وہی فوت ہوئے ، آپ حیدرآباد دکن میں اسلامیہ یونیورسٹی کے شعبہ دینیات کے صدر تھے آپ دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل تھے ، آپ نے کشتی کے واقعہ کے تناظر میں یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ جس کشتی کی عیب ناکی ہی اس کی سلامتی کی ضمانت بنی اس طرح متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی جدید تعلیم سے بےبہرگی ہی دین کے حق میں مفید ثابت ہوئی ۔ قیام پاکستان سے قبل برصغیر میں عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد دکن واحد یونیورسٹی تھی جس کے تعلیم یافتہ لوگ اسلامی ذہن رکھتے تھے ، یہ مولانا مناظر احسن گیلانی کی کاوش کا نتیجہ تھا ، وگرنہ دیگر تمام یونیورسٹوں (علی گڑھ ، کلکتہ ، لاہور وغیرہ) کے تعلیم یافتہ لوگ الحاد کا شکار ہی رہے ہیں ، اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو گذشتہ ڈیڑھ صدی میں برصغیر کے بعض خضر صفت لوگوں نے بےسروسامانی کی حالت میں دینی تعلیم کا بیڑہ اٹھایا اور کفر والحاد کے اندھیروں میں توحید وسنت کے چراغ روشن کیے ، اس سلسلہ میں اولین کوشش حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی (رح) کی تھی جنہوں نے دارالعلوم دیوبند سے دینی مدارس کی ابتدا کی اور پھر اس کی شاخیں مراد آباد ، سہارنپور اور دہلی تک پھیلا دیں ، 1857 ء کی جنگ آزادی میں سب سے زیادہ نقصان بھی مسلمانوں کا ہی ہوا ، انگریزوں نے ان سے خوب انتقام لیا اور ہزاروں علمائے حق کو سولی پر لٹکا دیا ۔ مسلمانوں سے اقتدار چھین لیا گیا اور ان کی جائیدادیں ضبط کرلی گئی ان حالات میں بزرگان دین نے دینی مدارس قائم کرکے الحاد کے آگے بند باندھ دیا۔ یہ مدرسے خالص دینی تعلیم کے داعی تھے اور انہیں جدید علوم سے جان بوجھ کر الگ رکھا گیا ، یہ مدارس اس لحاظ سے عیب ناک تھے کہ ان کے فارغ التحصیل طلباء کے پاس حصول معیشت کے لیے کوئی ڈگری نہیں ہوتی تھی ، بانیان مدارس اچھی طرح جانتے تھے کہ جن مدارس میں حکومت کا عمل دخل شروع ہوجائے اور ان کے پیش نظر عصری تقاضے بھی ہوں ، وہاں دین کا پہلو کمزور ہوجاتا ہے ، ان کا تجربہ تھا کہ حکومت سے امداد حاصل کرنے والے مدارس کو انگریزوں نے جلد ہی زیر تسلط کرلیا اور پھر انہیں اپنے غلط مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بنایا ، لہذا ان مدارس نے مالی وسائل کی پرواہ کیے بغیر دین کی حفاظت کا ذمہ اٹھایا ، چناچہ گذشتہ ڈیڑھ صدی میں ان ٹوٹے پھوٹے شکستہ حالی اور عصری تقاضوں سے بےنیاز مدارس نے دین کی بےمثال خدمت کی ہے ، یہ انہیں بزرگوں کا کاوش کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستان میں پانچ سات سو دینی مدارس کام کر رہے ہیں خود ہندوستان کے سیکولر سٹیٹ ہونے کے باوجود دہاں پر ایسے مدارس کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے ، اسی طرح مسلم بنگال میں بھی یہ مدرسے دینی تعلیم کی اشاعت کا کام کر رہے ہیں ، انگریزوں نے ایسے مدارس کی اس قدر حوصلہ شکنی کی کہ ایک عام پرائمری پاس تو ووٹر بن سکتا تھا مگر دینی مدرسے کے فارغ التحصیل کو ووٹ دینے کے حق سے محروم رکھا گیا تھا 1945 ء میں اگرچہ میں دارالعلوم دیوبند کا سند یافتہ تھا مگر میں ووٹ کے حق سے اس لیے محروم رہا کہ نہ تو میرے پاس بائیس ہزار روپے کی جائداد تھی اور نہ پرائمری کی سند ۔ (دینی مدارس کی عیب ناکی) بہرحال جس طرح خضر (علیہ السلام) نے کشتی کو عیب دار بنا کر اللہ کے حکم سے اس پر کام کرنے والے مزدوروں کی معیشت کی حفاظت کی اسی طرح ہمارے بزرگوں نے دینی مدارس کو عصری تقاضوں سے الگ رکھ کر دین کی ایسی عملی خدمت کی جس کا بدل آج تک نہیں مل سکا ، پاکستان کی چالیس سالہ تاریخ میں یہاں کی کوئی حکومت بھی ان مدارس کا بدل پیدا نہیں کرسکی ان مدارس کے تربیت یافتہ لوگ سادہ زندگی بسر کرتے ہیں مصائب کو برداشت کرتے ہیں مگر مسلمانوں کی دینی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں ، یونیورسٹیوں میں جدید تعلیم حاصل کرنے والوں پر فورا جدت طاری ہوجاتی ہے اور وہ اس قابل نہیں ہوتے کہ دین کے معاملہ میں ان پر انحصار کیا جاسکے وہ خود خلاف سنت کام کرتے ہیں لہذا ان کے پیچھے تو نماز بھی ادا نہیں کی جاسکتی بہرحال ان مدارس کے تربیت یافتہ لوگوں نے ہی دین کا علمی نمونہ پیش کیا ہے اور جدید عصری تقاضوں سے دور رہنا ہی دین کی حفاظت کا سبب بنا ہے ۔ اس وقت پاکستان میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور واحد یونیورسٹی ہے جس کے متعلق یہ دعوے کیا جاتا ہے کہ اس کی بنیاد دینی تعلیم پر رکھی گئی ہے مگر گزشتہ بیس سال کے دوران اس یونیورسٹی نے بھی دین کا کوئی عملی نمونہ پیش نہیں کیا اس یونیورسٹی اور ملک کی باقی یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ لوگوں میں کوئی فرق نہیں ، وہاں بھی جدید علوم کے ساتھ ساتھ مخلوط تعلیم کا انتظام ہے ، لہذا ایسے ادارے سے دین کی خدمت کی توقع عبث ہے ، دین کے عملی نمونے کے لیے دارالعلوم دیوبند یا مظاہر العلوم سہارنپور کی طرز کے مدارس کی طرف ہی نظریں اٹھتی ہیں جو حکومت کی سرپرستی کے بغیر دین کی ترویج پر کمر بستہ ہیں جس طرح واقعہ خضر میں کشتی کی عیب ناکی اس کی ہزار درستگی سے بہتر تھی ، اسی طرح دینی مدارس کی جدید عصری تقاضوں سے علیحدگی کی عیب ناکی دین کے حق میں ہزار درجے بہتر ہے ۔
Top